نصیر کوٹی

اردو زبان کے پاکستانی شاعر

نصیر اللہ خان المعروف نصیر کوٹی (پیدائش: 5 ستمبر 1936ء - 21 دسمبر 2016ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر تھے۔ انھوں نے غزل اور نعت کی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔

نصیر کوٹی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: نصیر اللہ خان ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 5 ستمبر 1936ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فتح پور ضلع ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 دسمبر 2016ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

نصیر کوٹی 5 ستمبر 1936ء کو قصبہ کوٹ (ہسوہ)، ضلع فتح پور، اتر پردیش ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام اصل نام نصیر اللہ خان اور نصیر تخلص تھا لیکن نصیر کوٹی کے قلمی نام شہرت پائی۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فاضل اردو کی سند حاصل کی۔ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ 1947ء میں شاعری ابتدا کی۔ حضرت بہار کوٹی کے شاگرد بنے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام لذتِ آزار کے نام سے 1982ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کی دوسرا ایڈیشن 1992ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں کچھ نئی غزلوں کے ساتھ انتخاب کے نام سے 2012ء میں [1] اور نعتیہ شعری مجموعہ سیل تجلی شائع ہو چکے ہیں۔ نصیر کوٹی نے کراچی میں اپنے استاد حضرت بہار کوٹی کے نام پر ایک ادبی تنظیم بہارِ ادب کے نام سے قائم کر رکھی تھی جس کے زیرِ اہتمام شعری نشستوں اور بڑے مشاعروں کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔

نمونۂ کلام ترمیم

نعت

زندگانی کے بتائے جس نے دنیا کو اصولمحترم ہو سب کی نظروں میں نہ کیوں ایسا رسول
اُس کی عظمت کا تعین کس کے بس کی بات ہےآسماں پر کہکشاں ہوجس کے نقشِ پا کی دھول
تھی دعا یکساں لبِ سرکار پر سب کے لیےسنگ زن ہو یا کوئی برسانے والا اُن پہ پھول
کتنی غالب ہو گئی ہم پر محبت دہر کیاپنے آقا کی ہدایت کو گئے ہم لوگ بھول
صرف اِک ہرزہ سرائی کے سوا کیا ہے نصیریہ عمل اور اِس پہ تیرا دعویِٰ عشقِ رسول

غزل

نہ کلیاں مسکراتی ہیں نہ پھولوں پر نکھار آئےبڑی بے کیفیوں کے ساتھ ایام بہار آئے
کوئی قیمت نہیں ایسے وفا کے عہد و پیماں کیمجھے جس پر یقیں آئے نہ ان کو اعتبار آئے
جہاں کے چپے چپے پر گماں ہوتا تھا منزل کامری منزل میں ایسے مرحلے بھی بے شمار آئے
حقیقت اس کے دل سے پوچھئے جذب محبت کیسمجھ میں جس کے مفہوم نگاہ شرمسار آئے
نظام گلستاں ظرف تمنا سے عبارت ہےترے دامن میں پھول آئے مرے دامن میں خار آئے
مریض غم کے لب پر نام ان کا بار بار آیاپھر اس کے بعد چارہ ساز آئے غم گسار آئے
نصیر آیا طواف کوئے جاناں راس کب دل کوتمنائے سکوں لے کر گئے اور بیقرار آئے

وفات ترمیم

نصیر کوٹی 21 دسمبر 2016ء کو 92 برس کی عمر میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 543
  2. "بزرگ شاعر نصیر کوٹی انتقال کر گئے"۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ 22-دسمبر-2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2021