ملیلا جیو
ملیلا جیو (گجراتی: મળેલા જીવ) (اردو: متحدہ ارواح) ایک گجراتی زبان کی رومانی ناول ہے جسے پنالال پٹیل نے لکھا ہے۔[1] یہ کنجی اور جیوی کے رومانی المیے کا بیان ہے جو دو مخلف ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی مشکلات کا احاطہ کرتا ہے۔[2]
فائل:Malela Jiv Cover page.jpeg سرورق | |
مصنف | پنا لال پٹیل |
---|---|
اصل عنوان | મળેલા જીવ |
مترجم | راجیش آئی پٹیل |
ملک | بھارت |
زبان | گجراتی |
موضوع | عشقیہ المیہ |
صنف | ناول |
محل وقوع | احمد آباد، گجرات |
ناشر | سنجیونی |
تاریخ اشاعت | 1941ء (2014ء میں بیسواں ایڈیشن شائع ہوا) |
تاریخ اشاعت انگریری | 2014ء |
طرز طباعت | مطبوعہ (پیپر بیک اور ہارڈکور) |
صفحات | 272 (گجراتی ایڈیش 2014ء) |
ماخذ
ترمیمگجراتی مصنف و مدیر جھاویرچند میگھانی نے پنالال پٹیل سے گجراتی روزنامہ پھول چھاب کے لیے ایک کہانی لکھنے کی گزارش کی۔ پٹیل نے ملیلا جیو 24 دنوں میں لکھا اور یہ ہر روز سلسلہ وار چھپتا گیا۔ بعد میں اسے 1941 میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔[3]
کردار
ترمیمکہانی
ترمیمکَنجی اور جیوی جوگی پاڑا اور اُدھاریہ کے دیہات میں رہتے ہیں اور دونوں کا تعلق دو الگ ذاتوں سے ہے۔ یہ دونوں جنم اشٹمی کے میلے میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ وہ شادی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ دونوں کی ذاتیں الگ تھیں اور کنجی پر بڑے بھائی کی شادی کی سماجی ذمے داری تھی۔ مگر وہ جیوی کے بغیر زندہ رہنا مشکل پا رہا تھا۔ اس کا دوست ہیرو مشورہ دیتا ہے کہ جیوی دھُولا سے شادی کرلے جو ان کے گاؤں کا حجام تھا۔ ایک نفسیاتی جدوجہد کے بعد کنجی ہیرو اتفاق کر کے جیوی کی شادی دھولا سے کرنے کے لیے راضی ہوجاتا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ متوقع نتیجہ نہیں دکھاتا ہے۔ دھولا کی شکی فطرت، اس کا ظلم، جیوی کے لیے خراب رویہ اور اس کی سازشیں اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ کنجی گاؤں سے شہر کا رخ کرتا ہے تاکہ وہ جیوی سے دور رہ سکے۔ دوسری جانب روزانہ کے جھگڑے اور مارپیٹ سے تنگ آکر جیوی خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم غلطی سے دھولا اپنی زندگی کھو دیتا ہے اور جیوی دماغی طور پر معذور ہو جاتی ہے اور کنجی کا ساتھ طلب کرتی ہے۔ بالآخر کنجی کی دنیوی محبت روحانی عشق میں تبدیل ہوتی ہے اور وہ شہر سے آکر پاگل جیوی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔[2][4]
تاثرات
ترمیماس کتاب کو قارئیں اور نقادوں نے سراہا ہے۔ میگھانی نے لکھا ہے، "یہ نہ صرف کنجی اور جیوی ہے بلکہ ہم سبھی کی کہانی ہے۔ یہ ہورے سماج کی حساس کہانی ہے۔ یہی اس ناول کا اسلوبیاتی حسن ہے۔"[5] چندراکانت ٹوپی والا نے لکھا ہے، "یہ مصنف کی مقامی دنیا ہے جو مکمل دنیا ہم معنی ہے جب کہانی کے عناصر اور نفسیاتی تجزیہ گردش کی سطح پر بہنچتے ہیں۔" سندرم نے کہا، "یہ کہانی اپنی موجودہ شکل کسی تھی بھارتی ادب میں گجراتی ادب کی نمائندہ کا کردار نبھا سکتی ہے اور کچھ تحفظات کے ساتھ عالمی ادب کا بھی۔"[6]
ملیلا جیونی سمیکشا اسی کا تنقیدی مطالعہ ہے جسے لابھ شنکر ٹھکر، چینو مودی اور منہر مودی نے لکھا ہے۔[7]
اس کتاب کو کئی بار شائع کیا جاتا رہا ہے؛ 1944، 1947، 1950، 1956، 1960، 1962، 1967، 1969، 1973، 1977، 1984، 1986، 1991، 1993، 1998، 1999، 2003، 2005، 2008، 2009، 2011، 2012، 2014 اور 2016۔[3]
