ویکیپیڈیا:ویکی املائی منشور
اس صفحہ میں اردو ویکیپیڈیا کی حکمت عملی بیان کی گئی ہے، جسے ویکی نویسوں میں انتہائی مقبولیت حاصل ہے نیز یہ تمام صارفین کے لیے واجب الاتباع معیار بھی ہے۔ آپ اس صفحہ میں ترمیم کرسکتے ہیں، لیکن خیال رہے کہ آپ کی کوئی ترمیم کسی اتفاق رائے کے خلاف نہ ہو۔ |
کسی بھی معیاری زبان کی منجملہ خصوصیات میں ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے الفاظ کے املا میں یکسانی پائی جائے، اور دفتری زبانیں عموماً اس خصوصیت سے متصف ہوتی ہیں اور ان کا اپنا معیاری املا موجود ہوتا ہے۔ نیز ہر زبان کو لکھنے کے کچھ متعین قواعد ہوتے ہیں جنھیں قواعد املا کہا جاتا ہے، ان قواعد کے ذریعہ اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کونسا لفظ کس طرح لکھنا درست ہے اور کس طرح غلط۔ املا کے ان قواعد کی تشکیل متعلقہ زبان کے ماہرین انجام دیتے ہیں۔ زبان کے معیاری املا کی تشکیل اور انھیں برقرار رکھنے کے لیے لغات کی ترتیب اور زبان کے انتظام و فروغ کے لیے قومی و لسانی اکادمیاں قائم کی جاتی ہیں۔
اردو چونکہ ایک ایسی زبان ہے جس کی تشکیل میں متعدد زبانوں کا خمیر موجود ہے، مثلاً عربی، فارسی، ترکی، انگریزی، سنسکرت اور متعدد پراکرت اور اپ بھرنش زبانیں؛ اس طرح اردو کا لسانیاتی رشتہ ایک سے زائد لسانی خاندانوں سے جڑا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اس میں املائی قواعد کی ترتیب و تشکیل ایک مشکل کام رہا ہے، تاہم اردو کے ماہرین لسانیات اور اکادمیوں نے اس رخ پر بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ لیکن چونکہ اردو میں بہت سے الفاظ مختلف و متعدد زبانوں سے آئے ہیں اور اردو میں شامل ہو کر ان کا حلیہ بسا اوقات تبدیل ہو جاتا ہے اس لیے اس کے بعض الفاظ کے متعدد املا بھی رائج ہو جاتے ہیں۔
یہاں اردو ویکیپیڈیا پر اردو تحریروں میں املا و قواعد کی یکسانی کو برقرار رکھنے کے لیے ہم نے متفقہ طور پر سفارشات املا کمیٹی، ترقّی اردو بورڈ کے املا نامہ کو اختیار کیا ہے اور جملہ صارفین اپنی تحریروں میں ان سفارشوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں؛ تاہم اگر کسی لفظ کا املا ان سفارشوں کے برخلاف رائج ہو چکا ہو اور قواعد و لسانی مزاج کے خلاف بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں ہم بلا تکلف ان سفارشوں سے اختلاف کرتے ہوئے رائج املا کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذیل میں مختلف فیہ یا غلط املا کے متعلق ان سفارشوں کو مختصراً جدول کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
رہنما اصول
ترقی اردو بوڈ کی ان سفارشات کی ابتدا میں موجود رہنما اصول کے مطابق اردو کے لسانی مزاج اور چلن کو یہاں بھی پوری اہمیت دی جاتی ہے اور ویکی املائی منشور اس حوالہ سے لچکدار رویہ رکھتا ہے، لہذا اگر کسی لفظ کا املا ان سفارشات کے خلاف رائج ہو چکا ہو اور قواعد و لسانی مزاج سے متصادم بھی نہ ہو تو بلا تکلف ان سفارشات سے اختلاف کرتے ہوئے رائج املا کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مذکورہ اصول پیش خدمت ہیں:
- صحتِ املا کے جو اصول اب تک سامنے آ چکے ہیں، اور محتاط اہلِ قلم کے ہاں جن پر عمل بھی ہو رہا ہے، ان کو علمی، صوتی اور لسانیاتی نظر سے پرکھا جائے اور سائنٹفک طور پر منضبط و منظّم کر کے پیش کیا جائے۔
- اُردو کے صدیوں کے چلن اور رواج کو پوری اہمیت دی جائے اور استعمالِ عام کی روشنی میں ترجیحی صورتوں کا تعیّن کیا جائے۔
- املا میں کوئی تبدیلی ایسی تجویز نہ کی جائے جو اُردو کی علمی میراث، اس کی تاریخ، مزاج اور سماجی ضرورتوں کے نقطہ نظر سے نا قابلِ عمل ہو۔
- عربی فارسی سے ماخوذ اُردو ہماری لسانی میراث کا جزو بن چکے ہیں۔ انھیں کی بدولت ہزاروں الفاظ کی بیش بہا دولت ہمیں ودیعت ہوئی جو زبان کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سرمائے کا تحفّظ ہمارا فرض ہے۔
- عربی کے جو مرکبات، عبارتیں یا مکمل اجزا، اُردو میں مستعمل ہیں، انھیں اصل کی طرح لکھنا چاہیے۔
- املا کے اصولوں کا تعیّن کرتے ہوئے وسیع تر عام زبان پر نظر رکھی گئی ہے۔ محض شعری زبان پر نہیں (شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت لفظوں کو کبھی اشباع اور کبھی تخفیف کے ساتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، عام زبان میں لفظ کی متعیّنہ شکل ہی استعمال ہوتی ہے۔
- جہاں مروّجہ قاعدوں سے کوئی مدد نہیں ملی یا املائی انتشار حد سے بڑھا ہوا ہے، وہاں معیاری تلفّظ کی پیروی پر اصرار کیا گیا معیاری تلفّظ کو بنیاد بنانے سے ایسے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔
- سفارشات کو پیش کرنے میں قدیم علمِ ہجا سے بھی مدد لی گئی، اور جدید صوتیات و سماجی لسانیات سے بھی۔ اُردو ایسی پیچیدہ اور متنوع زبان ہے۔ کہ کسی ایک نقطہ نظر کو اپنا کر اس کے املا سے پورا پورا انصاف کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وسیع تر طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جہاں سے بھی جو روشنی مل سکتی تھی، لی گئی۔[1]
سفارشیں
ان سفارشوں کو سنہ 1988ء میں گوپی چند نارنگ نے مرتب کر کے دوبارہ شائع کیا تھا۔ بعد ازاں اس کے متن کو اردو محفل کے دو اراکین فاتح الدین بشیر اور مقدس حیات نے ٹائپ کیا جبکہ اعجاز عبید صاحب نے اسے ای بک فارمیٹ میں تشکیل دے کر افادہ عام کے لیے شائع کیا ہے۔[2] ہم نے سفارشات کا تحریر کردہ یہ متن انہی کی ویب سائٹ پر موجود ورڈ فائل سے اخذ کیا ہے لیکن بعض جگہوں پر معمولی تبدیلیاں کی ہیں تاکہ متن کو اردو ویکیپیڈیا کے ماحول سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
الف مقصورہ
سفارش | |
---|---|
الف مقصورہ | اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ۔ عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔
پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ: مولا، مُصفّا، تَوَلّا، مُدّعا، تقاضا، مُتفا، تماشا، مُدّعا علیہ، تمنّا، ہیولا، نصارا، مقتدا، مقتضا، ماوا باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں: ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ ان الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں: اللہ، الہ، الٰہی اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے: لیلائے شب، دعوائے پارسائی، فتوائے جہاں داری |
عربی مرکبات
عربی مرکبات | یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً
عَلَی الصّباح، عَلَی الرَّغم، عَلَی العُموم، عَلَی الحساب، عَلَی الخُصوص، حتّی الاِمکان، حتّی الوَسع، حتّی المقدور، بالخُصوص، عَلیٰ ہٰذا القَیاس |
رحمن، اسمعیل
رحمٰن، اسمٰعیل | بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔ رحمان، ابراہیم، سلیمان، مولانا، یاسین، اسحاق، لقمان، اسماعیل |
علحدہ
علٰحدہ | علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی) |
لہذا
لہٰذا | لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری طرح چلن میں آ چکا ہے۔ |
معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا
معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا | عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں: شوربہ، چغہ، سقہ، عاشورہ، قورمہ، ناشتہ، ملغوبہ، الغوزہ ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں: |
بالکل، بالترتیب
بالکل، بالتّرتیب | ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتار یا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے: فی الحال، بالکل، انا الحق، بالفعل، ملک الموت
البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا: عبدُ السّتّار، شجاعُ الدّولہ، عبدُ الرّزّاق، لغاتُ النّساء، بالتّرتیب، فخرُ الدّین |
الف ممدودہ
الف ممدودہ | الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔ بغیر مد کے: |
تنوین
تنوین | اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے، اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی، اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے"۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً قدرتاً حقاًتتا حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً |
ت، ۃ
ت، ۃ | اوپر ہم تنوین کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اصول کو اپنا چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں تائے مُدَوَّرہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن اردو میں گنتی کے چند عربی الفاظ ۃ سے لکھے جاتے ہیں۔ جب تک یہ اسی طرح چلن میں ہیں، ان کو عربی طریقے سے لکھنا مناسب ہے:
صلوٰۃ زکوٰۃ مشکوٰۃ البتہ اس قبیل کے دیگر عربی الفاظ کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی رائے صحیح ہے کہ یہ اردو میں ت سے لکھے جاتے ہیں، اور اسی طرح چلن میں آ چکے ہیں۔ چنانچہ ان کو ت سے ہی لکھنا چاہیے: حیات نجات بابت منات مسمات تورات |
ت، ط
ت، ط | اردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ت اور ط دونوں سے لکھے جاتے ہیں، ان کے املا میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذیل کے الفاظ ت سے صحیح ہیں:
تپش، تہران، تپاں، تیار، تیاری، توتا، ناتا (رشتہ) ان الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح ہے: غلطاں، طشت، طشتری، طمانچہ، طہماسپ، طوطی |
ذ، ز، ژ
ذ، ز، ژ | گذشتہ، گزارش فارسی مصادر گذشتن، گذاشتن اور پذیرفتن کے جملہ مشتقات بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی ذال سے لکھنے صحیح ہیں۔ جیسے: گذشتہ گذشتگان گذر گاہ در گذر رہ گذر راہ گذار پذیرفتہ پذیرائی سر گذشت وا گذاشت اثر پذیر دل پذیر گزاردن (بہ معنی ادا کرنا، پیش کرنا) کے مشتّقات کو زے سے لکھنا صحیح ہے، جیسے:
گزارش باج گزار خدمت گزار شکر گزار نماز گزار عرضی گزار مال گزاری
گزرنا اور گزارنا اگرچہ گذشتن سے ہیں لیکن تہنید اور تارید کے عمل سے گزر کر اردو کے مصدر بن چکے ہیں، اس لیے ان کی تمام تصریفی شکلیں ز سے لکھی جانی چاہییں، اسی طرح گزارا اور گزرانا بھی ز سے لکھنے مناسب ہیں۔ ژ |
ث، س، ص
ث، س، ص | مسالا یا مصالحہ
|
نون اور نون غُنّہ
نون اور نون غُنّہ | گنبد، انبار، کھمبا، چمپا کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے گنبد انبار جنبش دنبہ شنبہ تنبورہ سنبل عنبر اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے۔ انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:
تمباکو تمبولی کھمبا اچمبھا چمپا امبر (بمعنی آسمان)
(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ) آخر میں:
البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:
گانو، پانو، گاؤں، پاؤں یہ الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں: کینچلی جھونپڑا کنواں |
واؤ
واؤ | اوس، اودھر قدیم اردو میں اعراب بالحروف کا عام رواج تھا، خاص طور سے پیش کو ظاہر کرنے کے لیے واؤ لکھتے تھے، مثلاً:
اوس، اودھر، اوٹھانا، مونہہ |
ہائے خفی
ہائے خفی | بھروسہ، بھروسا ہائے خفی کئی مستعار الفاظ کے آخر میں آتی ہے (غنچہ، کشتہ، درجہ، پردہ، زردہ، دیوانہ، شگفتہ، جلسہ)، دیسی لفظوں کے آخر میں الف ہوتا ہے (بھروسا، گملا، اکھاڑا، اڈّا، دھبّا، انڈا)۔ ہائے خفی حرف نہیں، ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرفِ ما قبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ "اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں اور یہ دیسی الفاظ کے آخر میں نہیں آ سکتی"۔ واقعہ یہ ہے کہ چند دیسی الفاظ میں آخری مُصوّتے (حرفِ صحیح) کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے اردو املا میں سوائے خفی ہ کے کسی اور علامت سے مدد لی ہی نہیں جا سکتی۔ جیسے روپیہ، پیسہ، نہ، پہ، البتّہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کا یہ قول صحیح ہے کہ اردو والوں نے مختفی ہ کی اصلیت کو بھُلا دیا اور ٹھیٹھ اردو لفظوں میں مختفی ہ لکھنے لگے۔ چنانچہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام دیسی لفظوں کو جو دوسرے الفاظ کی نقل میں خواہ مخواہ خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے: البتہ ذیل کے الفاظ ہ سے مرجح ہیں: نقشہ خاکہ بدلہ مالیدہ امام باڑہ ہرجہ خرچہ غنڈہ غبّارہ آب خورہ یک منزلہ تولہ ماشہ زردہ سموسہ زنانہ یورپی الفاظ پٹنہ، آگرہ دانا، دانہ پردے، جلوے (مُحرّف شکلیں) موقعہ، معہ سنہ، سِن جگہ، توجّہ، بہ، تہ کہ، یہ |
ہائے مخلوط
ہائے مخلوط | کچھ، کچہہ ؛ مجھ ،مجہہ ایک زمانے میں اردو میں ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ کے لیے کسی صورت کا تعیّن نہیں تھا۔ عربی اور فارسی میں تو ہکار آوازیں ہیں ہی نہیں؛ اس لیے کسی خلطِ مبحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اردو کا معاملہ دوسرا ہے۔ ہند آریائی زبان ہونے کے ناتے بخلاف عربی اور فارسی کے اردو میں ہکار آوازوں کا پورا سیٹ موجود ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگرچہ الگ سے حروف نہیں، لیکن یہ مواقعہ ہے کہ پھ، بھ، تھ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، جھ، چھ، کھ اور گھ اردو کی بنیادی آوازیں ہیں۔ نیز رھ، لھ، مھ، نھ، وھ اور یھ میں بھی ہکاریت کا شائبہ ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگر ہائے مخلوط کو مخصوص نہ کر دیا جائے تو ایک طرح کی بے راہ روی پھیلتی ہے مثلاً ہے اور ھے، چاہیے اور چاھیے دونوں املا رائج ہیں۔ یہاں تک کہ گھر اور گہر، مجھ کو اور مجہکو، ساتھ اور ساتہہ، کچھ اور کچہہ، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھین اور بہن، دھلی اور دہلی، بھاری اور بہاری میں بھی ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ |
ہمزہ
ہمزہ | ہمزہ کا استعمال اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے: |
اعداد
اعداد |
1۔ لفظ دونوں یا دونو نون غنّہ کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کا صحیح املا نون غنہ کے ساتھ ہے، یعنی دونوں، تینوں، چاروں وغیرہ۔ 2۔ لفظ چھ کا املا کئی طرح کیا جاتا ہے، چھ، چھہ، چھے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے چھے کی سفارش کی تھی لیکن چھے رائج نہیں ہو سکا۔ چلن میں اس لفظ کا املا چھ ہے، اور اسی کو صحیح مان لینا چاہیے۔ 3۔ گیارہ سے اٹھارہ تک گنتیوں کے آخر میں ہائے خفی ہے۔ اس لیے ان کے آخر میں ہمیشہ ہ لکھنی چاہیے۔ بعض لوگ ان کا تلفظ نون غنہ سے کرتے ہیں (جیسے گیاراں) یہ لہجہ معیاری نہیں۔ صحیح املا گیارہ، بارہ، تیرہ۔۔۔ ہے۔ 4۔ جب یہ گنتیاں اعدادِ صفی میں تبدیل ہوتی ہیں تو ہائے خفی ہائے مخلوط میں بدل جاتی ہے، یعنی: گیارھواں، بارھواں، تیرھواں۔۔۔ 5۔ اسی طرح اعدادِ تاکیدی بھی ہائے مخلوط سے لکھنے چاہییں: گیارھواں، بارھواں، تیرھواں۔۔۔ 6۔ انتیس اور اکتیس ی سے صحیح ہیں۔ 7۔ اکتالیس سے اڑتالیس تک کی گنتیوں میں لام کے بعد کی ی ضرور لکھنی چاہیے: اکتالیس، بیالیس، پینتالیس۔۔۔ 8۔ ذیل کے اعداد کبھی نون غنہ کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر بولے جاتے ہیں۔ ان کو نون غنّہ کے ساتھ لکھنا صحیح ہے: تینتیس، چونتیس، پینتیس، سینتیس، پینتالیس، سینتالیس، پینسٹھ 9۔ اسی طرح 51، 81، 91 کو کبھی بہ اضافہ ی اور کبھی اس کے بغیر لکھتے ہیں۔ انھیں ی سے لکھنا ہی صحیح ہے: اکیاون، اکیاسی، اکیانوے 10۔ لفظ سیکڑا نون غنّہ کے ساتھ بھی مروّج ہے۔ لیکن اسے بیشتر نون غنّہ کے بغیر لکھتے ہیں، اور یہی مرجح ہے۔ 11۔ 85، 95، 99 میں بعض لوگ الف سے پہلے ی بولتے ہیں، لیکن ان گنتیوں کا ترجیحی املا پچّاسی، پچّانوے اور ننّانوے ہے۔ 12۔ اعداد وصفی بناتے ہوئے اگر عدد مصمتے پر ختم ہو رہا ہے تو اسے ملفوظی طور پر لکھنے میں کوئی دقّت نہیں، مثلاً چوبیسواں، اڑتیسواں، باسٹھواں، اٹھتّرواں، لیکن جو عدد مصوّتے پر ختم ہوتے ہیں، بالخصوص 97 سے 99 تک کی گنتیاں، ان کے اعداد وصفی بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر ’واں‘ یا ’ویں‘ بڑھا دیا جائے۔ گویا 97 واں یا 97 ویں، 98 واں یا 98 ویں، 99 واں یا 99 ویں۔ 13۔ سو سے آگے (یا سو کے دیگر تمام یونٹوں) کی وصفی گنتیوں کو بھی ہندسہ لکھ کر ’واں‘ یا ’ویں‘ کے اضافے سے لکھنا مناسب ہے۔ 14۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں تو ملفوظی طور پر ہی لکھنا مناسب ہیں، لیکن بڑے اعداد مثلاً 1,720,615 کو وصفی صورت میں ہندسے کے بعد واں یا ویں کے اضافے سے لکھنا ہی مناسب ہو گا (یعنی 1,720,615 واں)۔ |
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ گوپی چند نارنگ۔ املا نامہ۔ صفحہ: 20
- ↑ "املا نامہ (طبع ثانی) ۔ مرتبہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ"۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2015ء
بیرونی روابط
- سفارشات املا کمیٹی، ترقّی اردو بورڈ (ورڈ فائل)