تحریک مجاہدین

  • سب سے پہلے اس تحریک کا آغاز ایسے ہوا تھا کہ سید احمد شہید رحمہ اللہ  پڑھا رہے تھے ان کو خط آیا  ایک عورت کا کہ ہمارے اوپر بہت ظلم ہو رہا ہے ہم سکھوں کے بچے جن رہی ہیں سید صاحب  نے وہیں کتاب بند کر دی اور جہاد کے لیے تیار ہو گئے فرمایا اب جہاد لازم ہو چکا ہے سکھوں نے واقع ہی میں مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھائے ہیں ۔ اس کے بعد انھوں   بہت محنت کی اس تحریک کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا اور اس میں مین کردار شاہ عبد العزیز کا تھا ان کے بعد ان کی تحریک کو سید احمد شہید (پیدائش: 1786ء، بریلی) نے آگے بڑھایا۔ سید احمد نے شاہ عبد العزیز کے پاس دو برس تعلیم حاصل کی اور بعد میں بریلی میں نواب امیر خان کے لشکر میں ملازم ہو گئے۔

سید احمد نے لشکر میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس کا مثبت اثر ہوا۔ اسی دوران انھوں نے دینی میدان میں نام پیدا کیا۔ شاہ اسماعیل، محمد یوسف اور شاہ عبد الحئی آپ کی بیعت میں شامل ہو گئے۔ سید صاحب مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ سے بے حد متاثر تھے۔ سید صاحب نے مسلمانوں میں رائج فضول رسوم کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اسی دوران مسلمانوں پر سکھوں کے مظالم نے مسلمانوں میں ان کی اسلامی حمیت کو بیدار کیا۔ سید احمد شہید نے اپنے ساتھیوں کو جہاد پر آمادہ کیا۔ اس تحریک کو تحریک مجاہدین کا نام دیا گیا۔

تحریک کے مقاصد

ترمیم

اس تحریک کے دیگر مقاصد میں سے اہم مقاصد درج ذیل تھے۔

  • اسلامی حکومت کا قیام
  • جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین
  • مسلمانوں میں بدعتوں کا خاتمہ کرنا

حق پرستی کو عام کرنا۔

سید احمد شہید کی خدمات

ترمیم

سید صاحب نے سہارن پور، رام پور، بنارس اور لکھنؤ جیسے شہروں کے دورے کیے۔ 1821 ء میں سید صاحب نے حج کیا اور دو سال تک وہاں قیام کیا۔ مکہ سے واپسی پر سید صاحب نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔

تحریک کے معرکے

ترمیم

مجاہدین اور سکھوں کے درمیان پہلا معرکہ اکوڑہ کے مقام پر ہوا۔ جس میں سکھوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری لڑائی حضرد میں ہوئی اور مسلمانوں نے یہ جنگ بھی جیت لی۔ 1830 ء میں پشاور پر مجاہدین کا قبضہ ہو گیا۔ سید صاحب کو ابتدائی فتوحات کے بعد امیر المومنین تسلیم کر لیا گیا اور مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کر دیے گئے۔

بالا کوٹ کا معرکہ

ترمیم

سکھ راجا رنجیت سنگھ نے سید صاحب کے خلاف اندرونی اور بیرونی محاذ کھول دیے۔ ایک طرف اپنے فرانسیسی جرنیل ونٹورا کو فوجیں دے کر بھیجا اور دوسری جانب پٹھانوں اور سید صاحب کے ہندوستانی پیروکاروں میں نفرت کے بیج بودیے۔ جس کی وجہ سے بعض مقامی پٹھانوں نے بے وفائی کی۔ بہر حال 1831 ء میں ایبٹ آباد میں بالا کوٹ کے مقام پر سید صاحب اور سکھوں کے درمیان زبردست مقابلہ ہوا۔ سید احمد، شاہ اسماعیل اور کئی دوسرے اکابر شہید ہو گئے۔ یہ جنگ سکھوں نے جیت لی۔یہ جنگ سکھ کے خلاف اس لیے تھا کہ سکھ انگریزی حکومت کے مد د گار تھے۔ ایک دفعہ سید صاحب کو اطلاع ملی کہ سکھ فوج بدھ سنگھ کی سرپرستی میں نوشہرہ میں پڑاو ڈال چکا ہے، تو سید صاحب نے جہاد کا اعلان کیا حالانکہ وہ وہاں کے لوگوں سے ابھی آشنا بھی نہیں تھے ان کے ساتھ صرف 1500 مجاہدین تھے جن میں تقریبا 800انصار اور 500 یا 600 کے لگ بھگ ہندستانی اور 250 کے لگ بھگ قندہاری مجاہدین تھے ان مجاہدین میں جہاد کا جذبہ تھا میدان میں گھس کر تقریبا 900 مجاہدین نوشہرہ کلاں میں رات کے وقت سکھ کیمپ پر حملہ کیا اور سکھ بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اس میں ابو ابراہیم مبارک عرف میاں روشن گیلانی نے بہت جذبے کے ساتھ لڑائی کی، اور سکھ فوج کے اوسان خطا ہو گئے اور مجاہدین کیلے کامیابی کے دروازے کھل گئے اور ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ علاقے والے بھی جوق درجوق مجاہدین میں شامل ہوئے کیونکہ سکھوں کی سفاکی انتہا پر تھی۔ ہند کے خادی خان فیض اللہ ہزارخوانی اشرف خان زیدہ اور فتح خان خدوخیل نے ساتھیوں سمیت مجاہدین کے لشکر میں شمولیت اختیار کی ۔ مذہبی مشایخ اور علما میں سید امیر کوٹھ حضرت گل بابا ابو ابراہیم مبارک عرف میاں روشن گیلانی اخون عبدلغفور اور دیگر شامل حال تھے ۔بارکزی سرداران پشاور سید محمدخان اورسلطان محمدخان نے بھی قافلہ مجاہدین میں اعلان کیا اور اس طرح سارے پختون لشکر میں شامل ہوئے اور سکھ فوج کو شکست دے کر سارے علاقے تحویل میں لے لیے۔

اس کے بعد

ترمیم

اس جنگ کے بعد بچے کھچے مجاہدین پہاڑوں پر چلے گئے اور وہاں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اس صدمہ کے بعد تحریک مجاہدین کو پٹنہ کے ولایت علی نے جاری رکھا لیکن پنجاب کے انگریزوں کے قبضہ میں چلے جانے کی وجہ سے انگریز کے ساتھ ٹکراؤ ہوا اور اس طرح یہ تحریک کمزور پڑ گئی۔

اس کے بعد یہ تحریک چلتی رہی ۔ اب بھی اس کا دفتر مزنگ روڑ پر موجود ہے ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب اس کے امیر تھے جو ابھی وفات پا گئے ہیں انھوں نے اپنی زندگی میں ہی صوفی عائش محمد صاحب کو اس کا قائم مقام امیر بنا دیا تھا جو ابھی 2021 اس جماعت کے امیر ہیں۔

اس جماعت کے بارے میں یے کہنا کہ ذاتی مفاد کی خاطر تھی یا صرف غریب لوگ اس میں شامل ہونے سرا سر غلط ہے۔

حوالہ جات

ترمیم