مختار صدیقی
مختار صدیقی (پیدائش: یکم مارچ، 1917ء - وفات: 18 ستمبر، 1972ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، نقاد، ڈراما نویس، براڈکاسٹر اور مترجم تھے۔
مختار صدیقی | |
---|---|
پیدائش | مختار الحق صدیقی 1 مارچ 1917 ء سیالکوٹ، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) |
وفات | 18 ستمبر 1972 ء لاہور، پاکستان |
آخری آرام گاہ | میانی صاحب قبرستان، لاہور |
قلمی نام | مختار صدیقی |
پیشہ | شاعر، نقاد، ڈراما نویس، براڈکاسٹر، مترجم |
زبان | اردو |
نسل | پنجابی |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم اے (اردو) |
اصناف | شاعری، ترجمہ، تنقید، ڈراما |
ادبی تحریک | حلقہ ارباب ذوق |
نمایاں کام | منزل شب سہ حرفی جینے کا قرینہ آثار جینے کی اہمیت |
حالات زندگی
ترمیممختار صدیقی یکم مارچ، 1917ء کو سیالکوٹ، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام مختار الحق صدیقی تھا[1][2]۔ انھوں نے تعلیمی زندگی کے مدارج گوجرانوالہ اور لاہور میں طے کیے اور ایم اے (اردو) کی ڈگری گارڈن کالج راولپنڈی سے گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ وہ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد تھے۔ مختار صدیقی شاعر اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت عمدہ براڈ کاسٹر بھی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے بعد اس ادارے میں بطور اسکرپٹ ایڈیٹر منسلک ہوئے۔[2]
مختار صدیقی کی شاعری کے مجموعے منزل شب، سہ حرفی اور آثار کے نام سے شائع ہوئے۔ انھوں نے چینی مفکر ڈاکٹر لن یو تانگ کی کتاب کا ترجمہ جینے کی اہمیت اور آندرے موروا کی کتاب کا ترجمہ جینے کا قرینہ کے نام سے کیا جو بہت مقبول ہوئے[2]۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈرامے بھی تحریر کیے۔
تصانیف
ترمیمشاعری
ترمیم- منزل شب
- سہ حرفی
- آثار
تراجم
ترمیم- جینے کی اہمیت
- جینے کا قرینہ
نثر
ترمیم- مقالاتِ مختار صدیقی
ڈرامے
ترمیم- درمان
- کانٹے والا
مختار صدیقی کے فن و شخصیت پر کتب ومقالہ جات
ترمیم- مختار صدیقی نوکلاسیکی روایت کا ترجمان، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، سنگ میل پبلی کیشنز، 2012ء
- مختار صدیقی : حیات و خدمات (پی ایچ ڈی مقالہ)، صابرہ شاہین، جی سی یونیورسٹی، لاہور
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں | جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قیدِ مقام کہاں | |
بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب وہ جلوۂ عام تمام | بندھن توڑ کے جاؤں لیکن اے دلِ ناکام کہاں | |
اب وہ حسرت رسوا بن کر جزو حیات ہے برسوں سے | جس سے وحشت کرتے تھے تم اب وہ خیالِ خام کہاں | |
زیست کی رہ میں اب ہم بے حس تنہا سر بہ گریباں ہیں | کچھ آلام کا ساتھ ہوا تھاوہ بھی نافرجام کہاں | |
کرنی کرتے راہیں تکتے ہم نے عمر گنوائی ہے | خوبی قسمت ڈھونڈ کے ہاری ہم ایسے ناکام کہاں | |
اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے | جن داموں یہ دنیا ملتی اتنے ہمارے دام کہاں |
غزل
شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے | دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے | |
علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی | نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے | |
زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی | ہم روشن ہوئے ہر دور میں دیوانوں کے | |
مریمی مورد تہمت رہی ارمانوں کی | ٹکڑے ایک دفترِ الزام ہیں دامانوں کے | |
فکر سب کو ہے رفو کے لیے سامانوں کی | پوچھتا کوئی نہیں حال گریبانوں کے | |
قدر کچھ کم تو نہیں اب بھی تن آسانوں کی | روز و شب آج بھی بھاری ہیں گراں جانوں کے |
غزل
پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا | زخمِ دیرینہ سے پھر خون ٹپکا ہوگا | |
بیتی باتوں کے وہ ناسور ہرے پھر ہوں گے | بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہوگا | |
یورشیں کر کے امڈ آئیں گی سونی شامیں | لاکھ بھٹکیں کسی عنوان نہ سویرا ہوگا | |
جی کو سمجھائیں گے متوالی ہوا کے جھونکے | پھر کوئی لاکھ سنبھالے نہ سنبھلنا ہوگا | |
کیسی رت آئی ہوا چلتی ہے جی ڈولتا ہے | اب تو ہنسنا بھی تڑپنے کا بہانہ ہوگا | |
دل دھڑکنے کی صدا آئے گی سونے پن میں | دور بادل کہیں پربت پہ گرجتا ہوگا |
وفات
ترمیممختار صدیقی 18 ستمبر، 1972ء کو لاہور، پاکستان وفات پا گئے اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب مختار صدیقی، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
- ^ ا ب پ ت عقیل عباس جعفری: پاکستان کرونیکل، ص 360، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء