تاریخ نسائیت

تحریکوں اور نظریات کے احوال
(نسائیت کی تاریخ سے رجوع مکرر)

نسائیت کی تاریخ، (History of feminism) ان تحریکوں اور نظریات کے احوال (تاریخی یا موضوعی) پر مشتمل ہے جس کا مقصد خواتین کے مساوی حقوق کا حصول ہے۔ جب کہ دنیا بھر کے نسائیتی کے اسباب، مقاصد اور وقت پر منحصر ارادے، ثقافت اور ملک میں مختلف ہیں، زیادہ تر مغربی نسائی مورخین نے زور دے کر کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے کام کرنے والی تمام تحریکوں کو نسائی تحریکوں کے بطور لینا چاہیے، یہاں تک کہ جب ان تحریکوں نے خود اس اصطلاح کو خود پر لاگو کیا (یا نہیں کیا)۔ کچھ دوسرے مورخین نے جدید نسائی تحریک اور اس کے بعد کی تمام تحریکوں کے لیے "نسائیت" کی اصطلاح کو محدود کر دیا ہے اور (نسائیت کی پہلی لہر) اس سے قبل کی تحریکوں کو بیان کرنے کے لیے "ابتدائي نسائیت" (Protofeminism) کا عنوان استعمال کرتے ہیں۔

جدید مغربی نسائيت کی تاریخ روایتی طور پر تین ادوار یا "لہروں" میں تقسیم کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک بیشتر پیشرفت کی بنیاد پر قدرے مختلف مقاصد کے ساتھ ہے:[1][2]

  • نسائیت کی پہلی لہر، سے مراد پوری مغربی دنیا میں انیسویں اور بیسویں صدی میں نسائیت متعلقہ سرگرمیوں اور خیالات کا دور تھا۔ اس تحریک کی بنیادی توجہ قانونی مسائل بنیادی طور پر خواتین کے حق رائے دہی پر تھی۔
  • نسائیت کی دوسری لہر، (1960ء کی دہائی–1980ء کی دہائی)، ثقافتی عدم مساوات، صنف کا کردار اور معاشرے میں خواتین کا کردار پر مباحث اس کا حصہ تھے۔
  • نسائیت کی تیسری لہر، (1980ء کی دہائی -2000ء کی دہائی)، سے مراد نسائی سرگرمی کا متنوع تناؤ، تیسری لہر خود کو دوسری لہر کے تسلسل اور اس کی ناکامیوں کے جواب کے طور پر دیکھتی ہے۔[3]

ابتدائی نسائیت

ترمیم

نسائی تحریک کے وجود سے پہلے جو لوگ اور کارکن خواتین کی مساوات پر تبادلہ خیال کرتے رہے یا اس کو آگے بڑھایا، انھیں بعض اوقات ابتدائی نسائیت پسند/پروٹو فیمسٹسٹ کا نام دیا جاتا ہے۔[4] کچھ اسکالر اس اصطلاح پر تنقید کرتے ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ اس سے پہلے کی جانے والی شراکت کی اہمیت کم ہوتی ہے یا یہ کہ نسائيت کے آغاز کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں ہے جس کے لیے ابتدائی نسائیت/پروٹو فیمسٹسٹ یا جدید نسائیت/پوسٹ فیمسٹسٹ جیسی اصطلاحات استعمال ہوں۔[5][6][7][8]

ایلین ہاف مین بارچ کے مطابق، 428 قبل مسیح میں، [9] افلاطون نے، خواتین کی مجموعی سیاسی اور جنسی مساوات کے لیے [بحث کی]، وہ خواتین کی وکالت کرتے ہوئے ان کو اعلیٰ طبقے … وہ لوگ جو حکمرانی کرتے ہیں اور لڑتے ہیں، کا رکن بنانے کی حمایت کرتا ہے۔[10]

اندل، ایک خاتون تمل جوگی، ساتویں یا آٹھویں صدی کے آس پاس تھی۔[11][12] وہ تھرپاوی لکھنے کی وجہ سے مشہور ہے۔[12] اندل نے گوڈا منڈیالی جیسے خواتین کے گروپوں کو متاثر کیا ہے۔[13] کچھ لوگو وشنو کے ساتھ اس کی الہی شادی کو نسائی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں، کیوں کہ وشنو نے اسے بیوی ہونے کے باقاعدہ فرائض سے اجتناب کرنے اور خود مختاری حاصل کرنے کی اجازت دی۔[14]

انیسویں سے اکیسویں صدی

ترمیم

پہلی لہر

ترمیم

نسائیت کی پہلی لہر پوری مغربی دنیا میں انیسویں اور بیسویں صدی میں نسائیت متعلقہ سرگرمیوں اور خیالات کا دور تھا۔ اس تحریک کی بنیادی توجہ قانونی مسائل بنیادی طور پر خواتین کے حق رائے دہی پر تھی۔

مارچ 1968ء میں نیو یارک ٹائمز میگزین کے ایک مضمون میں "نسائیت کی پہلی لہر" کی اصطلاح صحافی مارٹھا لئیر کی استعمال کردہ اصطلاح سے خود بخود وجود میں آئی، صحافی مذکورہ نے اپنے مضمون "نسائیت کی دوسری لہر: یہ خواتین کیا چاہتی ہیں؟"[15][16][17] کے عنوان سے پیش کی تھی۔ نسائیت کی پہلی لہر، کی خصوصیت درحقیقت غیر سرکاری عدم مساوات کے خلاف، خواتین کی سیاسی طاقت کے لیے لڑائی پر توجہ مرکوز تھی۔ اگرچہ لہر استعارہ اچھی طرح سے قائم ہے، بشمول تعلیمی ادب میں، خواتین کی آزادی کے بارے میں ایک تنگ نظریہ پیدا کرنے پر اس پر تنقید کی گئی ہے، جو سرگرمی کے سلسلے کو مٹاتا ہے اور مخصوص دکھائی دینے والی شخصیات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔[18]

دوسری لہر

ترمیم

نسائیت کی دوسری لہر انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ریاستہائے متحدہ امریکا میں شروع ہو کر ساری دنیا میں پھیلی۔ ریاستہائے متحدہ امریکا میں یہ لہر انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی تک چلی۔ بعد ازاں یہ ایک بین الاقوامی تحریک کی شکل اختیار کر گئی جو یورپ اور ایشیا میں مضبوط تھی جیسا کہ ترکی اور اسرائیل میں جہاں یہ اسی کی دہائی میں اور دوسرے ممالک میں یہ مختلف وقتوں میں شروع ہوئی۔ پہلی لہر کی توجہ زیادہ تر حقوق رائے دہی کی تحریک اور قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کی طرف تھی تاکہ صنفی تضاد ختم ہو سکے۔[19] جیسا کہ حق رائے دہی، جائداد کے حقوق وغیرہ، جب کہ دوسری لہر نے بحث کو وسیع کیا اور نئے معاملات جیسا کہ جنسیت، خاندان، کام کی جگہ، افزائش کے حقوق، ڈی فیکٹو امتیازات اور سرکاری قانونی امتیازات کو اس تحریک میں شامل کیا۔[20] نسائیت کی دوسری لہر نے گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ اس کے علاوہ زبردستی کی خطرناک صورت حال اور طلاق کے قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے کام کیا۔ کئی تاریخ دان نسائیت کی دوسری لہر کے، ریاستہائے متحدہ امریکا میں اسی کی دہائی کے اوائل میں عورت کی صنف کے جنسیت اور فحش نگاری جیسے معاملات پر لڑائیوں اندرون نسائیت اختلافات کے ساتھ ختم ہونے کا اشارہ کرتے ہیں اور نوے کی دہائی کے اوائل میں نسائیت کی تیسری لہر کے دور کا آغاز بتاتے ہیں۔[21]

تیسری لہر

ترمیم

نسائیت کی تیسری لہر مختلف نسائیتی کارکردگی اور مطالعے کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ 1990ء کی دہائی کے اواہل میں ریاستہائے متحدا امریکا میں شروع ہوئی۔ [22] اور 2010ء کی دہائی اے اختتام تک جاری رہی۔[23][24]اگرچہ صحیح حدود بحث کا موضوع ہیں۔[22][25][26] تیسری لہر دراصل دوسری لہر کی ناکامیوں اور ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں کیے جانے والے اقدامات اور تحریکوں کے رد عمل کے طور پر سامنے آئی۔ یہ لہر نسائیت کو مزید وسعت دیتے ہوئے عورتوں کو مختلف شناختوں کے ساتھ اپنے ساتھ شامل کرتی ہے۔ اور یہ پہچانتے ہوئے کہ عورتیں"مختلف رنگ، نسل، اقوام اور ثقافتی پس منظر رکھتی ہیں" سو اسے ایک طرح سے دوسرے لہر کا رد عمل یا س کا تسلسل کہا جا سکتا ہے۔ 1989ء میں تیسری لہر کے آغاز سے تھوڑا پہلے انقطاع کے ساتھ جڑا ہوا تصور متعارف کرایا گیا، لیکن یہ اسی لہر کے دوران میں مقبول ہوا۔

ربیکا والکر نے ہم جنس پرست عورتوں اور سیاہ فام عورتوں پر توجہ دینے کے لیے "تیسری لہر" کی اصطلاح وضع کی۔ 1992ء میں انھوں نے انیتاہل کیس کے رد عمل میں ایک مضمون شائع کیا، جس کا مقصد اس سے اختلاف کرنا تھا جو عورتوں کو خاموش کرانے کے حوالے سے دیکھا گیا۔ [27][2][26]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Maggie Humm (1990)، "wave (definition)"، $1 میں Maggie Humm، The dictionary of feminist theory، Columbus: Ohio State University Press، صفحہ: 251، ISBN 978-0-8142-0507-5۔ 
  2. ^ ا ب Walker Rebecca (جنوری 1992)۔ "Becoming the Third Wave"۔ Ms.۔ New York: Liberty Media for Women۔ صفحہ: 39–41۔ ISSN 0047-8318۔ OCLC 194419734 
  3. Krolokke, Charlotte and Anne Scott Sorensen, "From Suffragettes to Grrls" in Gender Communication Theories and Analyses: From Silence to Performance (Sage, 2005)۔
  4. Cott, Nancy F. "What's In a Name? The Limits of ‘Social Feminism’; or, Expanding the Vocabulary of Women's History"۔ Journal of American History 76 (دسمبر 1989): 809–829
  5. Margaret Ferguson (مارچ 2004)۔ "Feminism in Time"۔ Modern Language Quarterly۔ 65 (1): 7–8۔ doi:10.1215/00267929-65-1-7  
  6. The Columbia Encyclopedia (Columbia Univ. Press, 5th ed. 1993(آئی ایس بی این 0-395-62438-X))، entry Plato۔
  7. Baruch, Elaine Hoffman, Women in Men's Utopias، in Rohrlich, Ruby, & Elaine Hoffman Baruch, eds.، Women in Search of Utopia، op. cit.، p. [209] and see p. 211 (Plato supporting "child care" so women could be soldiers)، citing, at p. [209] n. 1, Plato, trans. Francis MacDonald Cornford, The Republic (N.Y.: Oxford Univ. Press, 1973)، Book V.
  8. Krishna : a sourcebook۔ Bryant, Edwin F. (Edwin Francis)، 1957-۔ Oxford: Oxford University Press۔ 2007۔ ISBN 978-0-19-972431-4۔ OCLC 181731713 
  9. ^ ا ب Mandakranta Bose (2010)۔ Women in the Hindu Tradition: Rules, roles and exceptions۔ London & New York: Routledge۔ صفحہ: 112–119 
  10. Women's Lives, Women's Rituals in the Hindu Tradition;page 186
  11. Arvind Sharma، Katherine K. Young (1999)۔ Feminism and world religions۔ SUNY Press۔ صفحہ: 41–43 
  12. Martha Weinman Lear (مارچ 10, 1968)۔ "The Second Feminist Wave: What do these women want?"۔ The New York Times (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولا‎ئی 2018 
  13. Astrid Henry (2004)۔ Not My Mother's Sister: Generational Conflict and Third-Wave Feminism۔ Indiana University Press۔ صفحہ: 58۔ ISBN 978-0-253-11122-7 
  14. First Wave Feminism | BCC Feminist Philosophy
  15. Nancy A. Hewitt (2010)۔ No Permanent Waves: Recasting Histories of U.S. Feminism۔ Rutgers University Press۔ صفحہ: 1–12۔ ISBN 978-0-8135-4724-4 
  16. "women's movement (political and social movement)"۔ Britannica Online Encyclopedia۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 20, 2012 
  17. Pierceson, Jason, 1972-۔ Sexual minorities and politics : an introduction۔ Lanham, Maryland۔ ISBN 978-1-4422-2768-2۔ OCLC 913610005 
  18. As noted in:
  19. ^ ا ب Evans 2015, 22.
  20. Nicola Rivers (2017)۔ Postfeminism(s) and the Arrival of the Fourth Wave۔ Palgrave Macmillan۔ 8 
  21. Kira Cochrane (10 دسمبر 2013)۔ "The Fourth Wave of Feminism: Meet the Rebel Women"۔ The Guardian۔ 14 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2019 
  22. "The Third Wave of Feminism" آرکائیو شدہ 2019-05-28 بذریعہ وے بیک مشین، Encyclopaedia Britannica۔
  23. ^ ا ب Baumgardner & Richards 2000, p. 77
  24. "Becoming the Third Wave" by Rebecca Walker

بیرونی روابط

ترمیم