موہنی بھسماسور ایک 1913ء کی ہندوستانی اساطیری فلم ہے جس کی ہدایت دھوندی راج گووند پھالکے نے کی ہے اور اس میں کملا بائی گوکھلے اور درگابائی کامت نے اداکاری کی ہے۔ یہ ہندوستان اور پھالکے کی دوسری فل لنتھ فیچر فلم ہے۔ موہنی بھسماسور پہلی بھارتی فلم ہے جس میں ایک خاتون اداکارہ بھی ہے۔ اس سے قبل راجہ ہریش چندر، ہندوستان اور پھالکے کی پہلی فلم میں، خاتون کا کردار ایک مرد انا سالونکے نے ادا کیا تھا۔ [1][2]

موہنی بھسماسور
(ہندی میں: Mohini Bhasmasur ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہدایت کار دادا صاحب پھالکے
اداکار کملابائی گوکھلے
درگابائی کامات   ویکی ڈیٹا پر (P161) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فلم ساز دادا صاحب پھالکے   ویکی ڈیٹا پر (P162) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صنف خاموش فلم   ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فلم نویس دادا صاحب پھالکے
زبان خاموش فلم
مراٹھی زبان intertitles
ملک برطانوی ہند
تقسیم کنندہ دادا صاحب پھالکے
تاریخ نمائش نومبر 1913  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات۔۔۔
tt0253250  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کہانی

ترمیم

فلم کی کہانی ہندو اساطیری کہانی موہنی اور بھسماسور (ا)( "راکھ کا آفریت")، ایک اسورا پر مبنی ہے۔ دیوتا شیوا بھسماسور کو طاقت دیتا ہے کہ وہ کسی کے سر کو چھونے سے اسے راکھ کر دے۔ شیطان خود شیوا پر طاقت آزمانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ شیوا گھبرا کر بھاگتا ہے۔ دیوتا وشنو، واقعات کے بدقسمت موڑ کا سامنا کرنے والا، موہنی میں بدل جاتا ہے اور بھسماسور پر جادو کرتا ہے۔ بھسماسور اس سے شادی کرنے کو کہتا ہے۔ موہنی اس سے اتفاق کرتی ہے، لیکن صرف اس شرط پر کہ بھسماسورا رقص میں حرکت کے لیے اس کے قدموں کی پیروی کرے۔ رقص کے دوران میں، وہ اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتی ہے۔ بھسماسور عمل کی نقل کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں، وہ خود کو راکھ کر دیتا ہے۔

فلم کی لمبائی 32,554 فٹ (9,922 میٹر) تھی۔ [3]

کردار

ترمیم
 
کملا بائی گوکھلے جنھوں نے فلم موہنی بھسماسور میں موہنی کا مرکزی کردار ادا کیا۔

موہنی بھسماسور پہلی ہندوستانی فلم تھی جس نے عورت کے لیے کردار میں خاتون ہی کو کاسٹ کیا۔ کملا بائی گوکھلے (1900–1992)، جو بعد میں کملا کامت کہلاتی تھیں، جو مراٹھی اسٹیج اداکارہ تھیں، کو ہیروئن موہنی کے طور پر کاسٹ کیا گیا اور درگا بائی کامت نے ان کی والدہ پاروتی کا کردار ادا کیا۔ اس وقت کملا کی عمر صرف 13 سال تھی۔ [2][4][5] تاہم، ایک ایسے دور میں جہاں پرفارمنگ آرٹس میں خواتین کا موازنہ طوائفوں سے کیا جاتا تھا، [6] یہ بہت بڑی بات تھی۔ لیکن اس سے کوئی رجحان قائم نہیں ہوا اور مرد اداکار ہی برسوں تک سنیما میں خواتین کے کردار ادا کرتے رہے۔

پیشکش

ترمیم

موہنی بھسماسور خاموش فلمی دور کے بلیک اینڈ وائٹ میں ہندو اساطیری تھیم پر دوسری فیچر فلم تھی جس کی ہدایت کارو پیشکش دھوندی راج گووند پھالکے (1870–1944) نے کی، پھالکے دادا صاحب پھالکے کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ایک ہندوستانی پروڈیوسر، ہدایت کاار، اسکرین رائٹر، کاسٹیوم ڈیزائنر، ایڈیٹر، پروسیسر، پرنٹر، ڈویلپر، پروجیکشنسٹ اور ڈسٹریبیوٹر تھے، جنہیں ہندوستانی سنیما کا باپ کہا جاتا ہے اور ان کی پہلی فلم راجا ہریش چندر تھی، جو 3 مئی 1913ء کو ریلیز ہوئی۔ [7] اس کے فورا بعد، موہنی بھسماسور کو یکم نومبر 1913ء میں دکھایا گیا۔ [8] ایک منٹ کی مختصر کامیڈی فلم پٹھے پنجے (آٹا کے پنجے) فلم کے ساتھ "سائیڈ اٹریکشن" کے طور پر جاری کی گئی۔ [9]

