مسعود حسین خان کا نظریہ آغاز اردو

اُردو کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے خالص لسانیاتی نقطہ نظر سے وسیع تناظر میں مطالعہ و تحقیق کرنے والے ماہرین میں ڈاکٹر مسعود حسین خان (1919ء۔2010ء)سرِ فہرست ہیں۔انھوں نے امیر خسرو کے فقرے "زبانِ دہلی و پیرامنش" ( دہلی اور اِس کے نواح کی بولیاں) سے اشارہ پا کر نواحِ دہلی کی بولیوں ( کھڑی بولی، برج بھاشا، ہریانی، قنوجی، میواتی) کے جدید روپ اور دست یاب قدیم نمونوں کے تقابلی تجزیے اور مطالعے کی بنیاد پر دکنی زبان(اُردوئے قدیم)کی خصوصیات کو پنجابی کے بہ جائے مذکورہ بولیوں میں پہچاننے کی کوشش کی۔اُن کے مطابق تمام مذکورہ بولیوں نے مختلف ادوار میں اُردو کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔میواتی اور بالخصوص ہریانی نے قدیم اُردو کی تشکیل میں حصّہ لیا۔کھڑ ی بولی نے جدید اُردو کا ڈول تیار کیا۔

برج بھاشا نے اُردو کا معیاری لب و لہجہ متعین کرنے میں مدد دی۔اِس حوالے سے اِن کی پہلی لسانیاتی تصنیف ’مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو ‘ مطبوعہ 1948ءسے اِن کے بیانات درج ذیل ہیں:

"قدیم اُردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔اِس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں اور جب پندرھویں صدی میں آگرہ دار السلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا مقبولِ عام ہو جاتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔[1]

قدیم اُردو جمنا پار کی ہریانی بولی سے قریب تر ہے۔جدید اُردو اپنی صرف و نحو کے اعتبار سے مراد آباد اور بجنور کے اضلاع کی بولی سے قریب تر ہے۔برج بھاشا نے بعد کو اُردو کا معیاری لب و لہجہ متعین کرنے میں ضرور مدد دی ہے۔اِس سلسلے میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر لودھی کے عہد سے لے کر شاہ جہاں کے زمانے تک آگرہ ہندوستان کا پایۂ تخت رہا ہے۔[2]

"جدید اُردو کا معیاری لب و لہجہ برج بھاشا کا تتبع کرتا ہے۔[3]

"راجپوتوں کی دلّی، ڈلّی یا اَپ بھرنش ادبیات کی ’ ڈھلی‘ ہریانے کے علاقے میں تھی جس سے کھڑی بولی کی نسبت میواتی زیادہ قریب تھی۔۔۔بعد کو مغلوں کے عہد میں برج بھاشا اور کھڑی بولی کے اثرات اِس پر غالب آ جاتے ہیں۔[4]

دست یاب قدیم تحریری مواد اور نواحِ دہلی کی مذکورہ بولیوں کے تقابلی مطالعے اور تجزیے سے ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اُردو کی ابتدا و ارتقا کے حوالے سے اپنے لسانی نظریے کی تشکیل اس طرح کی کہ دو آبہ (مغر بی یو پی) اور جمنا پار کا علاقہ یعنی دہلی اُردو زبان کا مولد و منشا اور زبانِ دہلی و پیرامنش اِس کی ماخذ قرار پائی۔انھوں نے گویا ’ دہلی اور نواحِ دہلی‘ کو اُردو زبان کی جائے پیدائش کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔لکھتے ہیں:

"اِس لیے ’ زبانِ دہلی و پیرامنش ‘ اُردو کا اصل منبع اور سر چشمہ ہے اور حضرتِ دہلی اُس کا حقیقی مولد و منشا۔"[5]

مزید لکھتے ہیں:

"اِس زبان کا مولد و منشا امیر خسرو کی ’ حضرتِ دہلی‘ اور اِس کے نواح کی بولیاں ہیں۔قدیم اُردو کی وہ تمام خصوصیات جنھیں مرہٹی ، پنجابی یا برج بھاشا سے منسوب کیا جاتا رہا ہے ، اِس تجزیے کے بعد یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اِن کا تعلق دہلی کے نواح کی دو بولیوں ؛ کھڑی بولی اور ہریانی سے ہے۔قدیم اُردو کی بعض شکلوں کا تعلق مشرقی راجستھان کی بولی میواتی سے بھی ہے جو مہر ولی اور قطب تک پھیلی ہوئی ہے۔"[6]

درج بالا قول سے بلا شبہ اِس امر کی وضاحت ملتی ہے کہ اُردو کے آغاز کے سلسلے میں ڈاکٹر مسعود حسین خان نے دہلی اور نواحِ دہلی کی تمام بولیوں میں ہریانی اور کھڑی بولی کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔یہاں دل چسپ اور قابلِ توجہ ڈاکٹر مسعود حسین خان کی لسانی فکر کا وہ تدریجی تغیر ہے جو اُردو زبان کے آغاز و ارتقا میں ہریانی اور کھڑی بولی کی زمانہ وار پُر اثر لسانی اہمیت جتانے میں اجاگر ہوا ہے۔ ابتداً انھوں نے اپنی تصنیف ، ’ مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو‘ میں قدیم اُردو کو براہِ راست ہریانی سے تشکیل پزیر بتایا ہے جس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں۔’ مقدمہ تاریخِ ز بانِ اُردو ‘ کے چوتھے ایڈیشن ، مطبوعہ1970ء کے مطابق:

"قدیم اُردو جمنا پا ر کی ہریانی بولی سے قریب تر ہے۔[7]

٭

"قدیم اُردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔اِس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں۔"[8]

متعدد دلائل اور مثالوں کی مدد سے ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اُردو ز بان کے ہریانی سے تشکیل پزیر ہونے کے نظریے کی بھر پور تائید کی ہے اور اپنے مضامین میں بھی وقتاً فوقتاً اپنے اِس مؤقف کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔مثال کے طور پر اِ ن کا مضمون، رسالہ "Current Trends in Linguistics" کی جلد پنجم میں بہ عنوان "Urdu" شائع ہوا، جس میں لکھتے ہیں:

" Old Urdu is based on the Haryani dialect of Dehli, whereas Modern Urdu is standardised on another Delhi dialect, i.e. Khadi Boli." [9]

مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو‘ ایسے تنقیدی و تجزیاتی مباحث کا مجموعہ ہے جن کے تحت بالخصوص پروفیسر حافظ محمود شیرانی کے لسانی نظریے ، ’ پنجاب اُردو زبان کا مولد‘ کی دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے اور متعدد مثالوںسے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قدیم اُردو اور دکنی کی جو خصوصیات پروفیسر حافظ محمود شیرانی پنجابی سے منسوب کرتے ہیں وہ ہریانی میں بھی پائی جاتی ہیں۔اِن کے مطابق ” قدیم اُردو اور دکنی کا ’پنجابی پن‘ اس کا ’ ہریانی پن‘ ہے۔“[10] ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے اپنی تصنیف، ’ حافظ محمود شیرانی اور اُن کی علمی و ادبی خدمات (جلد اوّل) ‘ میں اپنے علمی تبحر اور تجزیاتی مہارت کے بل پر پنجابی، دکنی، ہریانی ، برج بھاشا اور نواحِ دہلی کی دیگر مقامی بھاشاو ¿ں کے ساتھ اُردو کے تعلق کے حوالے سے ڈاکٹر مسعود حسین خان کی اِس تحقیق کا رَد اِن الفاظ میں کیا ہے:

