ہند-یونانی سلطنت، جسے یاوݨ سلطنت بھی کہا جاتا ہے (لفظ "یونا" کی وجہ سے اس کو "یاوݨ راج[4] کہا جاتا ہے، جو آئونیئن سے آیا ہے)[5] ایک ہیلینی دور کی یونانی سلطنت تھی جو جدید دور کے افغانستان، پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان کے مختلف حصوں پر محیط تھی۔ یہ تقریبا 200 قبل مسیح سے 10 عیسوی تک موجود تھا۔

ہند یونانی سلطنت
200 BC–AD 10
150 قبل مسیح میں ہند یونانی سلطنت کی سرحدیں.[1]
150 قبل مسیح میں ہند یونانی سلطنت کی سرحدیں.[1]
دار الحکومتاسکندریہ کوہ قاف (موجودہ بگرام) [2]
عمومی زبانیںیونانی (یونانی حروف تہجی)
پالی (خروشتی رسم الخط)
سنسکرت
پراکرت
(براہمی رسم الخط)
مذہب
بدھ مت
ہندو مت
ہیلین مت
زرتشت
حکومتبادشاہت
بیسیلیئس 
• 200 – 180 BC
دیمیڑیس اول (پہلا)
• 25 BC – 10 AD
ستراتو سوم (آخری)
تاریخی دورقدیم
• 
200 BC
• 
AD 10
رقبہ
150 قبل مسیح[3]1,100,000 کلومیٹر2 (420,000 مربع میل)
ماقبل
مابعد
یونانی باختری سلطنت
موریا سلطنت
ہند سیتھیائی
ہند اشکانیان
موجودہ حصہافغانستان
پاکستان
انڈیا

"ہند-یونانی سلطنت" کی اصطلاح مختلف ہیلینیائی ریاستوں کی وضاحت کرتی ہے، جن کے دارالحکومت ٹیکسلا، ساگل، پشکلاوتی اور اسکندریہ کوہ قاف (موجودہ بگرام) جیسے علاقے تھے۔[6] دوسرے مراکز کی طرف صرف اشارہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر بطلیموس کی کی کتاب "جغرافیہ" اور بعد کے بادشاہوں کے ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ ہند-یونانی اثر و رسوخ کے جنوب میں ایک خاص تھیوفِلس کی بھی ایک زمانے میں شاہی نشست تھی۔

پس منظر

ترمیم

سکندر کے زمانے سے باختر یونانیوں کی نوآبادی تھی۔ سلوکس نے چندر گپت موریا سے شکست کھانے کے بعد جو شرمناک معاہدہ کیا تھا اس میں سندھ پار کے علاقے سیستان، شمالی افغانستان اور بلوچستان پر چندگپت کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا۔ بلخ کے یونانیوں کو خدشہ تھا کہ چندر گپت بلخ فتح کرنے کے لیے پیش قدمی کرے گا اس لیے باختریہ کے یونانیوں نے سلوکیوں کے خلاف بغاوت کردی۔

ابتدئی تاریخ

ترمیم

باختریہ جس کا دار الحکومت بلخ تھا اور وہاں کی بغاوت کی قیادت ڈیوڈوٹس جو یونانی نژاد تھا کر رہا تھا۔ اس نے سغدیہ اور مرو کو متحد کر لیاِ اور سلوکیوں کا جوا اتار پھینکا۔ ادھر پارتھیا نے بھی بغاوت کردی، اس کی قیادت ایک مقامی سردار ارشک کر رہا تھا۔ اس بغاوت کو سرد کرنے کے لیے انٹی گوس دوم نے اپنے بھائی سلوکس سوم کے ساتھ مل کر 237 ق م میں پارتھیا پر چڑھائی کی اور بلخ کے حکمران ڈیوڈوٹس سے معاہدہ کرکے اسے بھی پارتھیا پر حملہ کرنے کے لیے راضی کر لیا۔ لیکن ڈیوڈوٹس فوت ہو گیا، ارشک نے موقع کو غنیمت جان کر اس کے بیٹے ڈیوڈوٹس دوم سے اتحاد کر لیا اور اس کو سلوکیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ کر لیا جس کی وجہ سے سلوکس کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔

عروج

ترمیم

ڈیوڈوٹس کو ایک اور یونانی سردار یوتھی ڈیمس Ueothidemes نے شکست دی۔ اسے بھی نئے حکمران انطیوکس اعظم (223 تا 187 ق م) سے لڑنا پڑا۔ جس نے ایک طویل مقابلے کے بعد باختریہ کی خود مختاری تسلیم کرلی۔ انطیوکس یوتھی ڈیمس کے بیٹے ڈیمتریوس Demetrues سے جو باپ کی طرف سے صلح کی گفت و شنید کر رہا تھا اس قدر متاثر ہوا کے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی۔ یوتھی دیمس ایک طول عرصہ حکومت کے بعد 190 ق م میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا ڈیمتریوس اس کا جانشین ہوا جس کی شہرت پہلے ہی دور تک پھیل چکی تھی۔ اس نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کے لیے وادی کابل پر حملہ کر کے پنجاب وسندھ کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اسے اپنے ہندی مقبوضات کی بڑی قیمت دینی پڑی۔ کیوں کہ اس کی عدم موجودگی ایک اور یونانی سردار یوکراٹائی یز Eucratsevess نے اس کے پایہ تخت بلخ پر قبضہ کر لیا۔ ڈیمتریوس نے اپنے ہندی مقبوضات اپنے قبضہ میں رکھے اور سنگالہ Singala (سیالکوٹ) کو اپنا دار الحکومت بنالیا اور اس کے بعد وہ ہندیوں کا بادشاہ کہلانے لگا۔ ڈیمتریوس کو بعد میں یوکراٹائی یز سے مقابلہ کرنا پڑا کیوں کے اس نے اپنی سلطنت کی حدودیں پنجاب تک بڑھا لیں۔ اس لڑائی میں ڈیمتریوس مارا گیا مگر یوکراٹائی یز کی کامیابی بھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی اور وہ جب واپس جا رہا تھا کہ راستہ میں اس کے بیٹے ہیلو کلیز Heloclies نے اسے قتل کر دیا اور بعد میں اس پدر کش حکمراں کے دور میں باختر پر ساکاؤں نے قبضہ کر لیا اور یونانیوں نے بھاگ کر ہندی علاقوں میں پناہ لی۔ اس طرح پنجاب اور کا بل میں ڈیمتریوس اور یوکراٹائی یزکے خاندان کی حکومتیں علیٰ ترتیب قائم ہوئیں۔ سکوں پر ہمیں ڈیمتریوس خاندان کے کئی حکمرانوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں ایک انتالکیداس ہے جس کا ذکر ہمیں بیس نگر کے کتبہ میں ملتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے سفیر جو سنگ حکمران بھگا بھدرا کے دربار میں بھیجا گیا تھا وہاں اس نے ایک ستون پر بنوایا تھا۔ اس کتبے سے ظاہر ہے کہ یاونا (یونانی) حکمرانوں نے برصغیر کی ریاستوں سے سیاسی رشتہ جوڑ لیے، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں نے بعد میں مقامی مذاہب بھی ختیار کرلیے تھے۔ کیوں کہ سفیر مذکورہ کا نام بہگوت کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس یونانی خاندان جس نے برصغیر کے سرحدی علاقوں پر حکومت کی ان میں ہرمیوسس Hermioses آخری تھا۔ یوتھی دیمس کے خاندان میں اپالو دوٹس Apalodotes اور منیانڈر Menander کے نام ادب میں اب تک موجود ہیں۔ غالباََ اپالو دوٹس کے عہد میں اس خاندان کا اقتدار مشرقی افغانستان سے ختم ہوا۔ منیانڈر کا نام نسبتاََ زیادہ مشہور ہے، کیوں کہ بدھ مت کی کتاب ’ملندا ہنہا‘ (ملندا کے سوالات) میں ملندا درحقیقت منیانڈرا کا نام ہے۔ یہ کتاب بزرگ سین اور منیانڈر Menander کے سوالات اور جوابات کی شکل میں ہے، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ منیانڈر نے بدھ مذہب قبول کر لیا۔ منیانڈر کا دور طویل اور خوش حال تھا۔ جس حکمران نے مگدھ پر حملہ کیا وہ غالباََ منیانڈر ہی تھا۔

زوال

ترمیم

اس کے جانشین ناہل ثابت ہوئے پھر بھی ان ہندی یونانی بادشاہوں کی حکومت دو سو سال تک ہندوستان کے شمالی حصہ جس میں غالباً وادی کابل و سوات اور پشاور اور شمال مغرب کے قرب و جوار کے چند اضلاع اور مشرقی پنجاب شامل تھا ان کے زیر حکومت رہے خواہ وہ پارتھیوں کے زیر طاقت رہے اور ساکاؤں نے پہلی صدی میں ان کی حکومت ختم کردی۔

یونانی اثر

ترمیم

یونانیوں نے ہندوستان کی تہذیب پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ پنجاب پر یونانیوں کا دوسو سال تک قبضہ رہا۔ یہی وجہ ہے یہاں ان ہی علاقوں میں ہم کو یونانی اثر زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن تعجب تو یہ ہے یہاں بھی یونانی آثار بہت ہی کم اور نامعلوم ہیں۔ سکوں کے سوا جن کے ایک طرف یونانی زبان میں عبارت ہوتی تھی اور صریحاً یونانی نمونے پر تیار ہوتے تھے اور کوئی چیز نہیں پائی جس سے کہ بیرونی سالہائے دراز کی حکمرانی کے اثر کا پتہ لگتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سکوں سے یہ امر بالکل صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک حد تک ان اجنبی بادشاہوں کے درباروں میں یونانی زبان مستعمل تھی۔ مگر بعد کے سکوں پر دیسی زبان لکھے جانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام و الناس اس سے بالکل نابلد تھے۔ یونانی زبان کا کوئی کتبہ دستیاب نہیں ہوا اور ہندی کتبات میں اب تک صرف تین یونانی نام پائے گئے۔

حکمرانوں کی فہرست

ترمیم
پاروپامیز رخج گندھارا قدیم مغربی پنجاب قدیم مشرقی پنجاب
دیمتریوس اعظم
200–190 قبل از مسیح
آگاتھوکلیز
190–180 قبل از مسیح
پانطالیون
190–180 قبل از مسیح
آنٹیماکھا یکم
185–170 قبل از مسیح
دیمتریوس دوم
175–170 قبل از مسیح
آپالوڈوٹس یکم
180–160 قبل از مسیح
آنٹیماکھا دوم
160–155 قبل از مسیح
اوکراتید میغاس
170–145 قبل از مسیح
ملند اعظم
155–130 قبل از مسیح
زولیوس دیکایوس
130–120 قبل از مسیح
آگاتھوکلیا بیگم
130–120 قبل از مسیح
لائیسیاس انکتوس
120–110 قبل از مسیح
استراتو یکم
120–110 قبل از مسیح
آنطی الکیداس نقفور
110–100 قبل از مسیح
ہلی‌اکل دوم
110–100 قبل از مسیح
پالیکسینوس اپیفانیس سوتر
100 قبل از مسیح
دیمتریوس تریہم
100 قبل از مسیح
فیلاکسینوس انکتوس
100–95 قبل از مسیح
دیومیدیس سوتر
95–90 قبل از مسیح
امینتاس نیکاتر
95–90 قبل از مسیح
اپاندر
95–90 قبل از مسیح
ثیوفیلوس
90 قبل از مسیح
پیوکولاعوس سوتر دیکایوس
90 قبل از مسیح
تھراسو باسیلیوس میغاس
90 قبل از مسیح
نیسیوس
90–85 قبل از مسیح
ملند دوم
90–85 قبل از مسیح
آرتیمیدوروس انکتوس
90–85 قبل از مسیح
حرمیاس سوتر
90–70 قبل از مسیح
آرچیبیاس دیکایوس نقفور
90–70 قبل از مسیح
ٹیلیفوس ایورگیٹیز
75–70 قبل از مسیح
آپالوڈوٹس دوم
75–70 قبل از مسیح
ہپوستراطوس
65–55 قبل از مسیح
دیونیسیوس سوتر
65–55 قبل از مسیح
زولیوس سوتر
55–35 قبل از مسیح
اپالوفینس سوتر
55–35 قبل از مسیح
استراتو دوم اور استراتو تریہم
25 قبل از مسیح –10ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. Joseph E. Schwartzberg (1978)۔ A Historical atlas of South Asia۔ University of Chicl.uchicago.edu/reference/schwartzberg/pager.html?object=182 
  2. name=Indo-Greek: 30em">Tarn, William Woodthorpe (1966), "Alexandria of the Caucasus and Kapisa", The Greeks in Bactria and India, Cambridge University Press, pp. 460–462, doi:10.1017/CBO9780511707353.019, ISBN 978051170735
  3. Rein Taagepera (1979)۔ "Size and Duration of Empires: Growth-Decline Curves, 600 B.C. to 600 A.D."۔ Social Science History۔ 3 (3/4): 132۔ JSTOR 1170959۔ doi:10.2307/1170959 
  4. ماؤنٹ اسٹوآرٹ ایلفنسٹن (1866)۔ تاریخ ہندوستان۔ علی گڑھ: دی سائنٹیفک سوسائٹی۔ صفحہ: 249 
  5. ڈاکٹر اسلم قریشی (1987)۔ برصغیر کا ڈرامہ: تاریخ، افکار اور انتقاد۔ لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی۔ صفحہ: 91۔ قدیم فارسی میں یونانیوں کو "ایونا" کے لفظ سے موسوم کیا جاتا تھا۔ چنانچہ دارایوش اول کے قدیم فارسی کتبوں میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ پانچویں صدی قبل از مسیح میں پانینی کی گریمر میں یونانیوں کے لیے "یاونا" کی اصطلاح ملتی ہے جو فارسی لفظ "ایونا" سے ماخود معلوم ہوتی ہے۔ اس کی پراکرت شکل "یونا" تھی جو اشوک لے کتاب میں مختلف ممالک کے یونانی حکمرانوں کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ 
  6. ڈاکٹر اسلم قریشی (1987)۔ برصغیر کا ڈرامہ: تاریخ، افکار اور انتقاد۔ لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی۔ صفحہ: 93 
  • ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
  • پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول
  • وسینٹ اے سمتھ۔ قدیم تاریخ ہند