پھالکے کی پہلی تین فلمیں آٹھ مہینوں میں بغیر کسی فلم اسٹوڈیو کے، ہاتھوں سے چلنے والی مشینوں اور عملے کے ذریعے بنائی گئیں جنہیں فلم کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں تھا۔ [10] تینوں فلمیں انتہائی کامیاب رہیں اور پھالکے اپنے قرضوں کو ادا کرنے میں کامیاب رہے، جو انھوں نے فلمیں بنانے کے لیے حاصل کیے تھے۔ [11] 1914ء میں لندن میں پھالکے نے ان فلموں کی نمائش کی تھی۔ [1]

پہلا رقص نمبر

ترمیم

کملا جو ایک منچ اداکارہ تھیں نے ہندوستانی سنیما میں ایک ہیروئن کے کردار میں پہلا رقص نمبر پیش کیا۔ رقص کے آئٹم میں، اس نے موہنی کا کردار ادا کیا جس نے بھسماسور، شیطان یا اسورا کو اپنے دل موہ لینے والے رقص سے اس کی موت لانے پر اسر آمادہ کیا۔ پھالکے رقص آئٹم کے کوریوگرافر تھے اور وہ ہندو مندر کے مجسموں، اجنتا غاروں میں بودھ دیواروں، دیوداسی (مندر کی رقاصہ) کی روایت اور تماشا لوک فارم سے رقص (دیکھیں لاوانی ) سے متاثر ہوئے تھے۔ [12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Ganti، Tejaswini (2004)۔ Bollywood: A Guidebook To Popular Hindi Cinema۔ Routledge۔ ص 206۔ ISBN:978-0-415-28853-8۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-01
  2. ^ ا ب Dwyer، Rachel (30 اگست 2006)۔ Filming the Gods: Religion and Indian Cinema۔ Routledge۔ ص 23۔ ISBN:978-0-203-08865-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-01
  3. Bāpū Vāṭave؛ National Book Trust (2004)۔ Dadasaheb Phalke, the father of Indian cinema۔ National Book Trust۔ ISBN:978-81-237-4319-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  4. "Mohini Bhasmasur(1913)"۔ Internet Movie data Base, Imdb.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-02
  5. S. B. Bhattacherje (1 مئی 2009)۔ Encyclopaedia of Indian Events and Dates: 6th Revised Edition۔ Sterling Publishers Pvt. Ltd۔ ص A 168 and A 179۔ ISBN:978-81-207-4074-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  6. Yves Thoraval (1 فروری 2000)۔ The cinemas of India۔ Macmillan India۔ ص 7, 347۔ ISBN:978-0-333-93410-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-04
  7. Gulazāra؛ Govind Nihalani؛ Saibal Chatterjee (2003)۔ Encyclopaedia Of Hindi Cinema۔ Popular Prakashan۔ ص 626–۔ ISBN:978-81-7991-066-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  8. Paraśurāma Kharela (2002)۔ Sight, Sound & Pulse۔ Nepal Press Institute with the support of DANIDA۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  9. Sanjit Narwekar (2005)۔ Eena meena deeka: the story of Hindi film comedy۔ Rupa & Co.۔ ISBN:9788129108593۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  10. Sumita S. Chakravarty (1993)۔ National Identity in Indian Popular Cinema: 1947–1987۔ University of Texas Press۔ ص 37۔ ISBN:978-0-292-78985-2۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  11. Vinayak Purohit (1988)۔ Arts of Transitional India, Twentieth Century۔ Popular Prakashan۔ ص 948۔ ISBN:978-0-86132-138-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-03
  12. K. Moti Gokulsing؛ Wimal Dissayanake (2004)۔ Indian popular cinema: a narrative of cultural change۔ Trentham Books۔ ص 105–۔ ISBN:978-1-85856-329-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-01

بیرونی روابط

ترمیم