مکلی
مکلی ضلع ٹھٹہ کا ایک قصبہ جس کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 47,239 تھی، مکلی کی وجہ شہرت مکلی قبرستان ہے، ٹھٹہ سے مغرب کی طرف 3 کلومیٹر کی دوری پر مکلی کا قدیمی شہر آباد ہے، سطح سمندر سے یہ تاریخی شہر 9 میٹر (30 فٹ) بلند ہے۔[حوالہ درکار]
قصبہ اور یونین کونسل | |
مکلی | |
متناسقات: 24°45′36″N 67°54′07″E / 24.760°N 67.902°E | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | سندھ |
ضلع | ضلع ٹھٹہ |
تعلقہ | تعلقہ ٹھٹہ[1] |
میر علی شیر قانع نے اِس مکلی کو جس کیفیت میں دیکھا تھا اُس پر ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب تقریباً 1761ء میں تحریر کی گئی تھی، جس پر بعد میں حسام الدین راشدی نے تحقیقی کام کیا اور 900 صفحات پر مشتمل ’مکلی نامہ‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی۔
تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مَکلی میں پانی کے تالاب اور بہت سارے میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ پانی کی وجہ سے تپتے دنوں میں بھی وہاں ہریالی رہتی اور یہ میٹھے چَشمے پیاسے لوگوں، چَرِند و پَرند کی پیاس بُجھاتے اور ساتھ میں پانی کے کئی تالاب بھی تھے، درخت تھے اور کُچھ دکانیں بھی تھیں جن میں درگاہوں کے میلوں کی مناسبت سے چیزیں فروخت ہوتیں۔
1880ء کو رچرڈ ایف۔ برٹن جب حیدرآباد جا رہے تھے تب انھوں نے مکلی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ یہاں تک کہ مکلی کے اطراف جنگلی حیات کی کیا کیفیت تھی اُس کے متعلق بھی وہ مشاہداتی نوٹ تحریر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ،
” | ’مکلی کے اطراف پھیلے ہوئے جنگل سے گزرتے ہوئے ہمیں ’کالے تیتر‘ کی آواز سُننے میں آئی جو شاید پہاڑی کے درمیان موجود میدانی علاقے سے آرہی تھی۔ ’ہُدہُد‘ بھی ہمارے آگے بغیر کسی خوف کے گزر رہا تھا، ’چنڈول‘ بھی ہم سے نہیں ڈر رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہتا اور جب ہم نزدیک پہنچتے تو اُڑ کر پھر کُچھ فاصلے پر جا کر سامنے بیٹھ جاتا، ہمیں چلتا دیکھ کر کچھ کوے ہمارا جائزہ لے کر ’کائیں کائیں‘ کر رہے تھے، کچھ تیتر ہمارے دونوں اطرف چلتے تھے۔ ’خرگوش‘ جیسا ڈرپوک جانور بھی ہمیں دیکھ کر نہیں بھاگ رہا تھا، یہ خرگوش اچھے خاصے صحت مند تھے اور جنگلی بلے سے بھی بڑے تھے۔ کچھ گیدڑ شاید ساری رات اِن کا پیچھا کررہے تھے کہ اُن کا شکار کرسکیں مگر ہمیں دیکھ کر وہ وہیں پر کھڑے ہوگئے اور چالاک نظروں سے ہمیں دیکھتے رہے۔ مکلی کا دُور سے نظارہ آدمی کو بے حد راحت اور خوشی بخشتا ہے، آپ کسی اونچی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھیں تو، نَنگر (ٹھٹہ) کا شہر یہاں سے سیدھا مشرق میں بسا نظر آتا ہے۔ مکلی کے مقبروں کی تعمیرات پر کی گئی نقش و نگاری کو جتنا قریب سے جاکر دیکھیں گے اُتنا ہی زیادہ لطیف احساس ملتا ہے۔ یہاں ہر قسم کی نقش نگاری میں انتہائی نزاکت اور نفاست نظر آتی ہے جو سارے مقبرے پر اُبھری ہوتی ہے۔ یہاں کے ہر پتھر پر، چھینی سے تراشیدہ (Carved relief) دکھائی دیتا ہے۔ دیکھنے والے کی آنکھ کو یقین ہی نہیں آتا کہ اِس ساری نقش و نگاری نے ان بے جان پتھروں میں جان ڈال دی ہے۔‘[2] | “ |
مکلی میں پولیس اسٹیشن ، سول ہسپتال ، ڈاکخانہ بھی موجود ہے، یہاں آباد ذاتوں میں خشک ، سومرو، وغیرہ ہیں،
وجہ تسمیہ
ترمیم"مکلی نامہ" کے مصنف میر علی شیر قانع ٹھٹوی کا کہنا ہے کہ کوئی خدا رسیدہ آدمی سفر حج کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس کوہ کی ایک پہاڑی پر قیام پزیر ہوئے۔ غالباً رات کو خواب میں مکہ کا نقشہ دیکھا۔ علی الصباح خواب سے بیدار ہوئے تو زبان مبارک پر ’’هذا مكة لي‘‘ [یہ میرے لیے مکہ (جیسا) ہے] کا ورد تھا اور اس کلمہ نے شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کر لی۔ مكة لي میں اولاً ’ة‘ کی تخفیف ہوئی تو مکلی اور پھر گزرے زمانہ کے ساتھ مکلی کے نام سے مشہور کر دیا۔
اس سلسلے میں ایک اور روایت بیان کی خاتی ہے کہ ایک پرہیزگار اور عبادت گزار بزرگ خاتون اس علاقہ میں رہائش پزیر تھیں جن کی بڑی شہرت تھی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو اس پہاڑی پر ان کی تدفین کی گئی۔ اس سے متصل شیخ حماد جمالی نے ایک جامع مسجد کی بنیاد رکھی اور اس ٹیلے کا نام انہی زاہدہ خاتون کے نام پر ’’مکہ لی‘‘ رکھا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ مکلی ہو گیا۔ اس جامع مسجد کی محراب کے روبرو اس خاتون کی قبر موجود ہے۔[3] تاہم تاریخی شواہد اس کہانی کی تصدیق نہیں ہوتی۔[4]
مکلی نام کے بارے میں علی احمد بروہی اپنی کتاب ٹامب اسٹونس ان سندھ اینڈ بلوچستان میں لکھتے ہیں: "حقیقت میں مائی مکلی نام سے لگتا ہے کہ مہا کالی (ماں کالی) کا مندر تھا۔ جس سے نام مکلی لیا گیا ہے۔ مکلی کے نام کے بارے میں بہت سے نظریے یا خیالات پیش کیے گئے ہیں جن میں سے کوئی بھی قبول کرنے کے قابل نہیں لگتا۔"[5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "مڪلي"۔ آن لائين سنڌي لغات (بزبان سندھی)
- ↑ ابو بکر شیخ (8 جنوری 2018)۔ "مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دور دور تک سنائی دیتی کہانیاں"۔ ڈان نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2024
- ↑ "مائی مکلی دنیا کا عظیم تاریخی ورثہ اور گیارھواں بڑا قبرستان"۔ روزنامہ جنگ
- ↑ "مکلی قبرستان: جام نظام کا 'سانس لیتا' مقبرہ، 'جہاں کیل لگانا ممنوع ہے وہاں پہاڑ توڑنے کا آلہ استعمال ہوا'"۔ بی بی سی اردو
- ↑ علی احمد بروہی (1986)۔ History On Tombstones: Sind And Baluchistan (بزبان انگریزی)۔ جامشورو: سندھی ادبی بورڈ۔ صفحہ: 53–54