معظم جاہی مارکیٹ (انگریزی: Moazzam Jahi Market) حیدرآباد، تلنگانہ، ہندوستان میں ایک پھل کا بازا رہے۔ جس کا نام میر عثمان علی خان کے دوسرے بیٹے معظم جاہ کے نام پر رکھا گیا۔۔[1]

Neighbourhood
Moazzam Jahi Market
Moazzam Jahi Market
ملک بھارت
ریاستتلنگانہ
ضلعحیدرآباد، دکن
میٹروحیدرآباد، دکن
حکومت
 • مجلسعظیم تر بلدیہ حیدرآباد
زبانیں
 • دفتریتیلگو زبان
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز500 001
لوک سبھا حلقہحیدرآباد، دکن
ودھان سبھا حلقہکاروان، حیدرآباد
شہری منصوبہ بندی ایجنسیعظیم تر بلدیہ حیدرآباد

نوابوں کے شہر حیدرآباد میں جو نوابی نشانیاں آج بھی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ان میں ایک ہے معظم جاہی مارکیٹ۔چند سال قبل تک ایک خستہ حال نشانی اب روشنیوں اور رونق کا مرکز ہے۔ حیدرآباد میں یہ مارکیٹ نہ صرف نواب میرعثمان علی خان کے دور کی نشانی ہے جسے 1935میں تعمیر کیا گیا تھا بلکہ اب ایک چھت کے نیچے سو دکانیں اور 30 اسٹالز کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یک جہتی کا بھی نمونہ ہے کیونکہ ایک چھت کے نیچے ہر مذہب کا ماننے والا ایک خاندان کی طرح ساتھ ساتھ کاروبار کر رہے ہیں۔

یہ عمارت تقریباً 1.77ایکڑ اراضی پر محیط ہے۔اس کے باب الداخلہ پر ایک خوبصورت کلاک ٹاور بھی ہے۔بازار کے وسط میں ایک کھلا صحن ہے جس سے اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔جسے ایم جے مارکیٹ بھی کہا جاتا ہے۔نظام ہفتم نواب میر عثمان علی خان کے دوسرے فرزند شہزادہ معظم جاہ بہادر کے نام سے اس مارکیٹ کا نام رکھا گیا تھا۔اب اس معظم جاہی مارکیٹ کی ہر شام روشنیوں اور خوشیوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔

تاریخ

ترمیم

اس کی تعمیر 1935 میں آخری نظام میر عثمان علی خان کے دور میں ہوئی تھی۔ اس کا نام ان کے دوسرے بیٹے معظم جاہ کے نام پر رکھا گیا۔ یہ عمارت گرینائٹ سے بنی ہے اور اس میں سفید گنبد ہیں جو ہائی کورٹ کی طرز پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

رونق کی واپسی

ترمیم

معظم جاہی مارکیٹ علاقہ عابڈس میں واقع ہے یہ عمارت بھی فن تعمیر کا بہترین نمونہ اور شاہکار ہے۔آصفجاہ جاہ سابع میر عثمان علی خان نے اپنے دور میں مثالی بازار کے تصور کے ساتھ معظم جاہی مارکیٹ کی تعمیر عمل میں لائی تھی تاکہ مختلف اقسام کی اشیاء ایک ہی چھت تلے صارفین کو دستیاب ہو سکے۔قلب شہر میں واقع یہ مارکیٹ آج بھی نواب میر عثمان علی حان کے تصور کے عین مطابق ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل معظم جاہی مارکیٹ کی عظمت رفتہ کی بحالی عمل میں لائی گئی ہے۔ماضی ہی کی طرح یہاں رونقیں اب دوبارہ لوٹ آئی ہیں اور یہ عمارت قابل دید اور دلکش نظارہ پیش کررہی ہے اور اپنی جانب سیاحوں کو راغب کررہی ہے۔معظم جاہی مارکیٹ کے دامن میں مختلف تہذیبی اور ثقافتی پروگرامس کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے۔رات کے اوقات میں معظم جاہی مارکیٹ کا نظارہ آنکھوں کو خیرہ کرنے والا ہے۔

وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی غفلت اور موسم کی سختی کی وجہ سے اس مارکیٹ کو نقصان کو پہنچا۔عمارت خستہ حالی کا شکار ہونے لگی۔چھت بھی کافی مخدوش ہو گئی اور پانی ٹپکنے لگا۔عمارت پر جگہ جگہ شگاف پڑ گئے۔شگافوں اوردراڑوں میں خود رو پودے اگنے لگے۔تھوڑی سی بارش کی وجہ سے یہ علاقہ جل تھل یا جھیل کا منظر پیش کرنے لگا۔اس دوران میں عوام بالخصوص تاجرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور عمارت کی عظمت رفتہ کی بحالی کے تقاضا شروع ہوئے۔

