می ٹو تحریک (نائجیریا)
می ٹو تحریک دنیا کے کئی ممالک میں ٹویٹر کے ایک ہیش ٹیگ کے ساتھ چلائی جانے والی بر سر آوردہ مردوں کی جنسی ہراسانی کے خلاف تحریک کا نام ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح یہ تحریک نائجیریا میں 2019ء سے شروع ہوئی ہے۔ اس ملک کی تحریک کا آغاز ملک کے مقبول کے ایک گلو کار ٹیمی ڈکولا (Timi Dakolo) کی اہلیہ بُسولا ڈکولو (Busola Dakolo) کی جانب سے شروع ہوا، جس نے ایک مقامی ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں دعوٰی کیا کہ کہ پادری بایودون فتویینبو (Biodun Fatoyinbo) نے جو ابوجا کے ایک بڑے گرجا گھر کے پادری ہیں، نے اس کے ساتھ اس کی عمری کے دور میں آبرو ریزی کی تھی۔اس واقعے اور عوامی شخصیات کی جانب سے خواتین کی جنسی ہراسانی کی وجہ سے #MeToo (می ٹو / میں بھی)، #ChurchToo (چرچ ٹو / گرجا گھر بھی) اور #SayNoToRape (آبرو ریزی کو روکیے) کے ہیش ٹیگ انسٹا گرام اور ٹویٹر پر عام ہو گئے۔ [1]
اَروَا می ٹو
ترمیمنائجیریا میں می ٹو تحریک یا جنسی ہراسانی کے واقعات صرف ایک فرقے یا زمرے کے لوگوں کے درمیان ہی نہیں، بلکہ ہر طبقے میں دیکھے گئے۔ بُسولا ڈکولو سے قبل 2017ء میں شمالی نائجیریا کے کانو شہر میں 24 سالہ خدیجہ آدمو کو اس کے بوائے فرینڈ نے تقریبًا مار ہی ڈالا تھا۔ جب کہ آٹھ ماہ قبل اس نے ایک بلاگ کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح بوائے فرینڈ نے اس پر متواتر حملے کیے اور اسے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ اس واقعے کے خلاف ملک میں #ArewaMeToo (شمالی نائجیریا میں می ٹو) کے ہیش ٹیک کو متعارف اور مقبول کیا۔ [2] اس دوسرے زمرے کے واقعات جنسی ہراسانی سے زیادہ جنسی تشدد سے تعلق رکھتے ہیں۔
بی بی سی کی خبر اور اس کا اثر
ترمیم2019ء میں بی بی سی نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں نائجیریا اور گھانا کے برسرکردہ پروفیسروں کی جانب سے جنسی ہراسانی کو منظر عام پر پیش کیا۔ ایک پروفیسر نے ایک جوان خاتون کو یونیورسٹی آف لاگوس میں داخلے کا وعدہ دیتے ہوئے اس جنسی لطف حاصل کرنا چاہتا تھا، یہ جانے بغیر کہ سامنے کھڑی عورت در حقیقت ایک صحافیہ ہے۔ اس نے اس کے بعد اپنی دفتر کا دروازہ بند کر دیا اور نازیبا انداز میں اس عورت کو چھونے لگا۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ یہاں کی عورتیں اپنا کام بنانے کے لیے اس طرح اپنے جسموں کا استعال کرتی ہی ہیں۔ اس ویڈیو سے لوگوں مزید غصہ پھوٹ پڑا اور سماجی میڈیا میں #sexforgrades (اعلٰی تعلیم کے لیے جسم کی لطف اندوزی) کا ہیش ٹیگ زور پکڑا۔ اس کے کچھ ہی دنوں میں نائجیریا کی مقننہ پروفیسروں کی جانب سے جنسی دست درازی کے خلاف قانون کو منظوری دی، جس پر وہاں کے صدر جمہوریہ نے بھی اپنی پر زور حمایت کا اظہار کیا۔ [3]