" مسلمان مغربی پنجاب سے جو بولی لے کر آگے بڑھتے ہیں وہ راجستھانی اور پہاڑی بولیوں کا یہ تعلق منقطع کر دیتی ہے اور اِس نئی بولی کے ہریانہ کی مروجہ راجستھانی پر اثر انداز ہونے کے نتیجے میں جو بولی ظہور میں آتی ہے وہ ہریانی ہے۔اِس بنا پر ہریانی کو مسلمانوں سے پہلے کے دور میں تلاش کرنا من قبیل محالات ہے۔لہٰذا مسعود صاحب کو قدیم اُردو (دکنی) میں جو ہریانی پن نظر آتا ہے وہ در حقیقت اِس کا پنجابی پن ہے۔۔۔۔۔ہریانی بولی جب دہلی میں رائج ہو جاتی ہے تو دار الحکومت کے شمال مشرقی علاقوں ( دو آبہ اور مغربی یو پی) میں برج کے ساتھ اِس کی طویل کشمکش کا آغاز ہوتا ہے جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گو برج آنے والی صدیوں میں ادبی حیثیت سے فائق رہتی ہے۔۔۔تاہم بول چال کی حیثیت سے مسلمانوں کی آوردہ ’ الف‘ بولی کام یاب ہوتی ہے اور کھڑی کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔گویا اِس طرح ہم یہ کلیات اخذ کرتے ہیں:

(1) قدیم پنجابی+مسلمان فاتحین کی زبانیں=مسلمان پنجابی ( گیارھویں بارھویں صدی عیسوی)۔

(2) مسلمان پنجابی + راجستھانی =ہریانی ( تیرھویں چودھویں صدی عیسوی)۔

(3) ہریانی +برج بھاشا= کھڑی (اُردو) ( پندرھویں صدی عیسوی اور ما بعد)۔

یعنی اُردو کی بنیاد قدیم پنجابی پر ہے۔اِس کے ارتقا کی پہلی منزل ہریانی ہے اور دوسری منزل کھڑی۔نئی زبان کی تعمیر میں جو دیسی زبانیں کام آئیں وہ بہ ترتیبِ زمانی پنجابی، راجستھانی اور برج ہیں کیوں کہ ہریانی اور کھڑی تو خود اُردو کی مختلف شکلیں ہیں۔"[11]

ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے مطابق ’ مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو ‘ میں ڈاکٹر مسعود حسین خان سے اہم فروگذاشت یہ ہوئی ہے کہ انھوں نے موجودہ پنجابی اور موجودہ ہریانی کا مقابلہ قدیم دکنی سے کر کے نتائج اخذ کیے ہیں۔حال آنکہ جس وقت پنجاب میں اُردو کا ارتقا عمل میں آیا اُس وقت ہریانی اور کھڑی بولی تو کجا خود برج بھاشا بھی ایک جدا گانہ زبان کی حیثیت سے عالمِ وجود میں نہیں آئی تھی۔گویا اُردو کے وجود پانے کے بعد ہی ہریانی زبان کی پیدائش عمل میں آئی۔لہٰذا قدیم دکنی اُردو اور ہریانی زبان میں بعض لسانی اشتراک سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اُردو ہریانی سے بنی۔بلکہ اِس کا سبب یہ ہے کہ اُردو اور ہریانی ، دونوں کا سر چشمہ ایک ہی تھا۔[12]مزید برآں پوری کتاب میں اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ پنجابی سے توجہ ہٹا کر ہریانی کو آگے بڑھایا جائے اور کچھ اِس انداز میں کتاب لکھی گئی ہے کہ پنجابی واقعی پس منظر میں چلی جاتی ہے۔اپنے مضمون ، ’ اُردو کی ابتدا‘ میں ’ مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو ‘ کی بابت ڈاکٹر محی الدین قادری زور لکھتے ہیں:

" ڈاکٹر مسعود حسین کی پوری کتاب ایسے گنجلک اور مبہم و متضاد بیانات سے معمور ہو گئی ہے کہ اِن پر ایک سرسری تبصرے کے لیے بھی کافی وقت اور فرصت درکار ہے۔۔۔۔۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب محنت اور تلاش و جُست جُو سے لکھی گئی ہے لیکن محض ژول بلاک کی سند پر ایک پورا نظریہ قائم کرنے اور پنجاب میں آغاز اُردو کے نظریے کو غلط ثابت کرنے میں اپنی ساری قابلیت وقف کر دی ہے۔"[13]

یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ ڈاکٹر مسعود حسین خان کا ہریانی کو اُردو کا اصل سر چشمہ قرار دینا اِن کاا پنا خیال نہیں بلکہ پندرہ سال ماقبل یعنی 1930ء میں  ژول بلاک (Jules Bloch) اپنی تحاریر میں اور بعدازاںخود ڈاکٹر محی الدین قادری زور اپنی تصنیف ، ’ ہندوستانی لسانیات‘ (1932ء) میں [14] اُردو پر ہریانی اثرات کا ذکر اشارتاً کر چکے ہیں ، البتہ ہریانی مواد کے لسانیاتی تجزیوں کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے اور اطرافِ دہلی کی بولیوں کا غائر مطالعہ کر کے دہلی ہی کو اُردو کا اصل وطن ثابت کرنے کا کام سب سے پہلے ڈاکٹر مسعود حسین خان ہی نے انجام دیا۔

ہریانی کو اُردو زبان کا ماخذ و منبع قرار دینے سے متعلق ڈاکٹر مسعود حسین خان کے خیالات 1987ء سے پہلے کے ہیں۔’ مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو ‘ کے ساتویں ایڈیشن (1987ء) میں انھوں نے نئی معلومات کی بنا پر اپنے نظریے میں بعض اضافے اور ترمیمات کی ہیں اور کتاب کا تیسرا باب از سرِ نو لکھا ہے۔اِس نئے ایڈیشن میں انھوں نے میواتی اور برج بھاشا کواُردو کے آغاز و ارتقا کے عمل سے قطعاًخارج کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آخری باب میں وہ ہریانی اور کھڑی بولی تک محدود رہے ہیں۔اِ س طرح اُن کے نئے اور نظرِ ثانی شدہ نظریے کی رو سے اُردو کے آغاز کے سلسلے میںمقدم اہمیت ہریانی کے بہ جائے کھڑی بولی کو حاصل ہو گئی۔

’مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو ‘ کے ساتویں ایڈیشن کے مطابق:

"قدیم اُردو کھڑی بولی اور جمنا پار کی ہریانی سے قریب تر ہے۔"[15]

٭

" قدیم اُردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانی کے زیرِ اثر ہوئی ہے اور جب سولھویں صدی میں آگرہ دار السلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام مقبول زبان ہو جاتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔"[16]

ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اُردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں بجا طور پرکھڑی بولی اور ہریانی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔قدیم و جدید اُردو اور دکنی اُردو کے لسانیاتی تجزیے کی بنیاد پر انھوں نے کھڑی بولی کو اُردو کا سر چشمہ تسلیم کرتے ہوئے اِس کی تشکیل میں دہلی کے شمال مغرب کی ہریانی بولی کو بھی ’ برابر کی حصے دار‘ بتایا ہے۔لکھتے ہیں:

" امیر خسرو کی ’نہ سپہر‘ میں دی ہوئی بارہ ہندوستانی زبانوں کی فہرست سے ’ زبانِ دہلی و پیرامنش‘ "(دہلی اور اِس کے نواح کی بولیاں) کو اُردو کا سر چشمہ ثابت کیا گیا ہے، اِس طرح کھڑی بولی کے ساتھ ہریانی بھی اِس میں برابر کی شریک ہو گئی ہے۔"[17]

اُردو کی تشکیل میں کھڑی بولی اور ہریانی کو برابر کی حصے دار ٹھہرانے کے باوجود ڈاکٹر مسعود حسین خان کھڑی بولی ہی کو اُردو کی ’اساس‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اُردو کے ڈانڈے آج بھی گیت تا غزل پھیلے ہوئے ہیں، لیکن کھڑی بولی پر اِس کی اساس کا ہونا شرط ہے۔"[18]

اُردو زبان کی تشکیل میں کھڑی بولی کے بنیادی کردار اور اِسے اُردو کی ’اساس‘ کی حیثیت سے تسلیم کر لینے کے باوجود ڈاکٹر مسعود حسین خان اُردو اور کھڑی بولی کے تعلق کے بارے میں زیادہ واضح نہیں۔وہ کھڑی بولی کو اُردو کے دیہاتی روپ کے معنی میں لیتے ہیں۔گویا اُردو ، کھڑی بولی سے جدا کوئی زبان ہو۔’ مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو‘ کے باب پنجم کے حصّہ دُوُم ، ’ اُردو اور کھڑی بولی‘ میں رقم طراز ہیں:

"کوئی بھی تربیت یافتہ زبان کسی بھی عوامی بولی سے مکمل طور پر لسانی مماثلت نہیں رکھتی۔یہی صورتِ حال اُردو اور کھڑی بولی کے باہمی رشتے کی ہے۔"[19]

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی زبان کے ادبی روپ کو اُس کے بول چال کے روپ سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ایسا کرنا لسانیات کے اصولوں کے منافی ہے۔اِس امر کی مزید وضاحت اور ڈاکٹر مسعود حسین خان کے رَد میں ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:

"ہر زندہ اور فعال زبان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خواص بلکہ عوام، نہ صرف شہروں اور قصبوں بلکہ کسی نہ کسی علاقے کے دیہاتوں میں بھی بولی جاتی ہو۔ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اِس پہلو پر غور نہیں کیا کہ وہ اُردو کو کھڑی بولی سے جدا کر کے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اُردو محض شہروں اور قصبوں ، یعنی محض اشراف کی زبان ہے ، جب کہ دیہاتی عوام کی زبان کھڑی بولی ہے۔۔۔اگر ڈاکٹر مسعود حسین خان کھڑی بولی کو اُردو کا تقریری روپ مانتے تو کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ اُردو ، کھڑی بولی اور ہریانی سے مل کر بنی ہے۔۔۔۔میری رائے میں اُردو محض کھڑی بولی کا شستہ روپ ہے ، اِس سے جدا نہیں۔"[20]

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

"عام طور سے سٹینڈرڈ ہندی اور ہندوستانی ، کھڑی بولی سے جدا نہیں۔دیہاتی بول چال اِس کا مخصوص اور محدود روپ ہے۔نہ جانے کیوں ڈاکٹر مسعود حسین خان کھڑی بولی کو محض اِس کے دیہاتی روپ ہی کے معنی میں لیتے ہیں۔اگر وہ اِسے بول چال کی ہندوستانی کے معنی میں لیں تو اُردو اِس کی ایک فصیح ادبی شکل ٹھہرتی ہے۔کسی زبان کے مہذّب روپ اور اِس کے تقریری روپ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔" [21]

درج بالا طویل بحث سے اُردو زبان کی ابتدا کے حوالے سے ڈاکٹر مسعود حسین خان کی لسانی فکر کے ارتقا ئی سفر کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو ’دہلی و پیرامنش‘ کی بولیوں کے تجزیاتی مطالعے کے نتیجے میں ابتدائیً ہریانی میں اور بعد ازاں کھڑی بولی اور ہریانی میں اُردو کے ابتدائی نقوش کو کھوجتا ہوا اختتام پزیر ہوا۔اگر ڈاکٹر مسعود حسین خان کچھ عرصہ مزید بہ قیدِ حیات رہتے تو بہت ممکن تھا کہ وہ ابتدائے زبانِ اُردو پر اپنی تحقیقات کی بنیاد کھڑی بولی کے لسانی تجزیے پر اُستوار کرتے۔کیوں کہ درج بالا بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ’ہریانی‘ سے زیادہ ’کھڑی بولی ‘ کو اُردو کے ماخذ کی حیثیت سے تسلیم کرنے لگے تھے۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان کے نظریے کے مطابق اُردو کے آغاز کی تاریخ دراصل مسلمانوں کی فتح دہلی ( 1193ء) کی تاریخ ہے کیوں کہ اِس تاریخ سے عربی و فارسی کے لسانی اثرات ’زبانِ دہلی و پیرامنش‘ میں نفوذ کرتے ہیں۔البتہ اِس سے قبل دیسی بولیوں سے عربی و فارسی کا لسانی اختلاط اُردو کی پیدائش کا مو ¿جب نہیں۔وہ لکھتے ہیں:

"ہندوستان کی زبانوں میں عربی و فارسی سے الفاظ کا داخلہ ہی اُردو کی تخلیق کی ضمانت نہیں کرتا، بلکہ جب یہ لسانی اثرات ’زبانِ دہلی و پیرامنش‘ میں نفوذ کرتے ہیں تب اُردو کا پہلا ہیولیٰ تیار ہوتا ہے اور یہ ہوتا ہے مسلمانوں کی فتحِ دہلی (1193ء) کے بعد۔"[22]

چناں چہ بارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں اُردو کا خمیر عربی و فارسی کے عناصر سے مل کر کھڑی بولی سے تے ار ہوتا ہے اور امیر خسرو(1253ء-1325ء) کے ہاں پہلی بار اِس کا ادبی اظہار ملتا ہے۔بعد ازاں یہی زبان ہریانی عناصر کی شمولیت کے ساتھ علاؤ الدین خلجی اور اُس کے لشکر کے ہم راہ 1294ءمیں دکن پہنچتی ہے اور 1327ءمیں  جب محمد تغلق اپنا پایۂ تحت دہلی سے دولت آباد ( دیو گری) منتقل کرتا ہے تو دکن میں اِس کے پاؤں پوری طرح جم جاتے ہیں۔

حوالہ جات:

ترمیم

[1] - مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1948ء)ص:241

[2] - مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1948ء)ص:193

[3] -  مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1948ء)ص:193

[4] -  -مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1948ء)ص:126

[5] -   مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1948ء)ص:263

[6] -مسعود حسین خان، ڈاکٹر : ’ اُردو زبان کی ابتدا اور ارتقا کا مسئلہ ‘ ،مشمولہ : اُردو زبان کی تاریخ (مرتبہ)،ص:100۔

[7] - مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1970ء)ص:193

[8] - مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1970ء)ص:241

[9] -.  Masood Hussain Khan , Dr: Urdu, Current Trends in     Linguistics, (1970), pp.79-80.

[10] -مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1970ء)پیش لفظ

[11] - حافظ محمود شیرانی:اور اُن کی علمی و ادبی خدمات (جلد اوّل)،ص 256۔

[12] - زور، ڈاکٹر محی الدین قادری : ’ اُردو کی ابتدا ‘ ،مشمولہ : اُردو زبان کی تاریخ(مرتبہ) ، ص:27

[13]-’نقوش‘، جولائی 1952ء، ص 97، بہ حوالہ ،’حافظ محمود شیرانی:اور اُن کی علمی و ادبی خدمات (جلد اوّل) ، ص 257۔

[14] - ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے بھی اُردو پر ہریانی کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔اپنی تصنیف، ’ہندوستانی لسانیات‘ (1932ء)کے صفحہ نمبر 98 پر لکھتے ہیں :

"یہاں ایک اور بات مدِّ نظر رکھنی چاہیے کہ اُردو پر بانگڑو یا ہریانی زبان کا بھی قابلِ لحاظ اثر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زبان دہلی کے شمال مغرب میں انبالہ کے اطراف اس علاقے میں بولی جاتی ہے جو پنجاب سے دہلی آتے ہوئے راستے میں واقع ہے۔۔۔۔۔فاتح اور مفتوح کے میل جول سے جو زبان بنتی چلی آ رہی تھی اس میں ہریانی عنصر بھی شامل ہو گیا۔"

[15] -  مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1987ء)ص:189

[16] -  مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1987ء)ص:236

[17] -  مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1987ء)پیش لفظ

[18] -مسعود حسین خان، ڈاکٹر: اُردو زبان : تاریخ، تشکیل، تقدیر (خطبہ پروفیسر ایمریٹس) ، (1988ء)، ص 11، بہ حوالہ ، ’اُردو کی لسانی تشکیل‘ از ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، ص 57۔

[19] -مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1987ء)ص:247

[20] -لسانی رشتے،ص:84

[21] -جین، ڈاکٹر گیان چند: تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اوّل)، دہلی، (1998ء) ، ص 49، بہ حوالہ، ڈاکٹر فیروز احمد : راجستھانی اور اُردو ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بُک ہاو ¿س، (2010ء) ، ص23۔

[22] -مقدمہ تاریخ زبان اُردو(1987ء)ص:76