محمود درویش فلسطین کے مشہور شاعر۔ جنھوں نے اپنی شاعری کو فلسطینی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ محمود درویش پورے مشرقِِ وسطیٰ میں مشہور تھے اور انھیں فلسطین کا قومی شاعر سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے فلسطینوں کے اپنی ریاست کے خواب کو شاعری کے روپ میں بیان کیا اور سن انیس سو اٹھاسی میں فلسطینی آزادی کے اعلان کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ فلسطینی قوم کی شناخت کو اجاگر کرنے میں مدد دی۔ محمود درویش نے ایک مزاحمتی شاعر کی حیثیت سے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز کیا اور بعد میں فلسطینی ضمیر کی آواز بن گئے۔ محمود درویش کی شاعری کے اردو سمیت بیس سے زائد زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ ان کی شاعری پر انھیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔

محمود درویش
(عربی میں: محمود درويش ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: محمود درويش ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 13 مارچ 1941ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
البروہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 اگست 2008ء (67 سال)[4][1][2][5][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہوسٹن   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاستِ فلسطین   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف ،  مصنف ،  نغمہ نگار ،  فن کار ،  ملک الشعرا   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [6]،  عبرانی ،  فلسطینی عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر عبد الکریم الکرمی   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
پرنس کلاز ایوارڈ (2004)
لینن امن انعام   (1983)
لوٹس انعام برائے ادب (1969)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ[7]  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمود درویش کو عرب دنیا میں عظیم ترین شاعر مانا جاتا ہے۔انھیں کئی بین الاقوامی انعامات مل چکے ہیں۔دنیا بھر کے کئی ملکوں میں بڑے بڑے مجمعوں کے سامنے وہ اپنا کلام پیش کر چکے ہیں۔اس کی شاعری کے اب تک چودہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔جن میں سے پہلا مجموعہ "زیتون کی پتیاں"1964 میں شائع ہوا جب کہ "گیارہ سیارے "1993میں شائع ہوا۔اس کی کلیات جو اس کے پہلے نو مجموعوں پر مشتمل تھی ، کئی بار شائع ہو چکی ہے۔نثر میں اس کی سات کتابیں ہیں۔بہت سی نظمیں اور مضامین مختلف رسائل میں چھپ چکے ہیں۔ان کے علاو ٹی وی اور اخبارات کے لیے انٹرویوز بھی موجود ہیں۔اس کی شاعری کا انتخاب کم از کم بیس زبانوں میں شائع ہو چکا ہے ۔

محمود درویش "بروہ "نام کے ایک گاؤں میں جو گلیلی کے بالائی علاقے میں "عکرہ" کے ضلع میں واقع ہے،13مارچ 1942کو پیدا ہوا۔1948 میں اس گاؤں کے باشندے جن میں یہ بچہ اور اس کے گھر والے بھی شامل تھے،یہاں سے بھاگ کر لبنان میں پناہ گزین ہوئے اور اسرائیل کی نومولود مملکت نے اس گاؤں کو تباہ کر ڈالا۔محمود درویش کا خاندان بعد میں چھپ چھپ کر اپنے وطن واپس آ گیا مگر ان کو آنے میں اتنی تاخیر ہو گئی تھی کہ وہ وہیں رہ جانے والے فلسطینی عربوں کی مردم شماری میں شامل ہونے سے رہ گئے۔1966 تک اسرائیل کے فلسطین کے عرب شہری فوجی حکومت کے زیر نگیں تھے اور ایمرجنسی کا ایک پیچیدہ سلسلہ قوانین ان پر نافذ تھا۔جن میں یہ قانون بھی شامل تھا کہ وہ ملک کے اندر بھی سفر کرنے کے لیے اجازتنامہ حاصل کریں۔شناخت کے ان کاغذات سے محروم یہ شاعر مستقل زد پر تھا۔اور اسرائیلی حکومت اس کی مستقل نگرانی کرتی رہی۔1960اور 1961 کے درمیان اسے کئی مرتبہ قید کیا گیا اورانھیں اپنے ہی گھر میں نظربند رہنا پڑا۔اس نے اس کے سوا کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ وہ شعر کہتا رہا اور اپنے وطن میں اجازت نامے کے بغیر سفر کرتا رہا۔اسے پہلی مرتبہ حیفہ سے جانے کی اجازت ملی لیکن رات تک واپس آجانے کی شرط بھی رکھی گئی تاکہ پولیس اسٹیشن میں اندراج کرا سکیں۔1971میں محمود درویش اسرائیل سے رخصت ہو کر قاہرہ چلا گیا اور یہاں کے سب سے بڑے روزنامے "الاہرام "سے منسلک ہو گیا۔1973میں وہ فلسطین کی تنظیم آزادی میں فلسطین کے مرکز تحقیقات ،بیروت میں ڈائریکٹر کے معاون کے طور پر شامل ہو گیا اور ادارے کے تحقیقی مجلے کی ادارت میں ہاتھ بٹانے لگا۔اس کے کچھ عرصہ بعد وہ مرکز ڈائریکٹر اور اس مجلے کا مدیر اعلی بن گیا۔1984 میں وہ اتفاق رائے سے فلسطینی ادیبوں اور صحافیوں کی انجمن کا صدر منتخب ہو گیا۔1987میں وہ فلسطین کے اعلی ترین انتظامی ادارے پی ایل او کی مجلس نظما (ایگزیکٹو کمیٹی) کا رکن بن گیا اور اس منصب سے اس نے ستمبر 1993میں استعفیٰ دے دیا جب اسرائیل کی حکومت اور فلسطینی تنظیم آزادی نے "عبوری خود مختاری کے انتظامات سے متعلق اصولوں کے اعلان نامے"پر دستخط کردیے۔وہ اس معاہدے کا مخالف نہیں تھا بلکہ اس نے یہ دستخط اس لیے کیے کہ وہ اس پر خطر معاہدے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہتا تھا ۔

محمود درویش کی کتاب"ذکرت اللنسیان"لبنان پر اسرائیل کے اس حملے سے ابھری جو 6جون 1982کو شروع ہوا۔اس تحریر کا تاریخی پس منظر بیروت کا محاصرہ ہے۔1985میں محمود درویش نے پیرس میں واقع اپنے فلیٹ میں خود کو تقریبا 90 دن کے لیے بند کر لیا اور شدید وابستگی کے ساتھ جدید عربی ادب کے اس شاہکار کورقم کیا۔اس کی ہیئت یادداشت کی ہے ،بیروت کی سڑکوں پر گزارے ہوئے ایک دن کی یاد جب شہر پر زمین،سمندر اور فضا سے بم باری اس قدر شدید تھی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔محمود درویش کا انتقال 9اگست 2008میں ہوا

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ربط: https://d-nb.info/gnd/11894651X — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb118986871 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000023880 — بنام: Mahmoud Darwish — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. http://www.guardian.co.uk/books/2008/aug/11/poetry.israelandthepalestinians
  5. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/darwisch-mahmud — بنام: Mahmud Darwisch — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb118986871 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  7. مصنف: سرگرے برن اور لیری پیج — خالق: لیری پیج اور سرگرے برن