محمود صرخی
محمود حسنی صرخی (1964ء-) ایک متفکر و مفکر دین اسلام اور مجتہد جو شیعہ لبادہ اوڑھ کر فرقے میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔[1][2] شہری ریاست کی دعوت کے لیے معروف ہیں، نیز شیعت کو برباد کرنے اور شیعہ سنی کے مابین بہترین تعلقات اور اتحاد کے علمبردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔[3] جب مشہد عراق میں فرقہ وارانہ کشیدگی جاری تھی انھوں نے قتل و غارت گری کی حرمت پر فتوی دیا تھا،[4] عراق میں قابض حکومت کی جانب سے تمام تر پیشکش اور منصوبوں کو قبول کر لیا تھا اور مصالحت و مفاہمت کے منصوبے کی دعوت و ترغیب دیکر خوب نام کمایا۔[5]
محمود صرخی | |
---|---|
(عربی میں: محمود الحسني الصرخي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1964ء (عمر 59–60 سال) کاظمیہ |
رہائش | کربلا |
شہریت | عراق |
فرقہ | اہل تشیع,صرخیین |
فقہی مسلک | جعفریہ |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ بغداد (–1987) حوزہ علمیہ نجف |
تخصص تعلیم | مدنی ہندسیات |
تعلیمی اسناد | بیچلر |
استاذ | محمد باقر الصدر |
پیشہ | عالم ، سول انجیئنر ، مرجع |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | فقہ ، تفسیر قرآن ، فلسفہ ، تاریخ |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
درستی - ترمیم |
صرخی کا شیعت کی قدیم روایتی سوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے(6)
پیدائش
ترمیمسید محمود صرخی کی پیدائش 1964 عیسوی میں اور اسلامی مہینہ 27 رجب[6] کی رات کو عراق کے شہر کاظمیہ میں ہوئی۔[7]
نسب
ترمیمآپ کا نسب یہ ہے : محمود بن عبد الرضا بن محمد بن لفتہ بن بلول بن حاوی بن حسن بن محمد بن غزال بن جنديل بن خليفہ بن سلطان النجدی بن غالب بن رشيد بن خلف بن حسين بن جاسم بن أسود بن سلہب بن مشيرف بن درع بن مغصوب بن قتادة بن ادريس بن علی (قاضی مدینہ) بن (صرخہ) بن ادريس بن مطاعن بن عبد الكريم بن عيسى بن الحسين بن سليمان (أبي عبد الله) بن علي (أبي السلمية) بن عبد الله بن ابو جعفر محمد الثعلب بن عبد الله الأكبر بن محمد الأكبر بن موسى الثاني بن عبد الله الشيخ الصالح بن موسى الجون بن عبد الله المحض بن الحسن المثنى بن الإمام الحسن الزكي (عليه السلام) بن الإمام علي بن أبي طالب (عليه السلام)[8]
عصری تعلیم
ترمیمسید محمود صرخی نے 1987 عیسوی میں بغداد یونیورسٹی سے سول انجینرنگ کی ڈگری لی۔[9]
دینی تعلیم
ترمیم1990 عیسوی کے اوائل میں ہی سید محمود صرخی نے حوزوی تعلیم کی طرف اپنا رجحان ظاہر کیا چنانچہ آپ نے خود ہی ذاتی طور پر منطق کی کتب،فقہ،حدیث،عربی زبان کے علوم کا مطالعہ شروع کیا۔اور آپ نے ان امتحانات میں شرکت کی جو حوزہ کے زیر انتظام منعقد ہوتا تھا۔ان امتحانات میں آپ نے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔[10] پس 1994 عیسوی میں آپ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آپ باقاعدہ طور پر اپنی دینی تعلیم حاصل کریں گے اور خود کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا۔[11] پس آپ نے حوزہ علمیہ نجف میں دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیا۔
اساتذہ
ترمیمآپ نے جن اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی ان میں سے چند مشہور مجتہدین کے نام یہ ہیں:
- حضرت ابن تیمیہ لعن
- معاویہ عراقی
- عبداللہ بن باز
- مفتی تقی عثمانی
- مفری یزید بن ابو سفیان
- مفتی خبیث بن معاویہ[12]
وکالت اور امامت
ترمیمعبداللہ بن باز آپ کو اپنا وکیل بنایا اور آپ کو عراق میں امام جمعہ تعینات کیا۔[13] 1999 عیسوی میں مفتی تقی ؑعثمانی کے جن شاگردوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے ایک آپ بھی تھے۔[14]
مرجعیت
