مسلمانوں کے خلاف تشدد (انگریزی: Persecution of Muslims) قدیم زمانے سے لے کر قرون وسطٰی اور جدید دور، دونوں میں رائج رہا ہے۔ یہ تشدد کی وجہ یا تو ان کی مذہبی وابستگی ہے یا پھر نسلی وابستگی ہے، جیسا کہ بلغاریہ کی ترک زبان بولنے والی آبادی مسلمان ہونے کی وجہ سے امتیازات اور تشدد کی شکار ہو چکی ہے۔ مسلمانوں پر تشدد یا ظلم و ستم کی تاریخ کا آغاز پیغمر اسلام کے دور سے شروع ہو چکا تھا۔ ابتدا میں مکہ کے قریش سردار نو مسلم صحابہ، خصوصًا غلاموں اور عورتوں کو تشدد کا شکار بنا چکے ہیں۔ صلیبی جنگوں کے دوران مسیحی پاپایان، حمکران، فوجی سردار، عام فوجی، یہاں تک کہ عام صلیبیوں نے کافی سفاکی سے مسلمانوں پر حملے کیے، زد و کوب، یہاں تک کہ اذیت ناک موت کا نشانہ بنایا۔ منگول حملہ آوروں نے بھی وحشیانہ صلوک مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا۔ جدید دور میں بوسنیا میں مسلمان نسلی تطہیر کا شکار بنے تھے۔ چین میں باز خواندگی خیموں (Reeducation camps) کے نام پر کئی اویغور مسلمانوں کو اذیت اور اموات کا نشانہ بنایا گیا۔ میانمار میں بھی فوج نے 1990ء کے بعد سے روہنگیا مسلمانوں کا سلسلہ وار انداز میں صفایا کرتی آئی ہے۔

اسی طرح سے بھارت میں مسلمان کئی فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوئے ہیں، جس طرح کہ کچھ اور مذہب کے لوگ بھی جانی اور مالی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ تاہم 2020ء کے دہلی فسادات کا تجزیہ کرتے ہوئے پولیس کے مبینہ یک طرفہ رول کے بارے میں دی نیو یارکر کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ:

ان فسادات میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا قتل ہوا۔ مگر کچھ علاقوں میں یہ کافی واضح رہا کہ ذمے دار لوگ صرف حکومت حامی ہجوموں کے تحفظ اور ان کی سڑکوں پر ڈٹے رہنے میں معاونت کا کردار نبھا رہے ہیں۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم