نظام الدین شامزئی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
مفتی نظام الدین شامزئی دلزاک رحمہ اللہ کی شہادت
نظام الدین شامزئی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 جولائی 1952ء سوات |
وفات | 30 مئی 2004ء (52 سال) کراچی |
وجہ وفات | سیاسی قتل |
طرز وفات | قتل |
شہریت | پاکستان |
جماعت | جمیعت علمائے اسلام |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ فاروقیہ جامعہ سندھ [1] |
استاذ | سلیم اللہ خان |
تلمیذ خاص | منیر احمد اخون ، مفتی ابولبابہ شاہ منصور |
پیشہ | مفتی |
درستی - ترمیم |
مفتی نظام الدین شامزئی پاکستان کے نامور علمائے دیوبند میں سے ہیں جنہیں 30 مئی 2004ء کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ۔
آپ جولائی 1952ء کو سوات کی دلزاک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظہرالعلوم مینگورہ ضلع سوات اور راوالپنڈی کے مدارس میں حاصل کی۔
مزید اعلی تعلیم کے لیے جامعہ فاروقیہ تشریف لے گئے اس وقت آپ تیسرے درجہ میں تھے کہ آپ کے والد حبیب الرحمٰن شامزئی وفات پا گئے، یوں آپ کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آپ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عزیزالدین شامزئی نے اٹھائی۔ آپ کے تعلیمی مراحل کی تکمیل جامعہ فاروقیہ کراچی سے ہوئی۔
آپ کے استادوں میں عالم دین مولانا عبد الرحمٰن، فیض علی شاہ، عنایت اللہ خان اور وفاق المدارس عربیہ پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان مرحوم شامل ہیں۔
جامعہ فاروقیہ سے فراغت کے بعد اپنے حضرت شیخ کے حکم سے جامعہ فاروقیہ میں ہی تدریس شروع کر دی اور تقریباً 20 سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر مفتی احمد الرحمٰن کے حکم اور ان کی دعوت پر جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں استاد حدیث کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ آخری وقت میں جامعہ کے شیخ الحدیث اور شعبہ تخصص فی الفقہ کے نگران تھے۔
آپ کی تصانیف میں شرح مقدمہ مسلم، عقیدہ ظہور مہدی احادیث کی روشنی میں، والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق اور پی ایچ ڈیمقابلہ شیوخ بخاری وغیرہ۔شامل ہیں۔
مفتی نظام الدین شامزئی صاحب 30 مئی 2004ء بمطابق 10 ربیع الثانی 1425ھ بروز اتوار کراچی میں شہید کر دیے گئے۔
مفتی شامزئی شہیدؒ جہاد افغانستان اور طالبان کی اسلامی حکومت کے عملی سرپرستوں میں سے تھے۔ انھوں نے طالبان حکومت کے دفاع اور پشت پناہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ہر ممکن ذریعے سے جہاد افغانستان کے منطقی نتائج کے تحفظ اور طالبان حکومت کی پشت پناہی میں مصروف رہے۔
افغانستان پر امریکی حملہ اور امریکی جارحیت کے حوالے سے حکومت پاکستان کا کردار عالم اسلام کے بڑے سانحات میں سے ہے جن پر دینی حلقوں نے ہمیشہ شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں مفتی نظام الدین شامزئی کی آواز سب سے زیادہ بلند اور توانا رہی ہے۔
مفتی نظام الدین شامزئی صرف روایتی عالم دین نہیں تھے بلکہ ملت اسلامیہ کے مصائب پر کڑھنے والے اور امت کی مشکلات کے حل کی تلاش میں مضطرب و بے چین رہنے والے،مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سچے خیر خواہ، حق گو راہنما بھی تھے، حتیٰ کہ اسی راہ میں انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا ۔
