مرزا غلام احمد کی پیشگوئیاں
مرزا غلام احمد نے متعدد پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے جن میں ان کو کسی واقعہ کے پیش آنے کی پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ ان پیشگوئیوں کو مختلف زمرہ جات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
مذہبی مخالفین کے متعلق پیشگوئیاں
پنڈت لیکھرام
پنڈت لیکھرام صوابی، ضلع پشاور میں پولیس میں ملازم ایک ہندو تھا جس کا تعلق آریہ سماج نامی ہندو تحریک سے تھا۔ پنڈت لیکھرام نے اسلام کے خلاف مذہبی بحثوں میں حصہ لیا اور اسلام پر سخت تنقید کرنے کے علاوہ بانی اسلام حضرت محمدؐ کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔ براھین احمدیہ کی اشاعت کے بعد 1885 میں یہ قادیان بھی آیا اور مرزا غلام احمد کے ساتھ خط و خطابت کی اور ان کے دعویٰ الہام کے مقابل خود الہام کا دعویٰ کیا اور مطالبہ کیا کہ اس کو کوئی نشان دکھایا جائے اور اس کے متعلق پیشگوئی کی جائے۔ اس پر 20 فروری 1893 کو مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ انھیں خدا نے خبر دی ہے کہ پنڈت لیکھرام چھ سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا۔
” | خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو 20 فروری 1893 ہے چھ برس کے اندر یہ شخص اہنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں، عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔ | “ |
اسی طرح اس کے متعلق اپنا عربی الہام شائع کیا "عجل جسد لہ خوار۔ لہ نصب و عذاب" یعنی یہ ایک بے جان بچھڑا ہے جس سے آواز نکل رہی ہے۔ اسے سزا ملے گی اور عذاب پہنچے گا۔[1]
اس اشتہار کے شائع ہونے پر اخبار انیس ہند میرٹھ میں تنقید شائع ہوئی جس کا جواب دیتے ہوئے مرزا غلام احمد نے 2 اپریل 1893 کو ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں مزید یہ پیشگوئی کی کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ خدا نے ایک فرشتے کو لیکھرام کو سزا دینے کے لیے مقرر کر دیا ہے جس کے ہاتھ میں چھری ہے۔[2]
6 مارچ 1897 کو، پیشگوئی کے چار برس بعد، عید کے اگلے روز ،لیکھرام کسی نامعلوم شخص کے چھری کے وار کی تاب نہ لا کر میو ہسپتال لاہور میں فوت ہو گیا۔ قاتل پکڑا نہ جا سکا۔ مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ لیکھرام ان کی چار سال قبل سے شائع شدہ پیشگوئیوں کے مطابق خدائی سزا کا مورد ٹھہرا ہے۔ ہندو مخالفین نے الزام لگایا کہ یہ قتل خود مرزا صاحب نے کروایا ہے۔ چنانچہ اس پر پولیس نے تفتیش کی لیکن اس الزام کا کوئی ثبوت نہ ملا۔
پادری ڈوئی
پادری ڈوئی ایک امریکی مسیحی پادری تھا جو جہ اسکاٹ لینڈ میں 1847 میں پیدا ہوا۔ کچھ عرصہ آسٹریلیا میں رہنے اور واپس سکاٹ لینڈ آنے کے بعد 1887 میں دوبارہ آسٹریلیا چلا گیا۔ 1888 میں ایک مکاشفہ کی بنیاد پر اس نے تمام دنیا میں اپنا پیغام پہنچانے کا آغاز کیا اور سان فرانسسکو چلا گیا۔ 1896 میں اپنے پیروکاروں کے لیے شکاگو کے نذدیک ایک نیا شہر صحیون آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس کی آبادی 1905 تک 7500 ہو چکی تھی۔ اور Leaves of Healing کے نام سے ہفت روزہ رسالہ بھی نکالتا تھا۔ اس نے ایلیاہ اور مسیح ؑ کے نمائندہ ہونے نیز تورات میں مذکور "عہد کا رسول" ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ مرزا غلام احمد نے اس کے متعلق پیشگوئی کی کہ وہ مرزا غلام احمد کی زندگی ہی میں ناکام اور اس کا کام برباد ہو جائے گا۔ ڈوئی ستمبر 1905 تک مکمل طور پر صاحب اختیار تھا۔[3]
مرزا غلام احمد نے ڈوئی کو 1903 میں دعوت مقابلہ دی کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے۔ اس بارہ میں امریکا کے متعدد اخبارات میں بھی خبریں شائع ہوئیں۔ ڈوئی مرزا غلام احمد سے قریبا ایک سال پہلے 1907میں فوت ہو گیا۔
عالمی واقعات کے متعلق پیشگوئیاں
زار روس
اپنی کتاب براہین احمدیہ جلد 5 میں مرزا غلام احمد نے 5 اپریل 1905 کو بطور نظم یہ پیشگوئی لکھی[4]:
” | اک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن بعد ، جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر و مرغزار | “ |