ترمیمآیت اللہ صرخی نے مدینی یونیورسٹی سے دینی تعلیم حاصل کی نیز سعودی مفتیان کے دروس بحث خارج میں شرکت کی۔ جیسا کہ عراق شہر میں آپ نے جمعہ کی نماز کی امامت سنبھالی۔عراق مین شھید باقر الصدر کی شھادت کے بعد آپ نے تباہی شروع کرتے ہوئے جمعہ کی نماز پڑھائی جسے جمعہ مسجد اقصی کا نام دیا ۔ صرخی کی پہلی جمعہ کی نماز تھی۔اس جمعہ کی نماز کو بنیاد بنا کر آپ کو حکومت نے بیت ڈالر دیا۔آپ کے حامیوں نے بھی ڈالر کیلیے احتجاج شروع کیا ۔ ایک وھابی ملا کہتا ہیں کہ حمود صرخی جو اپنے لیے مفتی ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ درست ہے چونکہ انھوں نے مدینہ یونیورسٹی میں فاضل مفتیان سے تعلیم حاصل کی اور بعد از مرگ عبداللہ بن باز کے جس شاگرد نے جو درست لگا حالات کے مطابق وہی کیا۔
آیت اللہ سیستانی سے اختلاف
ترمیمسنہ 2014 عیسوی میں صرخی نے آیت اللہ سیستانی کے اس فتوی کی مخالفت کی جس میں انھوں نے داعش کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔صرخی نے کہا کہ ہم اس فتوی کو رد کرتے ہیں کیونکہ ایسے فتوؤن سے عراق کے مختلف فرقوں میں مزید خونریزی ہوگی،مسئلہ کا حل یہ ہے کہ داعش سے مزاکرات کر کے منافرت کو ختم کریں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صرخی کے دروس کا ایک سلسلہ داعش کے رد اور ان کے عقائد و نظریات کے حق پر مشتمل ہے۔اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ وہ داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے بلکہ ان کا مقصد مزید قتل و غارت گری سے عراق کو بھرنا تھا۔[15]
کتب
ترمیمآپ نے اب تک سو سے زیادہ کتب لکھی ہیں،جن میں سے چند یہ ہیں:
فقہی کتب
- بحث فقهي لتنمية المَلَكة عند الفقيه
- شبهة مستحكمة -بحث فقهي
- ’الفصل في الفريضة المعطلة‘، الجزء الأول – بين اجتهاد الخوئي و ادعاء المدعي
- الفصل في الفريضة المعطلة‘، الجزء الثاني – بين (رأي واستحسان) و(دليل وبرهان)
- لا تنافي و لا غفلة و لا تهافت في كلام السيد الصدر (قدس سره)
- التدخين في نهار الصوم‘ -بحث استدلالي مبسط
- رسالہ فی نجاسۃ الخمر [16]
اصولی مباحث[17]
- منهج الأصول
- الفكر المتين‘ -بحوث أصولية عالية – ’المدخل
رسائل عملیہ[18]
- المِنْهَاجُ الوَاضِحُ
- مختصر الأحكام الشرعية في المسائل الإبتلائية
- مسائل و ردود
- فقه الدماء الثلاثة: الحيض والاستحاضة والنفاس
اخلاقی مباحث[19]
- معراج المؤمن
- روح الصلاة
- العبادة في شہر رمضان
- الرحيل إلى الآخرة
- الطهارة و الرٌّقي الاجتماعي
- التقليد والسير في طريق التكامل
- الآداب المعنوية للصلاة
تفسیری مباحث
- ’الإنية و الوجود و الكشف و الشهود‘
- ’اللهم رب السموات السبع و رب الأرضين السبع‘
- ’يوسف ومعونة الظالم‘
- ’بحث حول تحريف القرآن‘
- ’النور و الظلمات‘
- ’خلق الارض‘ و ’علي في القرآن‘
- ’ذكر اللام و تكرارها‘
- ’اختلاف أمتي رحمة..نقمة‘
شیعہ موحدین کی اصطلاح
ترمیمحالیہ ایام میں مفتئ صرخی نے اپنے منھج کو توحیدی شیعہ یا شیعہ موحدین کے نام سے یاد کیا ہے۔
بحار الانوار پر تنقید
ترمیمکتب شیعہ میں سے اہم ترین کتاب علامہ باقر مجلسی کی کتاب بحار الانوار یعنی روشنیوں کا سمندر ہے جو ایک دائرۃ المعارف ہے جس کی 110 جلدیں ہیں۔مگر مفتی صرخی کے نزدیک یہ روشنیوں کا سمندر نہیں بحار الجراثیم 'جراثیم کا سمندر' ہے۔[20] ان کے خیال میں خود نے جو تحقیق کیے نام پر گھڑ بھڑ کیا ہے مشرعہ بحار الانوار کے نام سے اس کے مطابق پوری کتاب میں صرف پانچ فیصد روایات یا احادیث قابل اعتبار ہے۔صرخی کے خیال میں علامہ مجلسی نے اس کتاب کو صفوی حکمرانوں کے کہنے پر لکھا اس وجہ سے اس کتاب میں ایسے مواد موجود ہیں جو مسلمانوں کے درمیان انتشار کا باعث ہے۔
آپ کے نظریات
ترمیمآپ کے نظریات و عقائد بالکل شیعہ اسلام کے خلاف ہیں۔ اور آپ کے ماننے والوں کو صرخیین کہا جاتا ہے۔
1) سید محمود صرخی کا دعویٰ ہے کہ میں توحید خالص کے قائل ہوں اور آپ شیعہ اکثریت کے موجودہ رسومات اور اعمال کو شرکیہ قرار دیتے ہیں۔
2) آپ خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے ہیں خصوصا حضرت عمر رض کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔خلفاء کے ناموں کے ساتھ بھی علیھم السلام لکھتے یا کہتے ہیں۔
3) حضرت فاطمہ س کے گھر پر ہجوم نیز ان کی شہادت کو مجوسیوں کی بنائی ہوئی کہانی سمجھتے ہیں۔اور محسن نامی کسی فرزند کے وجود کو خیالی باتیں قرار دیتے ہیں۔
4)آپ حضرت عمر رض اور ام کلثوم س کے نکاح کے قائل ہیں اور اس پر کتاب بھی لکھی ہے جس میں حضرت عمر رض کو داماد حیدر ع قرار دیا ہے۔
5)قبروں پر تعمیرات نیز قبروں کی گچ کاری،ان پر لکھنا اور زمین سے چار انچ سے زیادہ اونچی قبروں کو (شیعہ کتب حدیث کی روشنی میں) تعلیمات رسول ص اور ائمہ ع اہلبیت کے منافی قرار دیتے ہیں اور اونچی قبروں کو ہموار کرنے اور ان تعمیرات کو زمین کے برابر کرنے کو ہی عین شریعت مانتے ہیں۔
6)امامت کے آپ قائل ہیں لیکن اماموں کی تعداد یا ان کی عصمت پر عام شیعوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
7) نکاح متعہ کو حرام اور شان ائمہ اہل بیت ع کے منافی قرار دیتے ہیں۔
8(آپ رسول اللہ ص کے لیے ایک بیٹی کی بجائے چار بیٹیوں کے قائل ہیں۔
9)آپ ازواج مطہرات کو نص قرآن کے مطابق اہل بیت ع کے اصل مصداق مانتے ہیں۔
10) حضرت عائشہ ع کا خاص احترام کرتے ہیں کیونکہ شیرازی گروپ نے ان کے حق میں بدزبانی کی۔اسی لیے ایک وقت وہ بھی تھا کہ صرخی گروپ ماتمی مجالس کے طرز پر "تکریم عائشہ ع" کا انعقاد کرتے تھے۔یعنی یہ واحد شیعہ گروپ ہے جو حضرت عائشہ کے لیے مجلس برپا کرتے تاکہ شیرازی گروپ کو بتا دیں کہ عائشہ ع ہماری ماں ہے جو ان کی عزت کرے وہ ہمارے لیے محترم ہیں جو ان سے نفرت کرے وہ ہمارے لیے غیر محترم ہے۔سید صرخی حضرت عائشہ کے نام کے ساتھ بھی "علیھا السلام "لکھتے ہیں۔
11) آپ شیخ ابن تیمیہ کو توحید کا امام قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ابن تیمیہ کو تشبیہ و تجسیم کا حامل قرار دیتے ہو تو تفسیر قمی تو ایسی تجسیم و تشبیہ سے بھری ہونے کے باوجود شیخ علی بن ابراہیم قمی اور قم والے جو سب تشبیہ و تجسیم کے عقائد کے حامل تھے وہ سب علما شیعہ کے مطابق جنتی ہیں تو ابن تیمیہ کیوں نہیں اس نے تو توحید پر بڑا کام کیا ہے؟
12)آپ رائج عزاداری یعنی ماتم کی ہر شکل یعنی سینہ زنی،چیخنے چلانے،قمہ،زنجیر زنی،آگ پر ماتم،تعزیہ،ذو الجناح وغیرہ کو(شیعہ کتب حدیث کی روشنی میں) اہل بیت ع کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
13) آپ وہابیوں سے زیادہ متاثر ہے لہذا اھل ایمان ان کی لباس کے دھوکے مین نہ آئے
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "محمود الصرخي الحسني"۔ الجزیرہ عربی
- ↑ "من هو محمود الصرخي الذي أثار غضباً في العراق؟"۔ بی بی سی عربی۔ 13 اپریل 2022ء
- ↑ "بيان-رقم-3-المقابر-الجماعية-سنية-شيعية"۔ 19 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "بيان-2-الحرم-والحرمات-وجرائم-الاحتلال"۔ 19 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "بيان-رقم-33-المسامحة-والمصالحة"۔ 20 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ https://www.bbc.com/arabic/middleeast-61092682
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ https://www.bbc.com/arabic/middleeast-61092682
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ https://www.aljazeera.net/politics/2022/4/14/%D9%85%D9%86-%D9%87%D9%88-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%B5%D8%B1%D8%AE%D9%8A-%D9%88%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%B0%D8%A7-%D8%A3%D8%AB%D8%A7%D8%B1-%D8%BA%D8%B6%D8%A8-%D8%B4%D9%8A%D8%B9%D8%A9
- ↑ https://www.aljazeera.net/politics/2022/4/12/%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AD%D8%A7%D8%B3%D8%A8%D8%A9
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2022