اس دوران میں وزیر بلدی نظم و نسق تلنگانہ کے تارک راما راؤ نے معظم جاہی مارکیٹ کی تزئین نو کا فیصلہ کیا۔چونکہ عمارت کافی مخدوش ہو چکی تھی اس کی مرمت اور تزئین نو کا کام آسان نہیں تھا۔چھت بوسیدہ تھی اور سلاخیں زنگ آلود ہو گئی تھیں۔تلنگانہ حکومت کے محکمہ بلدی نظم و نسق اور شہری ترقیاتی محکموں (ایم اے اینڈ یوڈی) نے منصوبہ بنایا اور15کروڑ کی لاگت سے عمارت کی تزئین نو کا کام انجام دیا گیا۔نئے سرے سے چھت کے کاموں کو معیاری انداز میں انجام دیا گیا۔پانی کی نکاسی کے لیے اسٹرام ڈرین اور سیوریج ڈرین کی تنصیب عمل میں لائی گئی۔معظم جاہی مارکیٹ کو مزید خوبصورت اور دلکش بنانے کے لیے روشنی کا نظم کیا گیا۔گنبد کا کام بھی نزاکت کے ساتھ انجام دیا گیا اور گھڑی کو درست کیا گیا۔عمارت کی تزئین نو کے لیے تقریباً دوسال کا طویل عرصہ لگا۔[2]

نواب میر عثمان علی خان نے 1912 میں سٹی ایمپرومنٹ بورڈ (سی آئی بی)کا قیام عمل میں لایا تھا جس کا مقصد شہریوں کے رہائشی حالات کو بہتر بنانے کے علاوہ شہر کو نئی شکل اور ہیئت دینا تھا۔سی آئی بی' حیدرآباد اربن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کی طرح ہی ایک شہری ترقیاتی باڈی تھی۔سی آئی بی نے معظم جاہی مارکیٹ کی تعمیر کے لیے لاکھوں روپے کی خطیر رقم صرف کی تھی۔معظم جاہی مارکیٹ کی تعمیر معیاری انداز میں تمام تقاضو ں اور احتیاط کوملحوظ رکھتے ہوئے شہر کے قلب میں عمل میں لائی گئی تھی جس کا مقصد خریداری کے لیے صارفین کو خوشگوار تجربہ کی فراہمی کے علاوہ مختلف اقسام کی اشیاء کو ایک ہی چھت تلے فراہم کرنا تھا۔معظم جاہی مارکیٹ چارمینار جانے والے سیاحوں کے لیے لازمی اسٹاپ مانا جاتا ہے ان دومقامات کے درمیان میں فاصلہ کافی کم ہے۔[3]

یکجہتی کا نمونہ ہے

ترمیم

مارکیٹ میں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء ایک ہی چھت کے نیچے آسانی سے دستیاب ہیں۔سابقہ حکومتوں کی لاپروائی کے باعث عمارت کھنڈر میں تبدیل ہو گئی تھی۔مارکٹ کی تزئین نو کے بعد صارفین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، کاروبار میں اضافہ پر تاجرین بہت خوش ہیں۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ’’ نواب میر عثمان علی خان کے دور میں شکار محبوب مشغلہ تھا جس کی وجہ سے یہاں پر بندوق اور رائفل کی دکان بھی قائم کی گئی تھی اور آج بھی یہ دکان برقرار ہے۔‘‘

معظم جاہی مارکیٹ میں حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب دیکھنے میں آتی ہے۔اس مارکیٹ میں تمام مذاہب کے ماننے والے مختلف نوعیت کے کاروبار کرتے ہیں اور ایک خاندان کی طرح مل جل کر یکجہتی کے ساتھ رہتے ہوئے اپنا کاروبار انجام دیتے ہیں۔

اس بازار میں عطریات کی کئی قدیم دکانیں موجود ہیں جہاں عمدہ قسم کے عطر شائقین کی پہلی پسند ہوتے ہیں۔

بازار کی دکانیں

ترمیم

جامباغ پھول منڈی اس بازار کا ایک حصہ تھی۔ فروٹ منڈی کو 1980 کی دہائی میں کوتھاپیٹ فروٹ منڈی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

اس بازار میں مشہور مشہور آئس کریم کی دکان بھی ہے۔ مارکیٹ کے سامنے کراچی بیکرز کے نام سے مشہور بیکری کی دکان بھی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Moazzam Jahi Market"
  2. یونس، شیخ (19 مارچ 2021)۔ "معظم جاہی مارکیٹ۔ حیدرآبادی شان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت"۔ Awaz۔ شیخ محمد یونس۔ حیدرآباد۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-24
  3. یونس، شیخ (19 مارچ 2021)۔ "معظم جاہی مارکیٹ۔ حیدرآبادی شان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت"۔ Awaz۔ شیخ محمد یونس