اس نشان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں:
” | مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس، زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار | “ |
مزار غلام احمد کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ یہ پیشگوئی 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم اور اس کے دوران 1917ء میں روس میں انقلاب اور زار روس کی 15 مارچ کو معزولی سے پوری ہوئی۔ زار روس نیکولائی ثانی کو انقلابیوں نے ایک سال مختلف جگہوں پر قید رکھنے کے بعد 17 جولائی 1918ء کو اپنے سارے خاندان سمیت قتل کر دیا۔ زار کے ساتھ اس کی ملکہ، چار بیٹیاں اور بیٹا تھے جو گولیاں اور سنگینیں مار کر قتل کر دیے گئے۔
اپنے پیروکاروں کے متعلق پیشگوئیاں
عالمی اشاعت
مرزا غلام احمد نے لکھا ہے کہ انھیں الہام ہوا ہے
” | میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا | “ |
اس پیشگوئی کے متعلق ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ساری دنیا میں پھیلنے نیز ان کے ٹی وی چینل ایم۔ ٹی۔ اے کی عالمی نشریات کے نتیجہ میں پوری ہو چکی ہے۔
تین سو سال میں غلبہ
مرزا غلام احمد نے اپنی جماعت کے متعلق یہ بھی پیشگوئی کی ہے کہ تین سو سال میں ان کی جماعت تمام دنیا میں غلبہ حاصل کر لے گی اور دنیا کی اکثریتی مذہبی تنظیم بن جائے گی۔
اپنے متعلق پیشگوئیاں
موعود بیٹا
مرزا غلام احمد کی مشہور پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی ایک موعود بیٹے کے متعلق ہے۔ 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار میں مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ ان کو مندرجہ ذیل الہام ہوا ہے [5]:
” | تجھے بشارت ہوکہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ۔ایک زکی غلام (لڑکا)تجھے ملے گا۔وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت ونسل ہوگا ۔ خوبصورت پاک لڑکاتمہارا مہمان آتا ہے ۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے۔اور وہ نوراللہ ہے ۔مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے ۔اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا ۔وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا ۔و ہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے ۔وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا ۔اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ۔اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے )۔ دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ ۔فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعُلَاء کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَائ۔جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا ۔نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا ۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا ۔وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں اس سے برکت پائیں گی ۔تب وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا ۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیًا۔ | “ |
مرزا غلام احمد کا کہنا تھا کہ یہ پیشگوئی 9 سال کے عرصہ میں پوری ہو گی۔ چونکہ کسی شخص کی طاقت میں نہیں کہ وہ اپنے زندہ رہنے، اپنے ہاں لڑکا پیدا ہونے، اپنے لڑکے کے لمبی عمر پانے اور اس کے زمین کے کناروں تک شہرت پانے کا ذمہ دار ہو سکے، اس لیے یہ پیشگوئی ان کی سچائی کا ثبوت ہو گی۔
مرزا غلام احمد کے پیروکاروں کے نزدیک یہ پیشگوئی مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ذریعہ پوری ہوئی جو اس پیشگوئی کے شائع ہونے کے قریبا تین سال بعد 12 جنوری 1889ء کو پیدا ہوئے۔ نوجوانی ہی میں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ المسیح منتخب ہوئے اور 52 سال اس عہدہ پر فائز رہے۔ جماعت احمدیہ کا انتظامی ڈھانچہ ان کا بنایا ہوا ہے۔ انھوں نے ایک کتب کا ایک ضخیم ذخیرہ چھوڑا جس میں تاریخ، تفسیر، تصوف، اقتصادیات، سیاست وغیرہ مختلف موضوعات پر تصانیف شامل ہیں۔