معركہ قندابیل، وہ جنگ جو اموی ریاست کے دور میں سنہ 102 ہجری میں خلیفہ یزید بن عبد الملک کے دور میں لڑی گئی، یہ جنگ اموی سپہ سالار ہلال بن احوز تمیمی کی طرف سے مفضل بن مہلب اور ان کے بھائی یزید کے حامیوں کے خلاف تھی۔ قندابیل سندھ کے شہروں میں سے ایک شہر تھا، بقول یاقوت الحموی "قندابیل سندھ کا ایک شہر ہے اور یہ النّدهہ نامی ولایت میں ہے اور وہیں ہلال بن احوز تمیمی کی مہلب خاندان کے خلاف جنگ ہوئی" [1] اور بقول بلاذری «بنو مہلب یزید بن عبد الملک کے زمانے میں فرار ہوکر سندھ کی طرف چلے گئے تو ہلال بن احوز تمیمی نے ان کو قندابیل میں پکڑلیا، مدرک بن مہلب اور بنو مہلب کے دیگر افراد مفضل، عبد الملک، زیاد، مروان اور معاویہ کو قتل کر دیا گیا۔ معاویہ بن یزید بن مہلب بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ مارے گئے»۔ [2]

معركہ قندابيل
سندھ میں معرکے کے مقام پر ایک تاریخی عمارت۔
معلومات عامہ
تاريخ 102 هـ / 720م
جگہ قندابيل / سندھ
نتيجہ هلال بن احوز التمیمی کی فتح.
  • مدرک بن مہلب اور مفضل بن مہلب کا قتل۔
  • مھلبی بغاوت اور ان کے حامیوں کا خاتمہ۔
متحارب فریقین
  اموی ریاست حامیان مہلب
قائدین
ہلال بن احوز مفضل بن مہلب 

مدرک بن مہلب 

پس منظر

ترمیم

یزید بن مہلب بن ابی صفرہ عراق میں خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا پہلے پہل ایک عامل تھا، پھر اس نے معزول کر کے اسے خراسان کا والی مقرر کیا، جب سلیمان کا انتقال ہو گیا اور عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنے تو انھوں نے یزید کو معزول کرکے اسے ہتھکڑیاں لگانے کا حکم دیا، کمانڈر وکیع بن حسان تمیمی اسے گرفتار کرکے اپنے ساتھ شام لے آئے جہاں اسے خلیفہ کے آدمیوں کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے اسے قید کر دیا، یزید بن مہلب خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں جیل میں رہا۔ [3]

اس کے بعد یزید بن مہلب جیل کے عملے کو رشوت دیکر خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، چنانچہ وہ شام سے عراق کی طرف فرار ہوا اور یہ سنہ 101 ہجری میں خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی وفات اور یزید بن عبدالملک کے خلافت سنبھالنے کے بعد ہوا، بصرہ پہنچ کر یزید بن مہلب نے جنگ کے لیے اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو جمع کیا اور عدی بن ارطاہ الفزاری کو جو یزید بن عبد الملک کی طرف سے عراق کے امیر تھے لڑائی میں شکست دی اور گرفتار کرکے عراق پر قبضہ کر لیا۔ چنانچہ خلیفہ یزید بن عبد الملک نے اپنے بھائی مسلمہ بن عبدالملک اور بھتیجے عباس بن الولید بن عبد الملک کو ایک لشکر لے کر اس کی طرف روانہ کیا، دونوں فریقوں کے درمیان بڑی زبردست جنگ ہوئی جسے معركہ عقر کہا جاتا ہے، مسلمہ بن عبد الملک نے یزید بن مہلب کو شکست دیکر قتل کر دیا اور اس کے گروہ کو بھی منتشر کر دیا، اس کے حامی اور کچھ بھائی بھاگ کر بصرہ چلے گئے، بعد ازاں خلیفہ یزید بن عبد الملک نے اپنے بھائی مسلمہ کو عراق کا امیر بنا دیا۔ [4] [5]

