می ٹو تحریک (بھارت) (انگریزی: Me Too movement) کی شروعات مردوں کے ذریعے کام کی جگہ پر کی جانے والی جنسی ہراسانی سے نجات پانے کے لیے ہوئی۔ اس سے قبل یہ تحریک امریکا میں شروع ہو چکی تھی۔ بھارت کی یہ تحریک کو دراصل اسی امریکی تحریک کا اگلا حصہ بتایا جا رہا ہے۔ [1]

بھارت میں سماجی میڈیا کے سہارے الزام تراشی ترمیم

بھارتی فلمی اداکارہ تنوشری دتہ نے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے نانا پاٹیکر پر ایک فلمبندی کے دوران نازیبا رویے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد اس طرح کے الزامات کئی اور لوگوں پر لگائے گئے جن میں فلمی شخصیت سبھاش گھئی بھی ایک تھے۔ مرکزی مملکتی وزیر برائے خارجہ امور ایم جے اکبر پر بھی کئی خواتین نے الزامات عائد کیے۔ اسی وجہ سے انھیں 17 اکتوبر 2018ء کو اپنے وزارتی عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

تحریک کی مخالفت ترمیم

ممتاز بھارتی صحافیہ تولین سنگھ نے می ٹو تحریک کی سخت مخالفت کی۔ ان کی مخالفت کی اولین وجہ قانون کا اصول ہے کہ کوئی شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت، جب تک خاطی ثابت نہ ہو بے قصور ہے۔ دوسری وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ موجودہ لہر کے تحت الزام لگانے والی خواتین پہلے سے بااختیار ہیں۔ وہ خود کی مثال ان خواتین سے دیتی ہیں جنھوں نے اپنے حق کو جد و جہد سے حاصل کیا نہ مظلومیت کا شاخسانہ پیش کرکے۔[2] یہ نکات انھوں نے بھارت کی دوسری نامور صحافیہ برکھا دت کو لکھے گئے اپنے کھلے خط میں کہ چکی ہیں۔ یاد رہے کہ تولین سنگھ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر سے کچھ وقت کے لیے نزدیک رہی ہیں اور ان دونوں کا ایک لڑکا آتش تاثیر بھی موجود ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Vindu Goel، Ayesha Venkataraman، Kai Schultz (2018-10-09)۔ "After a Long Wait, India's #MeToo Movement Suddenly Takes Off"۔ The New York Times۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2018 
  2. Women like me are fighters not victims: Tavleen Singh’s open letter to Barkha Dutt