میرا جسم میری مرضی
میرا جسم میری مرضی حقوق نسواں کے علم برداروں کا نعرہ ہے [1] جو پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تناظر میں۔ بلند کیا جاتا ہے۔[2] پاکستان میں 2018ء کے بعد سے خواتین کے عالمی دن پر منائے جانے والے عورت مارچ نے اس نعرے کو بے حد مقبول کیا تھا۔ عام طور پر اس نعرے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر چھوا نہ جائے اور ان کے ساتھ زیادتی، ہراسانی یا عصمت دری نہ کی جائے۔[3]
اصل اور پس منظر
ترمیممیرا جسم میری مرضی نعرہ پاکستان میں پہلی بار 2018 میں عورت مارچ کے دوران میں چلایا گیا تھا۔
استعمال
ترمیمیہ نعرہ پہلی بار 2018 کے عورت مارچ میں استعمال ہوا تھا۔[4] اس کی مزید پیشرفت 2019 میں عورت مارچ کے دوران میں کی گئی اور اس کی پیش گوئی عورت مارچ 2020 میں کی جارہی ہے۔ یہ ملک کے میڈیا میں ایک بحث اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ٹاؤن آف ٹاؤن کی بات بن چکی ہے لیکن زیادہ تر ملک میں معاشرتی اصولوں کے مطابق نہیں ہونے کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔
تنازعات
ترمیمعورت مارچ کے سلسلے میں نیو نیوز پر مکالمہ ہورہا تھا۔ جس میں مشہور مصنف خلیل الرحمان قمر اور حقوق نسواں کی کارکن ماروی سرمد آپس میں نازیبا کلمات کہنے لگے۔ جو سوشل میڈیا پر نیا تنازع بن چکا ہے۔[5][6]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Bina Shah (29 نومبر 2019)۔ "Mera jism meri marzi"۔ The Feministani۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2020
- ↑ "Some of you don't understand what Mera Jism Meri Marzi really stands for, and it shows"۔ Dawn Images۔ 6 مارچ 2020
- ↑ "Explainer: What does Mera Jism Meri Marzi mean?"۔ Global Village Space۔ 29 جنوری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2020
- ↑ Siham Bashir (9 مارچ 2018)۔ "Aurat مارچ 2018 — the rise of sisterhood"۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2020
- ↑ "Mahira Khan calls out Khalil Ur Rehman Qamar for his blatant misogyny"۔ Dawn Images۔ 5 مارچ 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2020
- ↑ Madiha Shakeel (6 مارچ 2020)۔ "Media production house suspends Khalil ur Rehman Qamar"۔ Business Recorder۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2020