مدرسہ رحیمیہ
مدرسہ رحیمیہ دہلی میں واقع ایک تاریخی دینی ادارہ ہے جس کی بنیاد شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبد الرحیم دہلوی نے مغلیہ سلطنت کے عہد میں رکھی۔ اس ادارے کو برصغیر میں اسلامی علوم کی ترویج، دینی اصلاحات اور احیائے دین میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
قسم | اسلامی الہیات کے مکاتب فکر |
---|---|
قیام | 1718ء |
الحاق | سلسلہ نقشبندیہ، حنفی |
مقام | دہلی، بھارت |
پس منظر اور قیام
ترمیممدرسہ رحیمیہ کی بنیاد اورنگزیب عالمگیر کے دور میں شاہ عبد الرحیم دہلوی نے 1700ء کے قریب رکھی تھی۔ مدرسے کا مقصد اسلامی علوم کا فروغ اور قرآن و سنت کی تعلیم دینا تھا۔[1] شاہ عبد الرحیم دہلوی کی وفات کے بعد شاہ ولی اللہ نے اس مدرسے کی ذمہ داری سنبھالی اور 1718ء میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔
تعلیم اور اثرات
ترمیممدرسہ رحیمیہ برصغیر کے سب سے زیادہ اثر انگیز دینی اداروں میں سے ایک بن گیا۔ یہاں اسلامی علوم، خاص طور پر قرآن، حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم دی جاتی تھی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنے اساتذہ کی تعلیمات کو مزید تقویت دی اور مدرسے میں علمی، فکری اور اجتہادی تحریکات کو فروغ دیا۔ اس مدرسے کی تعلیمات کا مقصد غیر اسلامی رسومات، بدعات اور فرقہ واریت کا خاتمہ اور مسلمانوں میں فکری بیداری پیدا کرنا تھا۔[2]
شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کی اصلاحات
ترمیمشاہ ولی اللہ دہلوی نے اس مدرسے کو برصغیر میں اسلامی تعلیمات اور اصلاحات کا مرکز بنایا۔ انہوں نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کیا اور اسلامی فلسفہ و اجتہاد پر زور دیا۔ ان کی مشہور کتابیں "حجۃ اللہ البالغہ"، "الفوز الکبیر فی اصول التفسیر" اور "ازالۃ الخفاء عن خلافت الخلفاء" ہیں، جنہوں نے برصغیر میں اسلامی تعلیمات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
شاہ عبد العزیز دہلوی اور اگلی نسل
ترمیمشاہ ولی اللہ دہلوی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز دہلوی نے مدرسہ رحیمیہ کی ذمہ داری سنبھالی اور اسلامی علوم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے اپنے والد کی تعلیمات کو فروغ دیا اور برصغیر میں علم حدیث کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بعد ان کے بھائی شاہ رفیع الدین دہلوی اور شاہ عبد القادر دہلوی نے بھی تدریس کے فرائض انجام دیے، اور مدرسے کو علمی و فکری تحریک کا مرکز بنائے رکھا۔[3][4]
ولی اللہی تحریک اور مدرسہ رحیمیہ
ترمیممدرسہ رحیمیہ سے جڑی ولی اللہی تحریک نے برصغیر میں اسلامی احیاء، اصلاح اور غیر اسلامی رسوم کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ مدرسہ ولی اللہی فکر و فلسفہ کا مرکز بن گیا جس نے بعد میں آنے والی اصلاحی تحریکات جیسے تحریک مجاہدین اور تحریک سید احمد بریلوی پر اثر ڈالا۔ اس ادارے کے تعلیم یافتہ افراد نے اسلامی بیداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا اور برصغیر کے مختلف حصوں میں اسلام کی اصل تعلیمات کو پھیلانے کی کوشش کی۔
برطانوی حملہ اور مدرسہ کا خاتمہ
ترمیم1857ء کی جنگ آزادی کے بعد، برطانوی حکومت نے برصغیر میں مختلف دینی و تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا۔ مدرسہ رحیمیہ بھی اس وقت اسلامی علوم و فکری احیاء کا ایک نمایاں مرکز تھا اور ولی اللہی تحریک کی تعلیمات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ اس تحریک اور مدرسے سے وابستہ افراد نے برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے انگریزوں نے مدرسے کو خطرہ سمجھا۔
برطانوی افواج نے مدرسہ رحیمیہ کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور آخر کار مدرسے کی عمارت کو بلڈوز کر دیا گیا۔ اس تباہی کا مقصد ولی اللہی تحریک کو ختم کرنا اور برصغیر میں اسلامی بیداری کی تحریکات کو روکنا تھا۔ مدرسہ رحیمیہ کے تباہ ہونے کے باوجود، اس کے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ نے برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور ولی اللہی فکر کو برقرار رکھا۔[5]
ولی اللہی فکر کا تسلسل
ترمیممدرسہ رحیمیہ کی تباہی کے بعد، ولی اللہی فکر اور اس کے اثرات کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس مدرسے کے فارغ التحصیل علما اور ان کے شاگردوں نے اس تحریک کو دیگر علاقوں میں جاری رکھا اور برصغیر کے مختلف حصوں میں ولی اللہی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی بیداری کی تحریکات چلائیں۔ ان علما نے برطانوی سامراج کے خلاف مختلف شہروں میں دینی مدارس قائم کیے، جس سے مدرسہ رحیمیہ کے افکار و فلسفہ کا تسلسل برقرار رہا۔
اختتام اور موجودہ دور
ترمیمبرصغیر کی آزادی اور وقت کے ساتھ ساتھ مدرسہ رحیمیہ کی حالت میں تبدیلیاں آئیں۔ تاہم، یہ مدرسہ اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک تاریخی نشان رہا اور آج بھی برصغیر میں علمی اور فکری تحریکات کے لیے ایک اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے۔مدرسہ رحیمیہ کی تباہی برطانوی سامراج کی جانب سے اسلامی علوم اور اصلاحی تحریکات کے خلاف جارحیت کی ایک علامت بن گئی، لیکن اس کے اثرات اور افکار آج بھی برصغیر میں اسلامی علمی و فکری حلقوں میں زندہ ہیں۔[6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Joseph Kitagawa (5 ستمبر 2013)۔ The Religious Traditions of Asia: Religion, History, and Culture۔ Routledge۔ صفحہ: 146–۔ ISBN 978-1-136-87590-8
- ↑ Charles Allen (2006)۔ God's Terrorists: The Wahhabi Cult and the Hidden Roots of Modern Jihad۔ Abacus۔ صفحہ: 32۔ ISBN 978-0-349-11879-6
- ↑ Sadia Dehlvi (26 دسمبر 2012)۔ THE SUFI COURTYARD: DARGAHS OF DELHI۔ HarperCollins Publishers۔ صفحہ: 234–۔ ISBN 978-93-5029-473-4
- ↑ The Pakistan Review۔ Ferozsons.۔ 1966
- ↑ John Smith (2010)۔ The British Raj and the Collapse of Islamic Institutions in India۔ Academic Press۔ صفحہ: 45–47
- ↑ Sadia Khan (2015)۔ Indian Islamic Renaissance: The Legacy of Shah Waliullah۔ Heritage Press۔ صفحہ: 89–91