میلہ رام وفا
پنڈت میلہ رام وفا (پیدائش: 26 جنوری 1895ء - وفات:28 ستمبر 1980ء) بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر، پنجاب کے راج کوی ، صحافی اور ناول نگار تھے۔ 26 جنوری 1895ء کو گاؤں ديپو كے ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ وہ پنڈت بھگت رام کے بیٹے اور پنڈت جے داس کے پوتے تھے۔ بچپن میں گاؤں میں مویشی چرانے جایا کرتے تھے۔ كئی اخباروں کے مدیر ہوئے ،نیشنل کالج لاہور میں اردو فارسی کے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ ان کو باغیانہ نظم اے فرنگی لکھنے کے جرم میں دو سال کی قید بھی ہوئی۔ شعری مجموعے سوزِ وطن اور سنگِ میل کے علاوہ چاند سفر کا (ناول) ان کی اہم کتابیں ہیں۔ بڑے بھائی سنت رام بھی شاعر تھے اور شوق تخلص کرتے تھے۔ ٹی آر رینا کی کتاب پنڈت میلہ رام وفا حیات وخدمات،انجمن ترقی اردو(ہند) سے 2011ء میں چھپ چکی ہے۔ فلم پگلی (1943)اور راگنی(1945) کے نغمے انہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ 17سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ،پنڈت راج نارائن ارمان دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ارمان داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔اردو کے مشہور و معروف رسالہ مخزن کے مدیر رہے اور لالہ لاجپت رائے کے اردو اخبار وندے ماترم کی ادارت بھی کی۔ مدن موہن مالوی کے اخبارات میں بھی کام کیا۔ ویر بھارت میں جنگ کا رنگ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے۔ 19 ستمبر 1980ء کو میلہ رام وفاؔ، جالندھر ،پنجاب، بھارت میں انتقال کر گئے۔ اردو کے نقاد، محقق اور ادبی نظریہ دان احمد سہیل اپنے ایک مقالے میں میلا رام وفا کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔۔ " وفا کی شاعری میں انسانی منافقت کے بہت سے روپ بہروپ سامنے آتے ہں۔ انھیں انسان کے چہرے پر انسان کے نقوش نہیں ملتے وہ اپنے رقیب سے بھی شکوہ نہیں کرتے ہیں کی اسے میرے محبوب کا خیال رھتا ہے اور یہی خیال ان کو اندر سے مار دیتا ہے۔ اور ان کی عاشقانہ جدلیات عقلیت سے نبررآزما ہوکر رنجیدہ اور اداس ھوجاتی ہے۔ جو ایک رومانی فہم اور بے رنگ آسمان کے طرح ان پر مسلط ہے یہ ان کی رومانی واردات کو بکھیر دیتی ہے لہذا وہ واہموں کے مجسمے تراش کر اسے اپنے ہاتھوں سے پاش پاش بھی کردیتے ہیں اور یہ پسپایت کا عمل حقیقت کا عرفان تو نہیں بنتا لیکن ان کے یہاں ان کے قریبی لوگوں نے ہی ان کو ریزہ ریزہ کیا کیونکہ ان کی واھماتی حقیقت باہر کی اجتماعی نفسیات اور عمرانیات اور اس کے میکانی مزاج سے انسلاک نہیں کرپاتی۔
میلہ رام وفا | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 26 جنوری 1895ء (129 سال)[1] ضلع سیالکوٹ ، برطانوی پنجاب |
مقام وفات | 28 ستمبر 1980ء |
شہریت | برطانوی ہند بھارت |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، صحافی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ترا ہی خیال ان کو آٹھوں پہر ہے
مجھے میرے ہی ہم خیالوں نے مارا
ان کے یہاں موت کی اپنی لذت ہے۔ میلا رام فا کے یہاں اس لذت میں کوئی گھٹن نہیں ہے۔اور موت کو زندگی کی آگاہی تصور کرتے ہیں۔ وہ فنا اس طور پر چاہتے ہیں کہ انکا غم و الم ار اداسی سے نجات کے لیے وہ موت کے خواہا ں ہیں۔ یہی ان کی شاعرانہ فکر ہے۔ اس میں جمالیات بھی پوشیدہ ہے۔موت ان کے لیے غم کا علاج ہے مگر موت اتنی آسانی سے نہیں آتی اور اس عمل میں ان کے ساتھ بڑے تکلیف دے حادثات کا سلسلہ جڑا ھوا ہے۔ جو اصل میں ان کی زندگی اور موت کے درمیاں ایک ایسا مکالمہ ہے۔ جس مین زخم بھی ہیں، انبساط شوخیاں بھی ہیں۔ ان کی موت میں شفاعت نہیں ہے اسی سبب ان کے سسکتے شاعرانہ لہجے میں جو احساس ملتا ہے جو قاری کو خوف زدہ کردیتا ہے۔ فانی بدایونی کی طرح وہ موت کو نہیں بلاتے میلہ رام وفا کی یاسیت میں وہ موت کے تصور کے ساتھ زندگی کی مسکراتی اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔
موت علاج غم تو ہے موت کا آنا سہل نہیں
جان سے جان سہل سہی جان کا جانا سہل نہیں
میلا رام وفا کی شاعری میں تہنائی کا عنصر گہرا ہے جو زندگی کی معروضیت کا پھسپھسا پن اور اس کے رائج مفاہیم میں پیچیدگی کے سبب الجھ کر انھیں تذبذب کا شکار کردیتے ہیں۔ اور یہی کیفیت ان کے تخیل میں نئے قیاسی تجربے سر اٹھاتے ہیں۔ یوں ہر جامد چیز بھی مصنوعی اور میکانی طور پر حرکت میں لائی جاتی ہے۔ ان کی شعری جمالیات میں عمرانیاتی نوعیت کی نقش و نگاری اور علامتی سطح پر انسان کی خوش گوار زندگی کا التباس بھی پوشیدہ ہے۔"
میلا رام وفا کی ایک غزل ملاخطہ کریں:
*** آنکھیں بھی دیکھتی ہیں زمانہ کے رنگ ڈھنگ
دل بھی سمجھ رہا ہے زمانہ بدل گیا
بدلا نہ تھا زمانہ اگر تم نہ بدلے تھے
جب تم بدل گئے تو زمانہ بدل گیا
ان کو دلائیں یاد جب اگلی عنایتیں
وہ بھی یہ کہہ اٹھے کہ زمانہ بدل گیا
بس ایک اے وفاؔ مرے مٹنے کی دیر تھی
مجھ کو مٹا چکا تو زمانہ بدل گیا *** {1}
( تحریر: احمد سہیل)
حوالہ جات
ترمیم1۔ احمد سہیل ۔" وجودی عشق کا شاعر: میلا رام رام وفا" ماہنامہ ' شاعر' ممبئی ، بھارت۔ فروری 2018۔