محمد طلحہ کاندھلوی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں مزید حوالہ جات کی ضرورت ہے تاکہ مضمون میں تحریر کردہ معلومات کی تصدیق کی جاسکے۔ |
مولانا طلحہ کاندھلوی (28 مئی 1941–12 اگست 2019ء) ایک بھارتی عالم، محدث تھے۔ وہ محمد زکریا کاندھلوی کے فرزند، ان کے جانشین اور خانقاہ خلیلیہ کے سجادہ نشین تھے۔ وہ مظاہر علوم جدید کے سابق امین عام تھے۔
محمد طلحہ کاندھلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 مئی 1941ء سہارنپور |
وفات | 12 اگست 2019ء (78 سال) میرٹھ |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنفی |
والد | محمد زکریا کاندھلوی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | مظاہر علوم سہارنپور |
پیشہ | عالم ، فلسفی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی ، عربی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیماُن کی پیدائش 2 جمادی الاول 1390ھ بمطابق 28 مئی 1941ء کو محمد زکریا کاندھلوی اور اُن کی زوجہ ثانیہ، سلمہ کے ہاں سہارنپور میں ہوئی۔[1] ان کی والدہ چھ ماہ سہارنپور اور چھ ماہ نظام دہلی رہا کرتی تھیں اور والدہ کا جہاں قیام ہوتا ان کی تعلیم وہیں ہوتی، بیماری اور کمزوری کے سبب تکمیل حفظ قرآن میں ان کو دیر لگی، البتہ حفظ کے پورے ہونے تک مستقل قیام سہارنپور ہی رہا اور 16 رجب 1375ھ بمطابق 29 فروری 1956ء میں قرآن مجید مکمل ہوا، پہلی محراب 1376ھ میں مسجد شاہ جی دہلی میں سنائی۔ اُن کی فارسی کی تعلیم کا آغاز 5 دسمبر 1956ء میں سہارنپور میں ہوا، پھر اس کے بعد شش سال نظام الدین دہلی بسلسلہ تعلیم رہے اور عربی کی ابتدائی تعلیم یہیں سے پائی۔ مہینے میں ایک مرتبہ مولانا محمد یوسف کے ساتھ سہارنپور آتے تھے۔[2]
اُن کی ابتدائی تعلیم مظاہر علوم سہارنپور میں ہوئی پھر دہلی میں کاشف العلوم مرکز نظام الدین دہلی سے فراغت حاصل کی۔
بیعت و ارشاد
ترمیمپیر طلحہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ اپنے کتب خانہ یحیوی پر بیٹھا کھیل کھیل میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بیعت کر رہا تھا، اتنے میں مدنی کا تانگہ آگیا، حضرت تانگہ سے اترے اور مجھے بیعت کرتے دیکھا تو فرمایا کہ ’’مجھے بھی بیعت کر لیں‘‘ میں نے بلا تکلف کہہ دیا کہ آئیے اور مدنی کو بیعت کر لیا اس کے بعد سے مدنی مجھے ’’پیر صاحب‘‘ ہی کہہ کے پکارتے اور ایک طرح سے یہ میرا لقب پڑ گیا۔
علی میاں ندوی لکھتے ہیں دینی تعلیم سے فراغت پاکر وہ رائے پوری سے بیعت ہوئے اور پھر اپنے والد ماجد مخدوم الکل کی سرپرستی میں رہ کر ذکر و شغل میں مستعدی کے ساتھ مشغول ہوئے ماہ ربیع الاول 1391ھ میں شیخ نے اجازت بیعت مرحمت فرمائی۔
ان پر شروع سے مولانا عبد القادر رائے پوری کی خاص نگاہ شفقت تھی۔ ویسے بھی تمام معاصر بزرگوں اور شیخ کے یہاں آنے جانے والے صلحاء و علما کی ان پر خاص نظر رہی۔
طلحہ خود فرماتے ہیں: والد محترم حضرت شیخ محمد زکریا کی ذات چونکہ اس وقت کے علما و مشایخ کے لیے مرجع تھی اور علما و اتقیاء کی کچے گھر میں خوب آمد رہا کرتی تھی اس لیے ان بزرگان دین سے بچپن ہی سے استفادہ کا خوب موقع ملا ،حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجڑاڑوی،شیخ الاسلام حضرت مدنی، مولانا محمد یوسف ،مفتی محمود گنگوہی جیسے اکابر کی خدمت میں میرا بچپن گذرا ہے اس وقت کے کئی واقعات لوحِ ذہن میں محفوظ ہیں۔
خوش اخلاقی
ترمیمآپ کے پاس آنے والے ہر کس و ناکس سے بشاشت قلب اور خندہ پیشانی سے ملتے، مسکراتے ہوئے دیکھتے، بڑے چھوٹے سب کے ساتھ محبت و اخوت کا معاملہ رکھتے، جو انھیں چاہے یا نہ چاہے دوتوں کے ساتھ اپنائیت و تعلق کا معاملہ کرتے۔
مہمان نوازی
ترمیموہ بڑے مہمان نواز تھے۔ محمد زکریا کاندھلوی کی فیاضی اور ان کے دسترخوان کی وسعت بڑی مثالی تھی، پیر صاحب کے یہاں بھی اس کا بڑا اہتمام اور التزام ہوا کرتا تھا کہ کوئی بھی مہمان چاہے وہ خاص ہو یا عام، جماعت ہو یا فرد بغیر کھانا کھائے نہ جائے اور اس کے لیے مستقل خدام کو ہدایت دیتے رہتے تھے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی باقی نہ رہے، اگر مہمانوں کی خدمت میں کسی خادم سے کسی طرح کی ادنیٰ سی بھی کوتاہی محسوس کرتے تو اس کی سرزنش فرماتے۔
سید سلمان حسینی ندوی اپنی عربی تصنیف مذکّراتی میں لکھتے ہیں، ”میں نے ایسا با اخلاق کریم النفس، مہمان نواز نہیں دیکھا۔“[3]
غیر اسلامی وضع قطع سے تنفر
ترمیمپوری دنیا جہاں سے لوگ آپ سے ملاقات کے لیے اور دعا و زیارت کے لیے آتے تھے ،ان میں ہر طرح کے افراد ہوتے تھے ،اگر کسی کا لباس غیر اسلامی دیکھتے یا وضع قطع غیر شرعی دیکھتے تو برملا اس سے اظہار ناراضی فرماتے ،اور اگر کوئی ڈاڑھی منڈھا یا مقطوع اللحیہ ملاقات کے لیے بڑھ جاتا تو بہت مرتبہ ان کو اس قدر ڈانٹے تھے اور بعض مرتبہ اتباع سنت کی دعوت کے جذبہ سے اتنی سخت سرزنش کرتے کہ سامنے والا توبہ ہی کرلیتا ۔
وہ عابد زاہد سادگی پسند سادہ طبیعت تھے۔ انھوں نے کتابوں کی تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ انھوں نے محمد زکریا کے قائم کردہ کتب خانہ یحیوی کو ترقی دی۔ انھوں نے اپنے والد کی بہت سی نایاب ہو چکی کتابوں کو اہتمام کے ساتھ شائع کرایا۔ 1400ھ سے باضابطہ مظاہر علوم سہارنپور کے رکن شوریٰ اور چند سال تک اس کے جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز رہے۔[2] والد کی وفات کے بعد 1402ھ میں ان کی جگہ مظاہر علوم کے سرپرست بنائے گئے تھے۔[4]
وفات
ترمیم2013ء میں اُن کی وفات کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی تھی جس کی تردید کرتے ہوئے مفتی انیس احمد مظاہری نے کہا تھا کہ ”مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے جانشین مولانا محمد طلحہ کاندھلوی سہارنپور ہندوستان میں خیریت سے ہیں ان کی وفات کے حوالہ سے خبر درست نہیں ہے۔“[5]
2018ء میں ان کی اہلیہ علالت کے بعد میرٹھ میں 68 سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، ان کی نماز جنازہ محمد سعد کاندھلوی نے پڑھائی اور کاندھلہ سپرد خاک کی گئیں۔[6]
وہ طویل علالت کے بعد 10 ذوالحجہ 1440ھ مطابق 12 اگست 2019ء کو میرٹھ کے آنند ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ انھیں بعد نماز عشاء دیر رات میں بابا لال داس مارگ میں واقع حاجی شاہ کمال قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔[7]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سوانح شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی از ابو الحسن علی ندوی ص 185، مکتبہ اسلام
- ^ ا ب ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور، پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ از عبد اللہ خالد قاسمی خیرآبادی
- ↑ مذکراتی ص 56 مکتبہ الشبابہ العلمیہ لکھنؤ
- ↑ سوانح شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی از ابو الحسن علی ندوی ص 186، مکتبہ اسلام
- ↑ "مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کے انتقال کی خبر درست نہیں 'خیریت سے ہیں، مفتی انیس احمد"۔ نوائے وقت۔ 17 فروری 2013ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2019ء
- ↑ "مولانا طلحہ کاندھلوی کی اہلیہ انتقال کر گئیں، سپرد خاک کر دیا گیا"۔ روزنامہ پاکستان۔ 21 جون 2018ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2019ء
- ↑ "हजरत मौलाना तल्हा के इंतकाल से शोक की लहर"۔ دینک جاگرن (بزبان ہندی)۔ 12 اگست 2019ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2019ء