محسن کمال
محسن کمال (پیدائش:16جون،1963ء لائل پور (اب فیصل آباد)، پنجاب) پاکستانی ایک سابق کرکٹ کھلاڑی تھے، جنھوں نے 1984ء سے 1994ء تک 9 ٹیسٹ اور 19 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے۔ محسن کمال نے پاکستان کے علاوہ الائیڈ بینک، لاہور اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی طرف سے بھی کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا۔
فائل:Mohsan Kamal.jpeg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | فیصل آباد، پنجاب، پاکستان | جون 16, 1963|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا تیز گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 100) | 19 مارچ 1984 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 01نومبر 1994 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 54) | 02 دسمبر 1984 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 01 جنوری 1989 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006 |
ٹیسٹ کرکٹ
ترمیممحسن کمال کو 1984ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلستان کی کرکٹ ٹیم کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کا موقع ملا۔ بیٹنگ میں تو کوئی رنز نہ بنا سکے تاہم بولنگ کے شعبے میں انھوں نے انگلش کپتان ڈیوڈ گاور کو انیل دلپت کے ہاتھوں 9 رنز پر کیچ کروا کے اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی جبکہ دوسری اننگ میں گریم فلاور اس کا شکار بنے اور اتفاق سے اس بار بھی انیل دلپت نے کیچ کرکے انھیں یہ کامیابی دلوائی۔ اگلے سال سری لنکا کی ٹیم کے خلاف سیالکوٹ میں محسن کمال کی گیندیں بڑی ظالم ثابت ہوئیں۔ ٹیسٹ میں ایک مرتبہ پھر وہ بیٹنگ کے شعبے میں ناکام رہے مگر بولنگ کے شعبے میں انھوں نے سری لنکا کی ٹیم کو 157 رنز تک محدود کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عمران 55/4، وسیم اکرم 38/2، مدثر نذر 6/1 نے بھی موثر بولنگ کی مگر یہ محسن کمال ہی تھے جنھوں نے 17 اوورز میں سے 3 میڈن اوورز کرکے 50 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ محسن کمال نے رنجن مدوگالے صفر، رائے ڈیاس 21 اور کپتان دلپ مینڈس کو 20 رنز ہی بنانے دیے۔ دوسری اننگ میں رنجن مدوگالے 65 رنز بنانے کے بعد محسن کمال کی میچ میں چوتھی وکٹ بنے۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ 8 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ پاکستان کے جوابی دورے میں مارچ 1986ء میں کولمبو کے میدان پر محسن کمال دونوں اننگز میں 1 اور 3 پر آئوٹ ہونے سے بچے رہے اور بولنگ میں انھوں نے 2/52 کی کارکردگی دکھائی۔ اگلے سال پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کے لیے انگلستان پہنچی تو محسن کمال تیز انگلش وکٹوں پر دھوم مچانے کے آرزومند تھے۔ مانچسٹر کے پہلے ٹیسٹ میں انھیں 4 وکٹیں مل گئیں تاہم اس کے لیے 127 رنز جھونکنے پڑے۔ لارڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں 42/1 کچھ مناسب ہی کارکردگی رہی لیکن لیڈز کے ٹیسٹ وہ صرف 41 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کو کریز سے رخصت کرنے کا سبب بن گئے لیکن برمنگھم کے ٹیسٹ میں 122 رنز کا دائو کھیلنے کے باوجود ان کے حصے میں کوئی وکٹ آ سکی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ طویل عرصہ کرکٹ کے میدانوں سے دور رہے اور مقامی سطح پر ڈومیسٹک کرکٹ میں اعلیٰ کارکردگی پیش کرکے ٹیم میں واپسی کا راستہ بناتے رہے۔ان کی یہ محنت 7 سال بعد اس وقت پوری ہوئی جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے 1994ء میں پاکستان کا دورہ کیا تو محسن کمال ٹیم کا حصہ بنے۔ انھوں نے راولپنڈی کے ٹیسٹ میں جو برابری پر ختم ہوا تھا، 3 آسٹریلوی کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ مارک ٹیلر 69، مائیکل سلیٹر 110 اور مارک وا 68 کی وکٹیں انھوں نے 109 رنز دے کر اپنے قبضے میں کرلی تھیں جبکہ لاہور کا ٹیسٹ ان کی 4 وکٹوں کے حوالے سے یادگار رہے گا۔ یہ ٹیسٹ بھی ڈرا پر ختم ہوا جس میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 373 رنز بنائے تھے جس میں معین خان 115، سلیم ملک 75، انضمام الحق 66 اور اعجاز احمد 48 رنز کے ساتھ نمایاں بلے باز تھے۔ محسن کمال صرف 4 رنز بنا کر شین وارن کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے جواب میں 455 رنز سکور کیے۔ محسن کمال نے 116 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ انھوں نے مائیکل سلیٹر، مارک وا، جسٹن لینگر اور شین وارن کو پویلین کے راستے پر گامزن کیا جو اس لحاظ سے عام تھا کہ یہ ان کا آخری ٹیسٹ تھا اور انھوں نے اسے ایک یادگار شکل میں ختم کیا۔
ون ڈے کیریئر
ترمیم1984ء میں محسن کمال کو نیوزی لینڈ کے خلاف سیالکوٹ کے میچ میں ڈیبیو کرنے کا موقع فراہم کیا گیا جس میں انھوں نے 46 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ جان رائٹ کو 24 رنز پر سلیم ملک کے ہاتھوں کیچ کروا کر اس نے اپنی پہلی ون ڈے وکٹ حاصل کی جبکہ جان بریسلر اور مارٹن کرو بھی اسی میچ میں ان کے ہتھے چڑھے۔ ایک روزہ مقابلوں میں محسن کمال کی سب سے اچھی کارکردگی 1986ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کولمبو میں رہی جہاں انھوں نے 47 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ مجموعی طور پر وہ بلے کے ساتھ کچھ موثر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے وہ مستقل طور پر ٹیم کا حصہ نہ رہ سکے۔
اعداد و شمار
ترمیممحسن کمال نے 9 ٹیسٹ میچوں کی 11 اننگز میں 7 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 37 رنز بنائے۔ 9.25 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 13 ناقابل شکست اس کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ اس نے 19 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں کی 6 اننگز میں 3 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 27 رنز سکور کیے۔ 9.00 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 11 ناقابل شکست رنز اس کی کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ جبکہ فرسٹ کلاس میچوں میں محسن کمال نے 129 میچوں کی 156 اننگز میں 42 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1348 رنز سکور کیے جس میں 44 ان کا زیادہ سے زیادہ سکور اور 11.82 ان کی فی اننگ بیٹنگ اوسط تھی۔ محسن کمال نے بولنگ کے شعبے میں 822 رنز دے کر 24 ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں۔ 4/116 اس کی کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی تھی جس کے لیے انھیں فی وکٹ 34.25 کی اوسط حاصل ہوئی۔ محسن کمال نے ایک روزہ مقابلوں میں 21 وکٹ حاصل کیے جس کے لیے انھوں نے 36.19 کی اوسط سے 760 رنز دینا پڑے۔ کسی ایک اننگ کی بہترین بولنگ 4/47 تھی جبکہ فرسٹ کلاس میچوں میں اس کی وکٹوں کی تعداد 320 رہی جس کے لیے اسے 32.40 کی اوسط سے 16877 رنز جھونکنے پڑے۔ 7/87 اس کی کسی ایک اننگ کا بہترین سکور تھا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |