مریخ ممکنہ انسانی آبادکاری کی علمی تحقیق کے لیے بہت زیادہ مرکز نگاہ رہا ہے۔ اس کا سطحی ماحول اور مریخ پر پانی کی موجودگی نے اس کو معقولیت کی حد تک نظام شمسی میں زمین کے بعد سب سے زیادہ قابل سکونت جگہ بنا دیا ہے۔ مریخ پر پہنچنا زہرہ کے بعد سب سے زیادہ کفایت شعار ہو گا۔ یہاں پہنچنے کے لیے زہرہ کے بعد فی کمیت اکائی کے لحاظ سے سب سے کم توانائی کی ضرورت ہو گی۔ تاہم کم توانائی کے استعمال کے باوجود عصر حاضر کے جدید کیمیائی ایندھن سے چلنے والا خلائی جہاز بھی یہاں تک کے سفر میں 6 تا 7 ماہ کا عرصہ لے گا۔ مریخ کی انسانی مہم کے دوران پیش آنے والی دوسری مشکلات بھی بیان کی جا چکی ہیں۔ [1]

ایک مصور کا مریخ پر انسانی بستی کا تخیل، چاک شدہ منظر میں اندرونی  باغبانی کا حصّہ نظر آرہا ہے۔

زمین سے نسبتی مشابہت  ترمیم

زمین اپنی "جڑواں بہن" زہرہ سے اجزائے ترکیبی، حجم اور سطحی ثقل میں کافی مشابہ ہے، تاہم مریخ کی زمین سے مشابہت، آباد کاری کے حوالے سے زیادہ موزوں ہے۔ مثلاً:

  • مریخی دن دورانیہ کے لحاظ سے زمین سے خاصا قریب ہے۔ مریخ پر ایک شمسی دن کا دورانیہ 24 گھنٹے 39 منٹ اور 35.244 سیکنڈ کا ہوتا ہے۔
  •  مریخ کی سطح کا رقبہ زمین کا 28.4 فیصد ہے، زمین پر موجود خشکی کے رقبے سے تھوڑا کم (جو زمین کی سطح کا 29.2 فیصد ہے)۔ مریخ کا خشکی حصہ زمین کے مقابلے میں نصف قطر آدھا ہے جبکہ اس کی کمیت زمین سے دس گنا کم ہے۔
  • مریخ اپنے محور پر 25.19° جھکا ہوا ہے، جیسا کہ زمین 23.44° پر جھکی ہوا ہے۔ نتیجتاً مریخ کے موسم کافی حد تک زمین کے مشابہ ہیں، اگرچہ ان کا دورانیہ لگ بھگ دو گنا ہوتا ہے کیونکہ مریخی برس زمینی 1.88 برس کے برابر ہوتا ہے۔ مریخی شمالی قطب فی الوقت دجاجہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہے جبکہ زمین کے قطب شمالی کا رخ دب اکبر کی طرف ہے۔ 
  •  ناسا کے مریخی پڑتال گر مدار گرد، ای ایس اے کے مریخی ایکسپریس اور ناسا کے فینکس خلائی گاڑی سے کیے گئے تازہ مشاہدات نے مریخ پر آبی برف کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔   

زمین سے اختلافات ترمیم

کرۂ فضائی کے دباؤ کا موازنہ
مقام دباؤ
اولمپس مونس کی چوٹی 0.03 کلوپاسکال (0.0044 psi)
مریخ کا اوسط 0.6 کلوپاسکال (0.087 psi)
ہیلس پلانیشیا کی تہ 1.16 کلوپاسکال (0.168 psi)
آرمسٹرانگ کی حد 6.25 کلوپاسکال (0.906 psi)
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی[2] 33.7 کلوپاسکال (4.89 psi)
زمینی سطح سمندر 101.3 کلوپاسکال (14.69 psi)
  • اگرچہ کچھ شدت شناس جاندار ایسے ہیں جو زمین پر شدید سخت حالات میں بھی باقی رہ سکتے ہیں، بشمول وہ نقلی حالات جو مریخی حالات جیسے ہوتے ہیں، پودے اور جانور عموماً مریخ کی سطح پر موجود عصر حاضر کے حالات میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ [3]
  •  مریخ کی سطح کی قوّت ثقل زمین کا 38 فیصد ہے۔ اگرچہ ثقل اصغر کی وجہ سے صحت سے متعلق کچھ مسائل جیسا کہ پٹھوں کی کمزوری اور ہڈیوں میں نمکیات کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے، [4][5] ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آیا مریخی قوت ثقل کا بھی انسانی صحت پر ایسا ہی اثر ہو گا یا نہیں۔ مریخی ثقلی حیاتی سیارچہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو اس لیے بنایا جائے گا تاکہ انسانوں پر مریخ کی کم قوت ثقل کے اثرات کے بارے میں جان سکے۔ [6]
  •  مریخ زمین کی نسبت بہت زیادہ سرد ہے، اس کا اوسط درجہ حرارت 186 اور 268 کیلون کے درمیان رہتا ہے۔[7][8] زمین پر انٹارکٹکا میں سب سے کم درج کیا جانے والا درجہ حرارت 180 کیلون ہے۔ 
  • مریخ پر پانی کچھ مختصر عرصے کے لیے پایا جا سکتا ہے تاہم ایسا بہت ہی مخصوص حالات کے زیر اثر ہوتا ہے۔[9][10]
  •  کیونکہ مریخ لگ بھگ سورج سے 52 فیصد زیادہ دور ہے، لہٰذا اس کی اوپری فضاء میں داخل ہونے والی شمسی توانائی فی اکائی رقبے کے لحاظ سے زمین کے بالائی کرۂ فضائی میں داخل ہونے والی شمسی توانائی کا صرف 43.3 فیصد ہی ہوتی ہے۔[11] بہرحال مہین کرۂ فضائی کی وجہ سے سطح پر زمین کے مقابلے زیادہ شمسی توانائی داخل ہوتی ہے۔[12][13] مریخ پر زیادہ سے زیادہ شمسی درخشانی 590 W/m² ہے جبکہ زمین پر یہ درخشانی لگ بھگ 1000 W/m² کی ہوتی ہے۔ مزید براں یہ کہ مریخ پر سال بھر جاری رہنے والے دھول کے طوفان سورج کی روشنی کی ہفتوں بھر کے لیے سطح پر پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ [14][15]
  • مریخ کا مدار زمین کے مقابلے میں زیادہ بیضوی ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت اور شمسی دن یا شمسی مستقل میں کافی تغیر آتے رہتے ہیں۔ 
  • مقناطیسی میدان کی کمی، شمسی زرّات اور کائناتی شعاعیں آسانی کے ساتھ مریخی سطح پر پہنچ جاتی ہیں۔ 
  • مریخ پر کرۂ فضائی کا دباؤ آرمسٹرانگ کی حد سے کہیں زیادہ کم ہے۔ یہ وہ حد ہے جس پر لوگ دباؤ کو برداشت کرنے والے لباس کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ارض سازی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے، مریخ پر رہائشی جگہ بنانے کے لیے خلائی جہاز جیسے دباؤ والی چیزیں بنانی پڑیں گے جو اس قابل ہوں کہ 30 تا 100 kPaکے درمیان کا دباؤ جھیل سکیں۔ مزید دیکھیے مریخ کا کرۂ فضائی۔
  •  مریخی کرۂ فضائی 95فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ،3 فیصد نائٹروجن، 1.6 فیصد ارگان اور دوسری گیسوں پر مشتمل ہے بشمول آکسیجن کے جو کل ملا کر 0.4 فیصد سے بھی کم ہے۔ 
  • مریخی ہوا کا جزوی دباؤ کاربن ڈائی آکسائڈ کا 0.71 kPa ہے جبکہ اس کے مقابلے پر زمین کا یہ دباؤ 0.031 kPa ہوتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کا انسانوں میں ہونے والا زہریلا پن لگ بھگ 0.10 kPa پر ہوتا ہے۔ پودوں کے لیے بھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح 0.15 kPa سے زیادہ زہریلی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مریخی ہوا پودوں اور جانداروں دونوں کے لیے کم دباؤ پر ایک جیسی ہی زہریلی ہوگی۔ [16]
  •  مہین کرۂ فضائی سورج کی بالائے بنفشی روشنی کو چھان نہیں سکتی۔  

انسانی سکونت کے لیے حالات ترمیم

مریخ کی سطح پر موجود حالات درجہ حرارت اور کرۂ فضائی کے دباؤ کے لحاظ سے کسی بھی دوسرے سیارے یا چاند کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہیں۔ تاہم ان کی مشابہت زہرہ کے بادلوں کے اوپر حصّے میں موجود ماحول سے کم ہے۔ اس طرح سے نظام شمسی میں زہرہ کے بادلوں کے اوپری حصّے زمین کے ماحول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھ سکتے ہیں۔[17] بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود سطح انسانوں یا معلومہ حیات کی کسی بھی شکل کے لیے مہربان نہیں ہے اس کی وجہ وہاں ہوا کا کم دباؤ اور 0.1% فیصد سے کم آکسیجن رکھنے والا کرۂ فضائی ہے۔

2000ء میں بتایا گیا کہ کچھ کائی اور شائنو جرثومے نقلی مریخی حالات میں 34 دن گزارنے کے بعد نہ صرف زندہ باقی رہ گئے بلکہ انھوں نے ضیائی تالیف کے لیے حیرت انگیز مطابقت پذیری کی صلاحیت کو ظاہر کیا۔ یہ نقلی مریخی ماحول مارس سیمولیشن لیبارٹری میں بنایا گیا تھا جس کو جرمن ایرو اسپیس سینٹر چلاتا ہے۔[18][19][20] کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ مریخ پر خود کفیل انسانی بستی بنانے کے لیے شائنو جرثومے بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔[21] ان کی تجویز کے مطابق شائنو جرثومے براہ راست طور پر کچھ جگہوں پر جیسے خوراک، ایندھن اور آکسیجن کی پیداوار کے لیے نہ صرف استعمال کیے جا سکتے ہیں بلکہ ان کا بالواسطہ استعمال کر کے دوسرے جانداروں کی نشو و نما ہو سکتی ہے اس طرح سے یہ مریخی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے وسیع حیات کو سہارا دینے والے حیاتیاتی عمل کے لیے راستہ کھول دیتے ہیں۔

انسانوں نے زمین کے کچھ ایسے حصّوں کی چھان بین کی ہے جو ایک طرح سے مریخ کے ماحول سے تھوڑی مطابقت رکھتے ہیں۔ ناسا کے جہاں گردوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ مریخ پر درجہ حرارت (نشیبی عرض البلد میں) انٹارکٹکا سے کافی مشابہت رکھتے ہیں۔[22] انسانی بردار غباروں نے جو فضائی دباؤ بلند ترین عرض البلد(1961ء [23] میں 35 اور 2012ء میں 38 کلومیٹر) پر جھیلا ہے وہ مریخ کی سطح پر موجود دباؤ کے مشابہ ہے۔[24]

مریخ پر انسانی بقاء کے لیے پیچیدہ حیات کو سہارا دینے والی تدبیروں کونہ صرف اختیار کرنا ہوگا بلکہ مصنوعی ماحول میں رہنا پڑے گا۔ 

مریخ کی ارض سازی ترمیم

 
ارض ساز مریخ ایک مصور کے تخیل میں (2009ء)

مریخ کی ارض سازی کے امکان کے اوپر کافی بحث ہو چکی ہے تاکہ مریخ کی سطح پر بغیر کسی سہارے کے مختلف نوع کی حیات بشمول انسان زندہ رہ سکیں۔ ان مباحثوں میں ان فنیات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے جو مریخ کی ارض سازی کے لیے درکار ہوں گی۔[25]

تابکاری  ترمیم

مریخ کے پاس زمین کی طرح کے مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں۔ مہین کرۂ فضائی کے ساتھ مقناطیسی میدانوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے آئن زدہ اشعاع کی کافی مقدار سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ مریخی مہم خلائی گاڑی کے اوپر ایک ایسا آلہ - مریخی اشعاعی ماحول تجربہ (میری)موجود تھا جس کا کام انسانوں کے لیے اشعاع کے خطرات کو ناپنا تھا۔ اس آلے میری نے مریخ سے اوپر رہ کر مدار میں تابکاری کی سطح کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے مقابلے میں 2.5 گنا زیادہ درج کیا۔ اوسط خوراک لگ بھگ 22 ملی ریڈس فی دن ہے۔ اس طرح کی تابکاری کی سطح کا تین برس  کا سامنا ناسا کے حفظان صحت کے اصولوں کی حد کو پار کر جائے گا۔[26] مریخی سطح پر تابکاری کی سطح کچھ کم ہو سکتی ہے جس کا انحصار مختلف جگہوں کے عرض البلد اور مقامی مقناطیسی میدانوں پر ہو گا۔ زیر زمین(ممکنہ طور پر پہلے سے موجود لاوے کی سرنگوں میں) رہنے کے قابل گھر وہاں کے انسانی رہائشیوں کے تابکاری کا سامنا کرنے کے خطرے کو کافی حد تک کم کر دیں گے۔ کبھی کبھار شمسی پروٹون نکلنے کے واقعات میں تابکاری کا سامنے کرنے کا خطرہ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے۔

خلائی تابکاری کے بارے میں ابھی کافی کچھ جاننا باقی ہے۔ 2003ء میں ناسا کے لینڈون بی جانسن اسپیس سینٹر نے ایک سہولتی مرکز جس کا نام ناسا اسپیس ریڈیشن لیبارٹری کو بروک ہیون نیشنل لیبارٹری میں کھولا جس میں زرّاتی اسراع گر کا استعمال کر کے خلائی تابکاری کی نقل کی جائے گی۔ اس سہولتی مرکز میں جانداروں کے اوپر حفاظتی تراکیب کا استعمال کر کے تحقیق کی جاتی ہے۔[27] شروع میں کچھ ایسے ثبوت مل گئے تھے کہ اس قسم کی کم لمبی تابکاری اتنی زیادہ خطرناک نہیں تھی کہ جتنی پہلے سمجھی جاتی تھی؛ اور تابکاری قرار گیری(پیچیدہ بلند تر جانوروں کے جسمانی نظام کا وہ رجحان جس کے تحت وہ قدرتی وظیفہ یا حالت متغیر ہونے پر بھی نامیاتی استحکام کا ماحول برقرار رکھتے ہیں) وقوع پزیر ہوتی ہے۔[28] تاہم 2006ء میں کی گئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ کائناتی تابکاری سے نکلنے والے پروٹون ڈی این اے کو اس سے دو گنا زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح سے خلا نوردوں کو سرطان اور دوسری بیماریوں کا سامنا کرنے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔[29] مریخی ماحول میں بلند تابکاری کے نتیجے میں "مریخ ایک ایسی جگہ نہیں ہے جہاں آسانی کے ساتھ موجودہ فنیات کے ساتھ بغیر وسائل میں سرمایہ کاری کیے بغیر جایا جا سکے۔" یہ بات اس یو ایس ہیومن اسپیس فلائٹ پلانز کمیٹی کے جائزے کی رپورٹ کے خلاصے میں کہی گئی ہے جس کو 2009ء میں شایع کیا گیا تھا۔ ناسا متبادل طریقوں اور فنیات پر کام کر رہا ہے جیسا کہ پلازما سے بنی منحرف کرنے والی حفاظتی ڈھال، جس سے خلا نوردوں اور خلائی جہاز کو تابکاری سے بچایا جا سکتا ہے۔

ذرائع نقل و حمل  ترمیم

بین السیاروی خلائی اڑانیں  ترمیم

 
مریخ (وائکنگ اول، 1980ء)

سوائے زہرہ کے زمین سے کسی بھی دوسرے سیارے تک پہنچنے کے لیے مریخ کو فی کمیت کے لحاظ سے سب سے کم توانائی درکار ہوتی ہے۔ ہومین مدار میں منتقلی کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے مریخ تک جانے کے لیے خلاء میں نو ماہ تک کا سفر کرنا پڑے گا۔[30] ہومین مدار میں منتقلی کے طریقہ کے مقابلے میں تبدیل شدہ منتقل خط پرواز جوخلاء میں سفر کے دورانیے کو سات یا چھ ماہ تک کر سکیں اس کے لیے بتدریج بڑھتی ہوئی توانائی اور ایندھن کی مقدار درکار ہو گی۔ عام طور پر روبہ جاتی مریخی مہمات میں یہی تبدیل شدہ منتقل خط پرواز استعمال ہوتی ہے۔ سفر کے وقت کو چھ ماہ سے کم کرنے میں فی کمیت توانائی کی زیادہ مقدار درکار ہو گی جس میں شارحانہ بڑھتی ہوئی ایندھن کی مقدار بھی استعمال ہو گی۔ اس طرح کا طریقہ کیمیائی راکٹ کے ساتھ قابل عمل نہیں ہے تاہم یہ جدید خلائی جہازوں کے دھکیلنے کی فنیات کے ساتھ ممکن ہو سکتا ہے۔ کچھ طریقے کو پہلے ہی جانچے جا چکے ہیں جیسا کہ متغیر مخصوص ضربی مقنا پلازما راکٹ[31] اور نیوکلیائی راکٹ۔ اول الذ کر صورت میں مریخ تک کے سفر کا دورانیہ کم ہو کر چالیس دن تک کا رہ جاتا ہے۔[32] جبکہ بعد الذکر میں یہ دورانیہ کم ہو کر صرف دو ہفتے تک رہ جاتا ہے۔[33]

سفر کے دوران خلا نوردوں کو تابکاری کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے انھیں اس سے کسی صورت بچانا ہو گا۔ کائناتی اشعاع اور شمسی ہوائیں ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں جس کی وجہ سے سرطان کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بین السیاروی خلاء کے درمیان لمبے عرصے تک کے سفر کا اثرات نامعلوم ہیں تاہم سائنس دان 1 فیصد سے 19 فیصد تک کا خطرہ مد نظر رکھتے ہیں، مردوں کے لیے غالباً 3.4 فیصد تک سرطان کا خطرہ مریخ اور زمین کے درمیان سفر کے دوران تابکاری کی وجہ سے ہے۔ عورتوں کے لیے اس کا امکان ان کے بڑے غدودی بافتوں کی وجہ سے زیادہ ہے۔[34]

مریخ پر اترنا ترمیم

مریخ کی قوّت ثقل زمین کے مقابلے میں 0.38 گنا ہے جبکہ اس کی کرۂ فضائی کی کثافت زمین کے مقابلے میں لگ بھگ 0.6 فیصد ہے۔[35] نسبتاً مضبوط قوّت ثقل اور ہوا حرکی اثر کی موجودگی میں بھاری، انسان بردار خلائی جہاز دھکیلو کے ساتھ اترنے میں کافی مشکل ہو گا، اس طرح کی صورت حال اپالو کے چاند پر اترنے کے دوران نہیں ہوئی تھی، اس کے علاوہ کرۂ فضائی اس قدر مہین ہے کہ ہوا حرکی اثرات ہوائی روک بھاری بڑی گاڑی کے اترنے میں کچھ زیادہ مدد گار نہیں ہوں گی۔ مریخ پر انسان بردار مہمات رفتار کو کم کرنے اور اترنے کے لیے ان سے مختلف نظام درکار ہوں گے جو ابھی تک چاند پر عملے کو اتارنے یا مریخ پر روبہ جاتی مہمات کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔[36]

اگر ہم کاربن نینو ٹیوب سے بنے ہوئے اس مادّے جس کی مضبوطی 130جی پی اے اس کی دستیابی کو قیاس کر لیں تو اس سے کوئی خلائی بالا بر بنا یا جا سکے گا تاکہ لوگوں اور سامان کو مریخ تک پہنچا یا جا سکے۔[37] فوبوس پر بھی ایک خلائی بالا بر بنانے کی تجویز کی گئی ہے۔[38]

آباد کاری کے لیے درکار ساز و سامان ترمیم

مریخ کی آبادکاری کے لیے مختلف نوع کے ساز و سامان کی ضرورت ہو گی – ایسا ساز و سامان جو براہ راست طور پر انسانوں کو خدمات مہیا کریں اور ایسا سامان جو خوراک، ایندھن، پانی، توانائی اور سانس لینے کے قابل آکسیجن پیدا کر سکے۔ تاکہ انسانی آبادکاری کی کوششوں میں معاونت ہو سکے۔ درکار ساز و سامان میں درج ذیل چیزیں شامل ہوں گی:

  •  مسکن* ذخیرہ کرنے کی سہولت
  • کام کرنے کی جگہ
  •  وسائل کو نکالنے کے لیے آلات – ابتدا میں پانی اور آکسیجن، بعد میں وسیع معدنیات اور عمارتی سامان وغیرہ کے لیے بھی درکار ہوں گے ۔
  •  توانائی کی پیداوار اور اس کو ذخیرہ کرنے کے آلات، کچھ شمسی اور شاید دوسری قسم کے بھی آلات درکار ہوں گے۔
  •  خوراک پیدا کرنے کے لیے جگہ اور سازو سامان۔
  •  ایندھن بنانے کے آلات، عام طور پر وہ ہائیڈروجن اور میتھین ہوں گی جو سیبیٹیرردعمل[39] کے ذریعہ ایندھن کے لیے پیدا ہوں گی- اور ساتھ میں آکسیجن کو تکسید بھی کر سکے تاکہ ان کو کیمیائی راکٹ کے انجن میں استعمال کیا جاسکے۔ [40]
  •  ایندھن یا دوسری توانائی کے وسیلے تاکہ سطح پر چلنے والی باربرداری والی سواریوں میں استعمال کیا جا سکے۔ کاربن مونو آکسائڈ /آکسیجن سے چلنے والے انجنوں کو شروع کی سواریوں میں تجویز کیا گیا ہے۔ مریخی کرۂ فضائی سے زرکونیم ڈائی آکسائڈ برق پاشی سے کاربن مونو آکسائڈ اور آکسیجن کو براہ راست حاصل کر کے اس میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے مریخی پانی کے ذخیروں سے ہائیڈروجن کو حاصل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ 
  •  ابلاغ کا ساز و سامان     

ایلون مسک کے مطابق، "صرف دس لاکھ لوگوں [جو مریخ پر کام کر رہے ہوں] کے لیے آپ کو فی کس ناقابل تصور ثمر آواری درکار ہو گی، کیونکہ آپ کو صنعت کی بنیاد کے لیے تمام کی تمام چیزوں کو مریخ پر دوبارہ سے بنانا ہوگا۔۔۔ آپ کو زمین سے کہیں زیادہ مشکل ماحول میں مختلف مادوں کو نکال کر ان کو قابل استعمال بنانا ہو گا ۔[41]

مواصلاتی ذرائع ترمیم

زمین سے رابطہ آدھے شمسی دن میں اس وقت تو سیدھا سادہ سا ہو گا جب زمین مریخی افق کے اوپر ہو گی۔ ناسا اور ای ایس اے نے مریخی مدار گردوں میں کافی ابلاغی آلات لگائے ہوئے ہیں، اس طرح سے مریخ پر پہلے ہی مواصلاتی سیارچے تو موجود ہیں۔ اگرچہ یہ بالآخر ناکارہ ہو جائیں گے، لہٰذا خبر رسائی سے مزین مزید مدار گرد کسی بھی قسم کی آباد کاری سے پہلے چھوڑنے ہوں گے۔

 یکطرفہ رابطے میں ہونے والا تعطل جو روشنی کی رفتار کی حد کی وجہ سے در پیش ہو گا اس کا دورانیہ قریبی فاصلے کے وقت تین منٹ(لگ بھگ جب مریخ کے حضیض شمس سے زمین کا اوج شمس نکال دیا جائے ) کا ہو گا جبکہ زیادہ سے زیادہ اس کا دورانیہ بائیس منٹ (لگ بھگ جب مریخ کا اوج شمس اور زمین کا اوج شمس جمع ہو گا) کا ہو گا جب زمین اور مریخ کا فاصلہ سب سے زیادہ ہو گا۔ وقت حقیقی میں مریخ اور زمین کے درمیان روابط جس طرح سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ہوتا ہے یا انٹرنیٹ بات چیت میں ہوتا ہے لمبے فاصلوں کی وجہ سے عملی طور پر ناممکن ہیں۔ ناسا کو معلوم ہوا ہے کہ براہ راست رابطہ لگ بھگ دو ہفتے کے دورانیہ کے لیے مقارنہ دور میں منقطع ہو جاتا ہے۔ یہ زمین اور مریخ کے ایک دوسرے سے طویل ترین فاصلے پر ہونے کے اس دور میں ہوتا ہے جب سورج ان دونوں کے درمیان براہ راست آ جاتا ہے۔[42] ہرچند اصل رابطے کے اس طویل تعطل کا دورانیہ مہم مہم کے مختلف عوامل پر انحصار کرتا ہے جیسا کہ رابطے کی حد کی مقدار جو ابلاغی نظام کے لیے بنائی گئی ہے اور وہ کم سے کم اطلاعات کی شرح جو مہم کی جگہ سے حاصل کرنے کے لیے قابل قبول ہو۔ حقیقت میں مریخ کی اکثر مہمات میں وہ دورانیہ جب رابطے میں تعطل آگیا وہ ایک مہینے تک کا ہے۔ [43]

کوئی سیارچہ جو زمین سورج کے ایل 4 یا ایل 5 نقطہ پر موجود ہو وہ اس دورانیہ کے دوران ہونے والے ابلاغی تعطل کے مسئلے کو ختم کر سکتا ہے ؛ یہاں تک کہ ابلاغی سیارچوں کے جھرمٹ مکمل آباد کاری کے تناظر میں بہت ہی معمولی خرچہ ہو گا۔ بہرحال ان فاصلوں پر درکار آلات کا حجم و قوّت اور ان علاقوں میں موجود فطری استحکام ایل 4 اور ایل 5 کے مقام کو نشری اسٹیشن بنانے کے لیے انتہائی نامعقول بناتے ہیں، اگرچہ یہ بطور اسٹیشن کافی فائدہ مند ہیں تاہم یہاں دھول اور سیارچہ کافی بھٹکتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے خطرہ ہو سکتا ہے۔[44] تمام تر خطرات کے باوجود اسٹیریو کھوجی نے ایل 4 اور ایل 5 کے علاقوں کو بغیر کسی نقصان کو 2009ء کے اواخر میں پار کر لیا تھا۔

یونیورسٹی آف اسٹرایٹ کلائڈ کی ایڈوانسڈ اسپیس کانسپٹس لیبارٹری نے یورپین اسپیس ایجنسی کے ساتھ اشتراک میں کام کیا جس میں اس نے ایک متبادل نشری ساخت کی تجویز دی جس کی بنیاد بلند کیپلری مدار پر ہوگی۔ یہ خاص قسم کے مدار ہوتے ہیں جو اس وقت بنتے ہیں جب مسلسل ہلکے دھکیل، جیسا کہ آئن انجن یا شمسی بادبان پیدا کرتے ہیں، خلائی جہاز کے خط پرواز کو تبدیل کرتا ہے۔ اس طرح کا مدار مسلسل جاری رہنے والا رابطہ شمسی اتصال (وہ مقام جب زمین کسی اور سیارے اور سورج کے ساتھ ایک ہی قطار میں ہوتی ہے) کے دوران بھی قائم رکھتا ہے۔ دونوں سیاروں کے مداروی میدان سے باہر رہ کر یہ نشری خلائی جہاز کو مریخ کے اوپر "معلق" رکھ کر کر سکتا ہے۔[45] اس طرح کا نشری سیارچہ ایل 4 اور ایل 5 کے مدار میں رہ کر سامنا کرنے والی مشکلات سے بچ سکتا ہے اس کے لیے وہ مریخ کی سطح سے قریب رہ کر مسلسل دونوں سیاروں کے درمیان رابطہ قائم رکھ سکتا ہے۔

روبہ جاتی پیش رو  ترمیم

انسانی آبادی کا راستہ روبہ جاتی نظاموں جیسا کہ مریخی کھوجی جہاں گرد اسپرٹ، آپرچونیٹی اور کیوریوسٹی سے بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے نظام وسائل کو ڈھونڈنے میں مدد دے سکتے ہیں جیسا کہ سطح پر موجود پانی یا برف جس کی مدد سے بستی قائم رہ کر پھل پھول سکتی ہے۔ اس طرح کے نظاموں کا کام برسوں بلکہ دہائیوں لے لے گا اور جیسا کہ حال میں تجارتی اڑانوں میں ہونے والی پیش رفت میں دیکھا گیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے نظام نجی و گورنمنٹ ملکیت کے اشتراک سے شروع ہو جائیں۔ اس طرح کے روبہ جاتی نظاموں کی قیمت ابتدائی انسان بردار مہمات کی نسبت کم جبکہ سیاسی خطرہ بھی نہ ہونے کے برابر ہو گا۔   

عجیب و غریب نظام شاید ابتدائی انسان بردار جہازوں اور ان کے اترنے کی جگہ پر بنیادی کام کر سکیں جس میں وہ مختلف اقسام کی روز مرہ کی استعمال کی چیزیں بشمول ایندھن، تکسیدی، پانی اورعمارتی سامان پیدا کر سکتے ہیں۔ توانائی، ابلاغ، رہائشی، حرارتی اور پیداواری بنیادی ڈھانچے روبہ جاتی نظاموں سے شروع کر وائے جا سکتے ہیں جو انسان بردار مہمات کا پیش خیمہ ہوں گے۔

مریخی سرویر 2001 خلائی گاڑی کا مپ اس لیے تھا تاکہ وہ مریخی کرۂ فضائی سے آکسیجن بنانے کا براہ راست مظاہرہ کر سکے،[46] اور ان شمسی فنیات اور طریقوں کی جانچ کر سکے جو توانائی کے نظام پر پڑنے والی مریخی مٹی کے خطرات کے اثرات کی کمی کو دیکھے۔ [47]

اس سے پہلے کہ کوئی بھی انسان مریخ پر منتقل کیا جائے جیسا کہ2030ء تک خیالی طور پر اسپیس ایکس نے مریخی آباد کاری بار بردار کا منصوبہ بنایا ہوا ہے، اس منصوبے میں کئی روبہ جاتی باربردار مہمات کو پہلے درکار سازو سامان، سکونت پذیری کی جگہوں کا سامان اور رسد لے کر بھیجا جائے گا۔[48] ضروری ساز وسامان میں جو چیزیں شامل ہوں گی ان میں " کھاد بنانے، مریخ سے میتھین اور آکسیجن بنانے کی مشینیں اور سیارے کے ماحول سے نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ اور سیارے کی زیر سطح پانی کی برف حاصل کرنے کے آلات کے علاوہ ابتدائی زرعی جگہوں کے شفاف گنبدوں کو بنانے کے لیے درکار عمارتی سامان ہو گا۔[49]

ابتدائی انسانی مہمات ترمیم

1948ء میں ورنر وان براؤن نے اپنی کتاب مریخی منصوبے میں بیان کیا کہ ایک 10 خلائی جہازوں پر مشتمل بیڑا ایک ہزار تین مرحلے کے راکٹوں کا استعمال کر کے بنایا جا سکتا ہے۔ یہ 70 لوگوں کو مریخ تک لے جا سکے گا۔

مریخ تک جانے والے ابتدائی انسان بردار مہمات جو قومی سرکاری خلائی پروگرام میں بنے ہیں - جیسے کہ وہ جو ناسا، ایف کے اے اور ای ایس اے نے بنائے ہیں - وہ انسانی آباد کاری کے پیش رو نہیں ہیں۔ ان کا مقصد خالص طور پر کھوج کرنا ہے، جس طرح سے چاند پر بھیجی جانے والی اپالو مہم کا مقصد وہاں پر کوئی مستقل اڈا قائم کرنا نہیں تھا۔ 

آبادکاری کے لیے مستقل اڈا بنانے کی ضرورت ہو گی جو اس قابل ہو کہ خود سے اپنے آپ کو آگے بڑھا سکے۔ اس طرح کے اڈے بنانے کے لیے مشہور منصوبوں میں مریخ راست اور جزوی راست منصوبے شامل ہیں جن کی حمایت رابرٹ زبرن کرتے ہیں۔

آباد کاری کے دوسرے تخیلاتی منصوبے جم مک لین اور باس لانس ڈارپ (جو مریخ اول کے روح رواں تھے اور جنھوں نے یکطرفہ مریخی انسانی سفر کا منصوبہ تجویز کیا تھا) نے پیش کیے ہیں،[50] جبکہ الون مسک کی اسپیس ایکس کمپنی 2015ء تک تو ایسے خلائی بار بردار نظام کے بنانے میں سرمایہ کاری کر رہی ہے جس کا نام مریخی آباد کار بار بردار ہے۔[51][52]

مریخی سوسائٹی نے کینیڈا میں ڈیون پر جبکہ ریاست ہائے متحدہ میں یوٹاہ کے مقام پر مریخی مماثل تحقیقی اسٹیشن پروگرام شروع کیا ہے تاکہ مریخ پر انسانوں کو لے جانے کے مختلف منصوبوں پر تجربہ کر سکیں اور اس کی بنیاد انھوں نے مریخ راست پر رکھی ہے۔ جدید مریخی ڈھانچے کے تصورات میں اکثر اس طرح کے سہولتی مراکز رکھے گئے ہیں جہاں سیارے کی سطح پر آکسیجن اور ایندھن کو بنایا جا سکے۔

اقتصادیات ترمیم

 
لوہے نکل پر مشتمل شہابیہ مریخ کی سطح پر پایا گیا

نیو ورلڈ کی ابتدائی آبادیوں کی طرح معیشت وہ اہم چیز ہو گی جو اس طرح کی آبادیوں کے کامیاب ہونے کی ضمانت دے گی۔ مریخ کی کم ثقلی قوّت اور نظام شمسی میں اس کا مقام مریخ اور زمین کے درمیان ہونے والی تجارت میں آسانی پیدا کر سکتا ہے اور مریخ پر مسلسل آباد کاری کا معاشی ب رہان مہیا کر سکتا ہے۔ اس کے حجم اور وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہو گی جہاں خوراک کو اگایا جا سکے گا اور ایسے آلات بنائے جا سکیں گے جس سے سیارچوں کی پٹی سے معدنیات کو نکالا جا سکے گا۔

سب سے بڑا معاشی مسئلہ زبردست ابتدائی سرمایہ کاری کا ہے جو آبادی کو آباد کرنے اور شاید سیارے کی ارض سازی کے لیے درکار ہوگی۔

کچھ شروع کی مریخی آبادیاں ہو سکتا ہے کہ مقامی وسائل کو مریخ پر استعمال کرنے کے قابل بنا سکیں جیسا کہ پانی اور / یا برف ہے۔ مقامی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بنیادی ڈھانچہ بنایا جا سکتا ہے۔[53] مریخ میں ایک معلوم ذرائع دھاتی لوہے کی کچ دھات ہے جو نکل لوہے کے شہابیوں کی صورت میں وہاں پر موجود ہے۔ اس صورت میں لوہا آئرن آکسائڈ کی نسبت آسانی سے نکالا جا سکتا ہے جس نے پورے سیارے کوڈھکا ہوا ہے۔

مریخی ابتدائی آباد کاری کے دوران تجارت کے لیے ایک اور اچھی چیز کھاد ہو سکتی ہے۔[54] فرض کریں کہ حیات مریخ پر وجود نہیں رکھتی، تو مریخ پر موجود مٹی پودوں کو اگانے کے لیے بہت ہی خراب ہو گی، لہٰذا کھاد اور اس طرح کی دوسری چیزیں کسی بھی مریخی تہذیب کے لیے اس وقت تک بہت ہی زیادہ قیمتی ہوں گی جب تک سیارے کیمیائی طور پر اتنا بدل نہ جائے کہ خود سے سبزہ کی بالیدگی کے قابل نہ ہو جائے۔

مریخی آبادی کے لیے شمسی طاقت توانائی کی فراہمی کی امیدوار ہے۔ شمسی آفتاب زدگی (شمسی شعاعوں کی وہ مقدار جو مریخ تک پہنچتی ہے) زمین کے مقابلے میں 42 فیصد ہے، کیونکہ مریخ سورج سے زمین کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ دور ہے اور آفتاب زدگی فاصلے کے مربع کے لحاظ سے سطح تک پہنچتی ہے۔ تاہم مہین کرۂ فضائی کی وجہ سے زمین کے مقابلے میں دھوپ کی تمام توانائی مریخ کی سطح تک پہنچ جاتی ہے جبکہ زمین پر کرۂ فضائی لگ بھگ چوتھائی توانائی جذب کرلیتا ہے۔ مریخ کی سطح پر سورج کی روشنی زمین پر بادلوں سے ڈھکے معتدل دن جیسی ہوگی۔[55]

نیوکلیائی توانائی بھی ایک بہتر امیدوار ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا ایندھن ہے جو زمین سے سستے نقل و حمل میں اپنی کم جگہ گھیرنے کی وجہ سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نیوکلیائی توانائی حرارت بھی پیدا کرتا ہے جو مریخی آبادی کے لیے بہت ہی زیادہ قابل قدر چیز ہوگی۔

مریخ کی کم قوّت ثقل اس کے گھومنے کی رفتار سے مل کر اس بات کو ممکن بنا سکتی ہے کہ دور حاضر کے مادوں کی مدد سے کوئی خلائی بالا بر بنایا جا سکے، اگرچہ فوبوس (مریخی چاند) کا انتہائی قریبی مدار مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو بالا بر کے ذریعہ معدنیات اور سیارے سے نکالے گئے دوسرے قدرتی وسائل منتقل کیے جا سکیں گے۔

معاشی محرک ترمیم

مریخ پر خلائی آبادی اس وقت ممکن کہی جا سکتی ہے جب خلائی آبادی کے ضروری طریقے لازمی طور کافی سستے ہو جائیں گے (جیسا کہ خلائی رسائی بذریعہ سستے خلاء میں چھوڑے جانے والے نظام) تاکہ سرمائے کو اس مقصد کے لیے جمع کیا جاسکے۔

ہرچند کہ روایتی خلاء میں جانے کے طریقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فی الفور تو کوئی بھی خلائی آباد کاری کے لیے بڑی مقدار میں سرمایہ دستیاب تو نہیں ہے،[56] تاہم کچھ ایسے طریقے موجود ہیں جس سے بنیادی خلاء میں جانے کے طریقوں کی لاگت میں کمی کی جا سکے، اس طرح سے اس سمت میں آنے والی لاگت کو کافی حد تک کم کیا جا سکے گا۔ زمین کے نچلے مدار میں لے کر جانے والی شایع شدہ قیمت فی 13,150 کلو گرام [57] تک 5 کروڑ 65 لاکھ امریکی ڈالر ہے، اسپیس ایکس کا فالکن 9 راکٹ پہلے ہی اپنے ساتھیوں کے درمیان سب سے زیادہ سستا راکٹ بن چکا ہے۔[58] فی الوقت اسپیس ایکس دوبارہ قابل استعمال خلاء میں چھوڑے جانے والے نظام میں پیش رفت جاری ہے۔ اس پیش رفت کا مقصد فالکن 9 کو دوبارہ قابل استعمال بنانا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو لاگت بہت ہی تیزی گر جائے گی اور خلائی صنعت میں مزید سرمایہ کاری کو دعوت دے گی اور اس طرح کفایت پیمانہ کی وجہ سے لاگت مزید گرے گی۔ اسپیس ایکس قابل استعمال منصوبہ میں فالکن بھاری اور مستقبل کا میتھین سے چلنے والی خلائی گاڑی بشمول مریخی آبادکار بار بردار کے شامل ہیں۔ اگر اسپیس ایکس کامیابی کے ساتھ باز یافتہ فنیات کو بنانے میں کامیاب ہو گیا، تو امید کی جا رہی ہے کہ خلاء میں رسائی پر آنے والی لاگت میں نہ صرف زبردست کمی ہو گی بلکہ خلاء میں چھوڑے جانے والی صنعت میں مقابلے کی فضا بھی قائم ہو گی۔[59]

متبادل سرمایہ کاری کے طریقوں میں تحریک دینے والے انعام بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر 2004ء میں صدارتی کمیشن برائے نفاذ منصوبہ ریاست ہائے متحدہ خلائی کھوجی پالیسی میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ ایک تحرک دینے والا انعام خلائی آباد کاری کو حاصل کرنے کے لیے رکھا جائے، جس کا اعلان ممکنہ طور پر حکومت کرے۔ اس کی ایک مثال میں ایک ایسے انعام کی پیش کش ہے جو اس پہلے ادارے کو دی جائے گی جو انسانوں کو چاند پر پہنچا کر زمین پر واپس پہنچنے تک کچھ مخصوص عرصے تک رکھ سکے۔[60]

آباد کاری کے لیے ممکنہ جگہیں  ترمیم

قطبی علاقے ترمیم

مریخی شمالی اور جنوبی قطب کسی وقت میں رہائش کے لیے کافی توجہ سمیٹے ہوئے تھے اس کی وجہ موسمی تغیر پزیر قطبی برفیلی ٹوپیاں تھیں جن کو کافی عرصے سے زمین پر موجود دوربینوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ مریخی مہم نے پانی کا سب سے بڑا مرتکز ذخیرہ شمالی قطب کے قریب دیکھا، تاہم اس نے یہ بھی بتایا کہ پانی نشیبی عرض البلد میں بھی موجود ہو سکتا ہے، اس طرح سے صرف قطبین کی رہنے کی جگہ کی حیثیت کم ہو گئی۔ زمین کی طرح مریخ نیم شب کے سورج کو اپنے قطبین میں مقامی گرمیوں کے موسم میں جبکہ قطبی رات سردیوں کے موسم میں دیکھتا ہے۔

استوائی علاقے ترمیم

مریخی مہم نے دیکھا کہ ارسیا مونس کے آتش فیشن کے قریب قدرتی غار موجود ہیں۔ یہ قیاس لگایا گیا ہے کہ رہائشی اس طرح کے محفوظ مقامات یا اس طرح کی ساختوں کا استعمال کرتے ہوئے تابکاری اور خرد شہابیوں سے بچ سکیں گے۔ استوائی حصّوں میں حر حرکی توانائی کی موجودگی کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے۔[61]

اندرونی علاقے ترمیم

 
عقابی شہابی گڑھا ، آپرچونٹیی سے لی جانے والی تصویر (2004ء)

مریخ کی سطح کی چھان بین اب بھی جاری ہے۔ خلائی گاڑیوں اور جہاں گردوں جیسا کہ فینکس، مریخی کھوجی جہاں گرد اسپرٹ اور آپرچونیٹی اور مریخی سائنس لیبارٹری کیوریوسٹی ان سب کو بہت ہی مختلف مٹی اور چٹانوں کی خصوصیات ملی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مریخی ارض کافی متغیر اور رہنے کے لیے جگہ کا تعین اس وقت بہتر طور پر ہو سکے گا جب مزید معلومات ہمارے پاس موجود ہوں گی۔ جس طرح سے زمین پر ہوتا ہے کہ ماحول کے موسمی تغیر استواء سے دور جاتے ہوئے زیادہ ہوتے ہیں بعینہ ایسے ہی مریخ میں بھی ہوتا ہے۔

ویلس مرینیر ترمیم

ویلس مرینیر جو مریخ کی "عظیم گھاٹی" ہے وہ 3,000 کلومیٹر لمبی اور 8 کلومیٹر گہری ہے۔ نیچے تلے میں کرۂ فضائی کا دباؤ کچھ 25 فیصد سطح کے اوسط درجہ حرارت تک ہوتا ہے۔ یعنی 0.9 kPa بمقابلہ0.7 kPa۔ دریائی نہریں اس گھاٹی تک جاتی ہیں جو اس بات کا عندیہ ہیں کہ یہاں کبھی پانی بہتا تھا۔

لاوا سرنگیں ترمیم

ارسیا مونس کی کوکھ میں مختلف قسم کی لاوے کی سرنگیں مریخ پر پائی گئی ہیں۔ زمین پر موجود مثالیں بتاتی ہیں کہ ان میں سے کچھ لمبی گذر گاہیں مکمل طور پر تابکاری سے محفوظ رکھ سکتی ہیں اور ان کو آسانی کے ساتھ کسی بھی مادّے کے ساتھ خاص طور پر ٹکڑوں میں بانٹ کربند کیا جا سکتا ہے۔[62]

سیاروی حفاظت ترمیم

مریخ تک جانے والے روبہ جاتی خلائی جہازوں کو جراثیم سے پاک ہونا ضروری ہے تاکہ خلائی جہاز کے اوپر موجود 300,000 سے زیادہ تخمک سے نمٹا جا سکے – اور ان کو مزید باریک بینی سے جراثیم سے پاک کیا جائے اگر اس بات کا امکان ہو کہ وہ ان "مخصوص علاقوں" سے رابطہ کریں گے جہاں پانی ہو گا،[63][64] اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہاں پر حیات کا سراغ لگانے والے تجربات میں نہ صرف آلودگی کا سامنا کرنا ہو گا بلکہ سیارہ بھی آلودہ ہو جائے گا۔

انسانی مہم کو اس سطح پر جراثیم سے پاک کرنا ناممکن ہو گا، کیونکہ انسان تو عام طور پر ہزاروں اقسام کے سینکڑوں کھربوں خرد جراثیم کا گھر ہوتے ہیں اور ان کو انسانی زندگی کو بچا کر ان سے نہیں نکالا جا سکتا۔ آلودگی صرف واحد حل ہے تاہم خلائی جہاز کے اترنے میں کسی قسم کی خراب صورت حال میں اس سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔[65] اس سلسلے میں کافی سیاروی مشاورت منعقد کی گئی ہیں، تاہم اس میں مستقبل میں اختیار کیا جانے والے کسی طریقے کی تجویز نہیں دی گئی ہے۔[66] انسانی کھوجی بھی اسی طرح زمین پر وہاں کی آلودگی لانے کا سبب بن سکتے ہیں اگر وہ کسی قسم کے خرد اجسام کو اپنے جسم میں پال لیتے ہیں۔[67]

حمایت و وکالت  ترمیم

مریخی آبادکاری کی وکالت مختلف نجی گروہوں نے مختلف النوع وجوہات اور مختلف تجاویز کے ساتھ کی ہے۔ ان میں سے سب سے پرانا گروہ مریخی سوسائٹی ہے جو ناسا کے مریخ پر انسانی کھوج کے پروگرام کی تشہیر کرتے ہیں اور انھوں نے مریخی مماثل تحقیقی مرکز کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں قائم کیا ہے۔ مریخ پر رکیں، جیسے ہی اس بات کا تعین ہو سکے کہ مریخ پر مستقل سکونت ممکن ہے تو وہ باز یافتہ ہنگامی واپسی کی گاڑیوں کو مستقل رہائش کے طور پر حمایت کرتے ہیں۔ مریخ اول جس کی تشہیر عوام میں جون 2012ء میں ہوئی تھی اس کا مقصد مریخ پر 2023ء تک ایک مکمل مستقبل قابل رہائش کو بنانا ہے۔ اس میں سرمایہ کاری ریالٹی ٹیلی ویژن پروگرام اور دوسرے کاروباری ذرائع سے کی جا رہی ہے۔ ہرچند کہ اس طریقہ کار پر زبردست تنقید ہوئی ہے اور اس کو ناقابل عمل قرار دیا گیا ہے۔[68][69][70] مریخی قطبی کا مقصد انسانی آبادی کو 2029ء تک مریخ کے قطبی علاقے میں بسانا ہے یہ وہ حصّہ ہے جہاں پر برف کے پانی کی وسیع مقدار موجود ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ اس منصوبے کو عطیات کے ذریعہ قابل عمل بنایا جائے۔[71] الون مسک نے اسپیس ایکس کی بنیاد رکھی جس کا مقصد طویل عرصے میں اس طرح کی فنیات کو بنانا ہے جو مریخ پر خود کفیل بستی کو قائم کرنے میں مدد گار ہوں۔[72] 2015ء میں اس نے کہا" میرے خیال میں ہمارے پاس اگلے 11 یا 12 برسوں میں انسانوں کو مریخ پر بھیجنے کا معقول موقع میسر ہو گا"۔[73] رچرڈ برانسن نے اپنی زندگی کو وقف ہی اس لیے کر دیا کہ "وہ مریخ پر آبادی کرنے والے کسی منصوبے کا حصّہ بن سکے۔ میرے خیال میں یہ مطلق طور پر قابل عمل ہے۔ ایسا ہو کر رہے گا۔۔۔ میرے خیال میں اگلے 20 برسوں میں، ہم حقیقت میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو خلاء میں لے جانے کے قابل ہوں گے اور اس سے ہمیں وہ مالیاتی فوائد حاصل ہوں گے جس کی بدولت ہم مزید بڑے کام کرنے کے قابل ہوں گے"۔[74]

جون 2013ء میں بز ایلڈرن جو ایک امریکی انجنیئر اور سابقہ خلانورد کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے انسان ہیں جنھوں نے چاند پر چہل قدمی کی ہے، نیو یارک ٹائمز میں شایع شدہ اپنے ایک مضمون میں مریخ پر انسان بردار مہم کی وکالت کرتے ہیں اور چاند کو " منزل کی بجائے ایک آگے بڑھنے کی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسی جگہ جو انسانی خط پرواز کے لیے مریخ کو مسکن بنائے گی اور انسانوں کو دو سیاروں کی انواع بنا دے گی۔"[75] اگست 2015ء میں ایلڈرن نے فلوریڈا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے اشتراک کے ساتھ ناسا کے لیے ایک " ہمہ گیر منصوبہ " پیش کیا۔ جس میں خلانوردوں کے لیے "دس برس کام کا دورہ" پیش کیا جس کا مقصد مریخ پر 2040ء سے پہلے آباد کاری تھا۔[76]

قصوں میں ترمیم

کہانیوں میں کچھ جگہوں میں مریخی آباد کاری کی مکمل تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں شامل ہیں:

  • آریا از کوزو امانو
  •  ایکسس از رابرٹ چارلس ولسن 
  •  آئس ہینج (1985ء)، مریخی مثلث (سرخ مریخ، سبز مریخ، نیلا مریخ، 1992ء تا 1996ء) اور مریخی (1999ء)، از کم اسٹینلے روبنسن 
  •  پہلا اتراؤ (2002ء)، از رابرٹ زبرن
  • انسانی اضافہ (1976ء)، از فریڈرک پھول 
  •  "ہم آپ کے لیے اس تھوک فروشی کو یاد رکھیں گے" (1966ء)، از فلپ کے ڈک 
  •  مریخ (1992ء) اور مریخ پر واپسی (1999ء)، از بین بووا
  •  اولمپس پر کمند (1994ء)، از کیون جے اینڈرسن 
  • سرخ بلواہ (2001ء) از ولیشن، شایع کردہ ٹی ایچ کیو
  •  پلیٹ فارم (2011ء) از جیمز گاروی
  • "فینا کی تباہی" (1974ء)، از الیگزینڈر کازنٹ سوف 
  •  مریخی سرگزشت (1950ء)، از رے براڈ بری 
  •  مریخ کی ریت (1951ء)، از آرتھر سی کلارک 
  • مکمل طلبی (1990ء)، از پال ور ہوون 
  •  جناب نامعلوم (2009ء)، از جاکو وان ڈورمیل 
  •  مریخی (2015ء)، ہدایت کار ریڈلی اسکاٹ        

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ریجس، ایڈیشن (ستمبر 21، 2015ء) "مریخ پر نہ جائیں"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ کردہ ستمبر 22، 2015ء۔
  2. ویسٹ، جان بی (1 مارچ 1999ء)۔ " ماؤنٹ۔ ایورسٹ پر ہوائی دباؤ کی پیمائش: نئے اعداد و شمار اور فعلیاتی اہمیت" Jap.physiology.org۔ اخذ کردہ 2012-05-15۔
  3. "کیا مریخ پر حیات موجود ہو سکتی ہے؟"۔مارس اکیڈمی۔ اوریکل تھنک کوئسٹ۔اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز فروری 22، 2001ء۔
  4. فونگ، ایم ڈی، کیون (12 فروری 2014ء) "آپ کے جسم پر مریخ عجیب، مہلک اثرات ڈال سکتا ہے" وائرڈ (میگزین)۔ اخذ کردہ 2014-02-12۔
  5. "قوت ثقل زخم دیتی ہے (بہت اچھے)" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ science.nasa.gov (Error: unknown archive URL) ناسا 2001ء۔
  6. "مریخی چوہے" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ science.nasa.gov (Error: unknown archive URL) science.nasa.gov۔ 2004ء
  7. ہیملٹن، کیلون۔" مریخ کا تعارف"۔
  8. ایلرٹ، گلین۔ "مریخ کی سطح پر درجہ حرارت"
  9. ہیچٹ، ایم ایچ (2002)۔"مریخ پر مائع پانی کا مابعد استحکام"۔ ایکارس 156 (2): 373–386۔ Bibcode:2002Icar۔۔156۔۔373H doi:10۔1006/icar۔2001۔6794۔
  10. ویبسٹر، گائے؛ براؤن، ڈیوائینی (10 دسمبر 2013ء)۔ "ناسا کے مریخی خلائی جہاز نے متحرک مریخ کو عیاں کیا"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jpl.nasa.gov (Error: unknown archive URL) ناسا اخذ کردہ 2014-03-02۔
  11. "مریخ زمین کی تصویر میں" ڈسکوور میگزین۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  12. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 05 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2015 
  13. http://adsabs.harvard.edu/full/1957SvA.....1..547۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  14. "مریخ"۔ google.fi۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  15. ٹماٹو اسفئیر۔ "معلم رہنما – مریخ پر سورج کی روشنی - ٹماٹو اسفئیر" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tomatosphere.org (Error: unknown archive URL) tomatosphere.org۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  16. کوفی، جیری (5 جون 2008ء) "مریخ پر ہوا"۔ یونیورس ٹوڈے۔ اخذ کردہ 2014-03-02۔
  17. لینڈس، جیفری اے ؛ کولوزا، انتھونی؛ لا میری، کرسٹوفر ایم (جون 2002ء) ۔" زہرہ پر کرۂ ہوائی میں اڑان"(پی ڈی ایف) (ناسا/ ٹی ایم—2002-211467)۔ گلین ریسرچ سینٹر، نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات (پی ڈی ایف)بروز نومبر 3، 2004ء۔
  18. بالڈون، ایمیلی (26 اپریل 2012ء)۔"کائی مریخ جیسے ساخت ماحول میں زندہ رہ گئی"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ skymania.com (Error: unknown archive URL) اسکائی مانیا نیوز۔ اخذ کردہ 2012-04-27۔
  19. ڈی ویرا، جے - پی ؛ کوہلر، الرچ (26 اپریل 2012ء)۔ "شدت آشنا کا مریخی سطح کے حالات سے مطابقت پذیری کا امکان اور اس کے مریخ کے قابل سکونت پر ہونے والے مضمرات" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ media.egu2012.eu (Error: unknown archive URL) (پی ڈی ایف)۔ یورپی جیو سائنسز یونین۔ اخذ کردہ 2012-04-27۔
  20. "مریخ پر زندہ رہنے کے حالات"۔ ڈی ایل آر۔
  21. ورسیکس، سیپرین ؛ باکو، میکائل؛ لیٹو، کرسی؛ ڈی ویرا، جین-پیری پی ؛ و دیگر (3 اگست 2015ء۔ "مریخ پر قابل استحکام حیات کی کفالت – شائنو جرثوموں کا ممکنہ کردار"۔ فلکی حیات کا بین الاقوامی جریدہ۔ doi:10۔1017/S147355041500021X اخذ کردہ 2015-09-16۔
  22. "خطرناک سیارے نے اپنا محصول حاصل کر لیا"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marsrover.nasa.gov (Error: unknown archive URL) مریخی کھوجی جہاں گرد۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری، کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی۔ جون 12، 2007ء۔
  23. "اونچی، دور اور لمبی - بیسویں صدی کے دوسرے حصّے میں غبارے کی یادگار اڑان"۔ یو ایس سینٹینیل آف فلائٹ کمیشن۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز اپریل 30، 2003ء۔ اخذ کردہ ستمبر 22، 2014ء۔
  24. "کرۂ فضائی کا دباؤ بذریعہ ہوا پیما بمقابلہ بلندی تختہ"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ sablesys.com (Error: unknown archive URL) سیبل سسٹمس انٹرنیشنل۔ 2014ء۔
  25. زبرین، رابرٹ ایم ؛ مکائی، کرسٹوفر پی "مریخ کی ارض سازی کے لیے درکار فنیات"۔
  26. "حوالاجات اور ڈاکومنٹس "۔ہیومن اڈاپٹیشن اینڈ کاؤنٹر میژرس ڈویژن، جانسن اسپیس سینٹر، ناسا۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز مئی 30، 2010ء۔
  27. "خلائی اشعاعی حیاتیات"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bnl.gov (Error: unknown archive URL) ناسا/ بی این ایل اسپیس ریڈیشن پروگرام۔ ناسا اسپیس ریڈیشن لیبارٹری۔ نومبر 1، 2011۔
  28. زبرین، رابرٹ(1996)۔ مریخ کا معاملہ: سرخ سیارہ پر رہنے کا منصوبہ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ٹچ اسٹون۔ صفحہ۔ 114–116۔ آئی ایس بی این 0-684-83550-9۔
  29. گٹیریز -فولچ، انیتا (ستمبر 17، 2009ء)۔ "خلائی تابکاری ناسا کے مریخ سے متعلق کی جانے والی خواہشات میں رکاوٹ"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ findingdulcinea.com (Error: unknown archive URL) ڈلسینیا کی کھوج ۔
  30. اسٹرن، ڈیوڈ پی (2004-12-12)۔"مریخ کی اڑان: کتنی لمبی؟ کس راستے سے؟"۔ ستارہ شناسی سے خلائی جہاز تک۔ Phy6.org. اخذ کردہ 2013-08-01۔
  31. "متغیر مخصوص ضربی مقنا پلازما راکٹ "۔ ٹیک بریف۔ ناسا۔
  32. "برق پارے کے انجن کی طاقت ایک دن ایسی ہو سکتی ہے کہ مریخ تک صرف39 دنوں میں جایا جا سکے۔" نیو سائنٹسٹ۔
  33. زبرین، رابرٹ(1996)۔ مریخ کا معاملہ: سرخ سیارہ پر رہنے کا منصوبہ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ٹچ اسٹون۔ آئی ایس بی این 0-684-83550-9۔
  34. "مریخ و زمین کے درمیان خلائی تابکاری خلا نوردوں کے لیے مہلک خطرہ ثابت ہو سکتی ہے"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ science.nasa.gov (Error: unknown archive URL) ناسا
  35. ولیمس، ڈاکٹر۔ ڈیوڈ آر (2004-09-01)۔ "مریخ کا حقائق نامہ"۔ ناسا گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر۔ اخذ کردہ 2007-09-18۔
  36. ایٹیکنسن، نینسی (2007-07-17)۔ "مریخ پر اترنے کا طریقہ کار: سرخ سیارے کی سطح پر بھاری سامان اتارنا"۔ اخذ کردہ 2007-09-18۔
  37. "خلائی بالابر- باب 2 اور7۔"ناسا اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 2005-06-03۔
  38. وین سٹین، لیونارڈ ایم "فوبوس پر بنے خلائی بالابر کو استعمال کرکے خلاء کو آباد کرنا" (پی ڈی ایف)۔
  39. بیلیسکو، الیندرو جی (7 مارچ 2014ء)۔"مریخ کے لیے اسپیس ایکس کا جدید دھکیلو بذریعہ قوت ریپٹر" NASAspaceflight.com۔ اخذ کردہ 2014-03-14۔
  40. لینڈس (2001)۔ "برمحل ایندھن کا استعمال کرکے مریخ کی خلائی گاڑی کو چلانا"۔ جرنل آف اسپیس کرافٹ اینڈ راکٹس۔ 38 (5): 730–735۔ Bibcode:2001JSpRo۔۔38۔۔730L doi:10۔2514/2۔3739۔
  41. "Elon Musk puts his case for a multi-planet civilisation | Aeon Essays"۔ 12 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2015 
  42. "شمسی قران کے دوران مریخ کا خلائی جہاز خود کار طریقے سے چلے گا"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marsrovers.jpl.nasa.gov (Error: unknown archive URL) اسپاٹ لائٹ۔ جے پی ایل،ناسا اکتوبر 20، 2006ء۔
  43. گینگیل، ٹی (2005)۔ " مارس سیٹ :مریخ کے ساتھ یقینی رابطہ"۔ نیویارک اکیڈمی آف سائنسز کی سالانہ سرگزشت۔ 1065: 296–310۔ Bibcode:2005NYASA1065۔۔296 G doi:10۔1196/annals۔1370۔007۔ پی آئی ایم ڈی 16510416۔
  44. "سورج و مریخ کا حقیقی اہتزاز اور مریخ کی مہم کی نقل" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ stk.com (Error: unknown archive URL) (پی ڈی ایف)۔ Stk.com۔ اخذ کردہ 2013-10-06۔
  45. "نیا بین السیاروی رابطہ نشر کرنے کا طریقہ" (پی ڈی ایف)۔ اگست 2010ء۔ اخذ کردہ 2011-02-14۔
  46. کپلان، ڈی ؛ و دیگر "مریخ کے برمحل ایندھن بنانے کے نقیب (ایم اے پی) کی اڑان کا مظاہرہ " (پی ڈی ایف)۔ مقالہ پیش کیا گیا مریخ 2001ء:مربوط سائنس میں نمونے کی واپسی اور انسانی کھوج کی تیاری، لونر اینڈ پلانٹری انسٹی ٹیوٹ، اکتوبر۔ 2تا4، 1999ء، ہیوسٹن،ٹیکساس۔
  47. لینڈس، جی اے ؛ جینکنز، پی ؛ شیمین، ڈی ؛ باراونا، سی "ایم اے ٹی ای اور ڈی اے آر ٹی: مریخ پر شمسی توانائی اور ماحولیاتی دھول کی خصلت جانچنے کا میکانیکی پلندہ"(پی ڈی ایف)۔ مریخ کی کھوج کے تصورات و طریقہ کار کے اوپر پیش کیا گیا، جولائی 18–20، 2000ء ہیوسٹن، ٹیکساس۔
  48. گوینی شاٹ ویل (2014-03-21)۔ براڈ کاسٹ 2212: اسپیشل ایڈیشن، گوینی شاٹ ویل کے ساتھ انٹرویو ۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ thespaceshow.com (Error: unknown archive URL) اسپیس شو۔ پروگرام نشر ہوا 29:45–30:40۔ 2212۔ اوریجنل آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archived.thespaceshow.com (Error: unknown archive URL) سے حاصل کردہ دستاویزات بروز (mp3) 2014-03-22۔ اخذ کردہ 2014-03-22۔ "اس سے پہلے کہ آپ لوگوں کو وہاں لے جائیں آپ کو بہت ساری چیزوں کو وہاں پہنچانا ہوگا۔۔۔۔ یہ مریخ اور زمین کے درمیان نقل و حمل کا نظام ہوگا۔
  49. " اسپیس ایکس کے بانی مریخ پر ایک بڑی بستی کا خواب سجائے ہوئے ہیں "۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.discovery.com (Error: unknown archive URL) ڈسکوری نیوز۔ 2012-12-13۔ اخذ کردہ 2014-03-14۔
  50. این ڈبلیو ٹی میگزین، اگست 2012ء
  51. "ایلون مسک: میں انسان کو 10 برس میں مریخ پر لے جاؤں گا"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marketwatch.com (Error: unknown archive URL)مارکیٹ واچ (نیو یارک: وال اسٹریٹ جرنل)۔ 2011-04-22۔ سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 2011-12-01۔ اخذ کردہ 2011-12-01۔
  52. کوپینگر، راڈ (2012-11-23)۔ " اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک مریخ پر ایک بڑی بستی کا خواب سجائے ہوئے ہیں "۔ Space.com۔ اخذ کردہ 2013-06-10۔ " اسپیس ایکس'کے فالکن 9 افزودہ گر کا ارتقا ۔۔۔ [ فالکن 9] سے کہیں بڑا، تاہم میرا خیال نہیں ہے کہ ابھی اس کا وزن بتانا مناسب ہوگا۔ ہم اس کے بارے میں اگلے برس بات کریں ۔۔۔۔ عمودی اترنا ایک انتہائی شاندار دریافت ہوگی۔ شاندار تیز رفتاری سے دوبارہ استعمال کے قابل ۔
  53. لینڈس، جیفری اے (2009)۔" مریخ پر شہابی لوہا بطور تعمیراتی وسائل "۔ ایکٹا خلائیاتی 64 (2–3): 183۔ Bibcode:2009AcAau۔۔64۔۔183L doi:10۔1016/j۔actaastro۔2008۔07۔011۔
  54. لو لاک، جیمز اورعا لابی، مائیکل، "مریخ کی سبزہ کاری"1984ء
  55. "آفتاب زدگی میں بادلوں اور آلودگی کا اثر"۔ اخذ کردہ 2012-10-04۔
  56. گلوبس، اے ایل (2 فروری 2012ء)۔ "خلاء میں قیام کی بنیادی باتیں"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ settlement.arc.nasa.gov (Error: unknown archive URL) ناسا ایمزریسرچ سینٹر۔
  57. "اسپیس ایکس قابلیت و خدمات "۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ spacex.com (Error: unknown archive URL) اسپیس ایکس۔ 2013ء۔ اخذ کردہ 2013-12-11۔
  58. بیلفور، مائیکل (2013-12-09)۔ " راکٹ ساز" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ foreignpolicy.com (Error: unknown archive URL)۔ خارجہ پالیسی۔ اخذ کردہ 2013-12-11۔
  59. ایموس، جوناتھن (30 ستمبر 2013ء)۔"بازیافتہ راکٹ: اسپیس ایکس کا دور بدل پزیر خلائی جہازوں کو آواز دے رہا ہے"۔ بی بی سی نیوز۔ اخذ کردہ 2013-10-02۔
  60. "متاثر، اختراع اور دریافت کرنے کا ایک سفر" (پی ڈی ایف)۔ صدارتی کمیشن کی رپورٹ برائے نفاذ منصوبہ ریاست ہائے متحدہ خلائی کھوجی پالیسی۔ جون 2004ء۔
  61. فوگ، مارٹین جے (1997)۔"مریخ کی حرحرکی توانائی کی افادیت" (پی ڈی ایف)۔ برطانوی بین السیاروی سوسائٹی کا جریدہ 49: 403–22۔ Bibcode:1997JBIS ۔۔50۔۔187F
  62. کشنگ، جی ای ؛ ٹیٹس، ٹی این ؛ ونی 1، جے جے ؛ کرسچنسن پی آر "ٹی ایچ ای ایم آئی ایس نے مریخ پر ممکنہ غار کے روشن دانوں کا مشاہدہ کیا " (پی ڈی ایف)۔ اخذ کردہ 2010-06-18۔
  63. کوئنز یونیورسٹی بیلفاسٹ کے سائنس دانوں نے ناسا کی مریخ کے منصوبے میں مدد کی" ابھی تک کسی نے یہ ثابت نہیں کیا کہ مریخ کی گہرائی میں زیر زمین پانی ہے، تاہم یہ بات معقولیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہاں یقینی طور پر سطحی برف اور کرۂ فضائی میں پانی کے بخارات موجود ہیں، لہٰذا ہم اسے آلودہ نہیں کرنا چاہیں گے اور خرد جرثوموں کو وہاں متعارف کروا کر اس کو ناقابل استعمال بنا دیں گے ۔"
  64. سی او ایس پے اے آر سیاروی حفاظتی پالیسی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ science.nasa.gov (Error: unknown archive URL) (20 اکتوبر 2002ء؛ ترمیم شدہ 24 مارچ 2011ء)
  65. جب حیاتیاتی کرہ ٹکراتا ہے – ناسا کے سیاروی حفاظتی پروگرام کی تاریخ، مائیکل میلٹزر، مئی 31، 2012ء،دیکھیے باب 7، مریخ پر واپسی – حتمی حصّہ: "کیا ہمیں انسانی مہمات کو حساس اہداف سے دور رکھنا چاہیے"
  66. جانسن، جیمز ای "سیاروی حفاظتی علم کی کمی برائے انسانی ماورائے ارض مہمات: مقصد و دائرہ کار"( 2015ء)
  67. مریخ پر محفوظ صفحہ 37 "مریخی حیاتیاتی آلودگی اس وقت وقوع پزیر ہو سکتی ہے اگر خلا نورد آلودہ مٹی میں سانس لیں گے، یاوہ ایسے مادّے کے ساتھ رابطہ کر بیٹھیں جو ان کی رہائش گاہ میں متعارف کروایا گیا ہو۔ اگر خلا نورد خود آلودہ یا پھر متاثر ہو جائیں تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ مریخی حیاتیاتی ہستیوں میں یا اپنی رفیق کاروں میں بیماری کو منتقل کر سکتے ہیں یا اس طرح کی ہستیوں کو زمین پر آنے کے دوران زمینی حیاتیاتی کرہ میں پھیلا سکتے ہیں۔ کوئی بھی آلودہ خلائی گاڑی یا کوئی آلہ جو زمین پر واپس آئے وہ بھی آلودگی پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔"
  68. ""مریخ اول – مریخ پر 2023ء تک ایک مکمل خود مختار انسانی بستی قائم کرنے کا قدم"۔"۔ 06 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2015 
  69. ہولیگن، اینا (19 جون 2012ء)۔ "کیا ولندیزی خلاء میں ٹی وی حقیقی ڈرامے میں رہ سکتے ہیں؟"۔ بی بی سی۔ اخذ کردہ 26 نومبر 2012ء۔
  70. مین، ایڈم (27 دسمبر 2012ء)۔ "سال کا سب سے زیادہ نڈر نجی خلائی کھوجی منصوبہ"۔ وائرڈ۔ اخذ کردہ 29 دسمبر 2012ء۔
  71. "نئے منصوبے کا مقصد مریخ پر انسانی بستی کا قیام ہے"۔ phys.org۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  72. الیکس نیپ (27 نومبر 2012ء)۔ "اسپیس ایکس کے ارب پتی ایلون مسک چاہتے ہیں کہ مریخ پر80,000 لوگوں کی بستی قائم ہو جائے"۔ فوربس۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  73. "مسک سمجھتے ہیں کہ ہم مریخ پر جلد ہی ہوں گے - بزنس انسائڈر "۔ بزنس انسائڈر۔ 24 اپریل 2015ء۔ اخذ کردہ 12 جون 2015ء۔
  74. http://www.virgin.com/news/mars-its-virgin-territory
  75. ایلڈرن، بز(13 جون 2013ء)۔ "مریخ کی پکار"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ کردہ 17 جون 2013ء۔
  76. ڈن، مارشیا (27 اگست 2015ء)بز ایلڈرن نے یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کر لی اور اب مریخ کے لیے "جامع منصوبہ " بنا رہے ہیں۔ اے پی نیوز۔ اخذ کردہ 30 اگست 2015ء۔

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط  ترمیم