معركہ آرائی

ترمیم

جب یزید بن مہلب کے بقیہ لشکر اور حامی بصرہ کی طرف بھاگے تو ان بھاگنے والوں میں اس کے بھائی مفضل بن مہلب، مدرک بن مہلب اور دیگر لوگ شامل تھے، چنانچہ پھر وہ بصرہ سے سندھ کے قندابیل شہر کی طرف فرار ہو گئے اور یہ اس وقت اموی ریاست کے سرحدی شہروں میں سے ایک تھا، مفضل بن مہلب نے قندابیل میں اپنے بھائی یزید کے بقیہ لشکر اور حامیوں سے ملاقات کی اور اپنی فوجوں کو دوبارہ منظم کیا، جب یہ خبر خلیفہ یزید بن عبد الملک تک پہنچی تو اس نے اپنے قائد عسکری ہلال بن احوز تمیمی کو مفضل اور اس کے حامیوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا، عراق کے امیر مسلمہ بن عبد الملک نے خاندان مہلب اور ان کے حامیوں کے گھروں کو جلا دیا۔ [6]

بقول مدائینی: ہلال بن احوز اور مفضل بن مہلب کا قندابیل میں سامنا ہوا، ہلال نے اپنی فوج کے میمنہ اور میسرہ دستوں کو متحرک کیا، مدرک بن مہلب نے آگے بڑھ کر مبارزت جنگ طلب کی، چنانچہ سلم بن احوز اس سے مقابلے کے لیے نکلے اور سلم نے اسے قتل کر دیا، پھر ہلال بن احوز نے مفضل اور اس کے لشکر پر حملہ کرکے ان کو شکست دے دی، مفضل اور اس کے دیگر بھائیوں کو قتل کر دیا گیا اور ان کے جتھے کو منتشر کر دیا، ہلال نے بنو مہلب کی عورتوں کی حفاظت کی اور ان پر حملہ نہیں کیا۔ [7] یونس بن حبیب نے کہا «ہلال بن احوز نے مفضل کو قتل کیا جو بنو مہلب کے بیٹوں میں سے ایک اور ان کا شہزادہ تھا، عبد الملک اور زیاد جو عمان سے تھے اور مروان جو بصرہ سے تھے، منہال بن ابی عیینہ بن مہلب، قبیصہ بن مہلب کے بیٹوں عمرو اور مغیرہ کے سروں اور کانوں پر اس نے ان کے ناموں کے پٹے ڈالے»۔ [8]

ابن مسکویہ نے کہا: مفضل بن مہلب نے اپنی ازدی قوم کے دو آدمیوں کو اپنے میمنہ اور میسرہ دستوں پر رکھا، وداع بن حمید میمنہ پر اور عبد الملک بن ہلال میسرہ پر تھے۔ جب ہلال بن احوز کے لشکر کا ان سے سامنا ہوا تو ہلال نے ان کے لیے امان کا پرچم بلند کیا، وداع بن حمید اور عبد الملک بن ہلال نے عین وقت مفضل کے ساتھ غداری کی اور امان حاصل کرنے ابن احوز سے جاملے، چنانچہ ابن احوز نے لڑائی میں بنو مہلب کے تمام آدمیوں قتل کر دیا، صرف ابی عیینہ بن مہلب اور عثمان بن المفضل بن مہلب لڑائی سے جان بچا کر بھاگ نکلے اور ترک بادشاہ خاقان کے پاس پناہ لی۔ [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. معجم البلدان، ياقوت الحموي، دار صادر - بيروت 1995، ج 4 ص 402
  2. فتوح البلدان، أحمد بن يحيى البلاذري، دار ومكتبة الهلال - بيروت 1988، ص 425
  3. وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ابن خلكان، دار صادر - بيروت 1994، ج 6 ص 300
  4. تاريخ الرسل والملوك، محمد بن جرير الطبري، دار المعارف - القاهرة 1387 هـ، ج 6 ص 590 - 592
  5. الكامل في التاريخ، ابن الأثير الجزري، دار الكتاب العربي - بيروت 1417 هـ، ج 4 ص 130 - 132
  6. تاريخ الإسلام وطبقات المشاهير والأعلام، شمس الدين الذهبي، دار الكتب العربي - بيروت 1413 هـ، ج 7 ص 9
  7. أنساب الأشراف، أحمد بن يحيى البلاذري، دار الفكر - بيروت 1417 هـ، ج 8 ص 333
  8. البلاذري، 1417 هـ، ج 8 ص 336
  9. تجارب الأمم وتعاقب الهمم، أبو علي بن مسكويه الرازي، دار شروش للطباعة والنشر - طهران 2000، ج 2 ص 491