تراجم اور عوامی ذرائع ابلاغ
ترمیماس ناول کا کئی بھارتی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔[8] ان میں ہندی، پنجابی اور کنڑا شامل ہیں۔ اس کا تیلوگو ترجمہ ویموری آنجانییا سرما نے کیا اور اس عنوان کالاسینا جیویتالو رکھا۔ راجیش آئی پٹیل نے انگریزی میں ترجمہ دی یونائیٹیڈ سولز کے طور پر 2011 میں کیا۔[2][9]
اس ناول کو فلموں اور ناٹکوں کو شکل میں کئی بار پیش کیا گیا۔ این آر آچاریہ کی زیر ہدایت الجھن اس کی پہلی گجراتی فلمی پیش کش تھی۔[6] ملیلا جیو (1956) ایک گجراتی فلم ہے جس کی ہدایت منہر رسکاہور نے کی۔ اس کا اسکرپٹ خود ناول نگار نے لکھا تھا۔[10]
جانوماڑا جوڑی جو 1996 کی کنڑا فلم ہے، ملیلا جیو پر بنائی گئی ہے۔[11] اسی کو ایک گجراتی ناٹک کا روپ دیا گیا جس کی ہدایت نیمیش دیسائی نے کی۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ The Indian Encyclopaedia: Gautami Ganga -Himmat Bahadur۔ 9۔ New Delhi: Cosmo Publications۔ 2002۔ صفحہ: 2718۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2016
- ^ ا ب پ Rajesh I. Patel (12 مئی 2011)۔ "Chapter 2"۔ Translation of Pannalal Patel's "Malela Jeev" from Gujarati into English with critical introduction (مقالہ)۔ Rajkot: Department of English & Comparative Literary Studies, Saurashtra University۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2016
- ^ ا ب Pannalal Patel (2016)۔ Malela Jeev۔ Ahmedabad: Sanjeevani Publication
- ^ ا ب "Malela Jeev Gujarati Natak"۔ GujjuBhai۔ 2012-09-10۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2016
- ↑ God Save The Dork by Sidin Vadukut۔ "Kanji and Jivi - A Tragic Love Story"۔ The India Club, Inc.۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2016
- ^ ا ب Sanjay Dodia (August–September 2012)۔ "'મળેલા જીવ' નવલકથામાં ગ્રામચેતના"۔ Journal of Humanity (بزبان گجراتی)۔ Knowledge Consortium of Gujarat, Department of Higher Education, Government of Gujarat۔ 1 (3)۔ ISSN 2279-0233۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2016
- ↑ Prasad Brahmabhatt (2010)۔ અર્વાચીન ગુજરાતી સાહિત્યનો ઈતિહાસ - આધુનિક અને અનુઆધુનિક યુગ (History of Modern Gujarati Literature – Modern and Postmodern Era) (بزبان گجراتی)۔ Ahmedabad: Parshwa Publication۔ صفحہ: 43–53
- ↑ Traveller's literary companion to the Indian sub-continent۔ Print Publ. Ltd۔ 1996۔ صفحہ: 209۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017
- ↑ Indian and Foreign Review۔ Publications Division of the Ministry of Information and Broadcasting, Government of India۔ 1985۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017
- ↑ Ashish Rajadhyaksha، Paul Willemen (10 July 2014)۔ Encyclopedia of Indian Cinema۔ Routledge۔ صفحہ: 347۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017
- ↑ "Biopic on former Karnataka CM Devaraj Urs soon"۔ Deccan Herald۔ 2016-12-07۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2016