آپ جولائی 1952ء کو سودلازاکگافغان گافغان ھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظہرالعلوم مینگورہ ضلع سوات اور راوالپنڈی کے مدارس میں حاصل کی۔
مزید اعلی تعلیم کے لیے جامعہ فاروقیہ تشریف لے گئے اس وقت آپ تیسرے درجہ میں تھے کہ آپ کے والد حبیب الرحمٰن شامزئی وفات پا گئے، یوں آپ کی پرورش اور تعلیمکی ذمہ داری آپ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عزیزالدین شامزئی نے اٹھائی۔ آپ کے تعلیمی مراحل کی تکمیل جامعہ فاروقیہ کراچی سے ہوئی۔
آپ کے استادوں میں عالم دین مولانا عبد الرحمٰن، فیض علی شاہ، عنایت اللہ خان اور وفاق المدارس عربیہ پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان مرحوم شامل ہیں۔
جامعہ فاروقیہ سے فراغت کے بعد اپنے حضرت شیخ کے حکم سے جامعہ فاروقیہ میں ہی تدریس شروع کر دی اور تقریباً 20 سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر مفتی احمد الرحمٰن کے حکم اور ان کی دعوت پر جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں استاد حدیث کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ آخری وقت میں جامعہ کے شیخ الحدیث اور شعبہ تخصص فی الفقہ کے نگران تھے۔
آپ کی تصانیف میں شرح مقدمہ مسلم، عقیدہ ظہور مہدی احادیث کی روشنی میں، والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق اور پی ایچ ڈیمقابلہ شیوخ بخاری وغیرہ۔شامل ہیں۔
مفتی نظام الدین شامزئی صاحب 30 مئی 2004ء بمطابق 10 ربیع الثانی 1425ھ بروز اتوار کراچی میں شہید کر دیے گئے۔
مفتی شامزئی شہیدؒ جہاد افغانستان اور طالبان کی اسلامی حکومت کے عملی سرپرستوں میں سے تھے۔ انھوں نے طالبان حکومت کے دفاع اور پشت پناہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ہر ممکن ذریعے سے جہاد افغانستان کے منطقی نتائج کے تحفظ اور طالبان حکومت کی پشت پناہی میں مصروف رہے۔
افغانستان پر امریکی حملہ اور امریکی جارحیت کے حوالے سے حکومت پاکستان کا کردار عالم اسلام کے بڑے سانحات میں سے ہے جن پر دینی حلقوں نے ہمیشہ شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں مفتی نظام الدین شامزئی کی آواز سب سے زیادہ بلند اور توانا رہی ہے۔
ولادت
ترمیمتعلیم
ترمیمآپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظہرالعلوم مینگورہ ضلع سوات اور راولپنڈی کے مدارس میں حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم
ترمیم[2] تشریف لے گئے اس وقت آپ تیسرے درجہ میں تھے کہ آپ کے والد حبیب الرحمٰن شامزئی وفات پاگئے، یوں آپ کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری اُ ن کے بڑے بھائی ڈاکٹر عزیزالدین شامزئی نے اٹھائی۔ آپ کے تعلیمی مراحل کی تکمیل جامعہ فاروقیہ کراچی سے ہوئی۔
اسا تذہ
ترمیمعالم دین مولانا عبد الرحمٰن، فیض علی شاہ، عنایت اللہ خان اور وفاق المدارس عربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان ہیں۔
درس و تدریس
ترمیمجامعہ فاروقیہ سے فراغت کے بعد اپنے حضرت شیخ کے حکم سے جامعہ فاروقیہ میں ہی تدریس شروع کر دی اور تقریباً 20 سال تک تدریسی خد مات انجام دیتے رہے۔ پھر مفتی احمد الرحمٰن کے حکم اور ان کی دعوت پر جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں استاد حدیث کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ آخری وقت میں جامعہ کے شیخ الحدیث اور شعبہ تخصص فی الفقہ کے نگران تھے۔
تصانیف
ترمیم- شرح مقدمہ مسلم،
- عقیدہ ظہور مہدی احادیث کی روشنی میں،
- والدین کے حقوق،
- پڑوسیوں کے حقوق
- شیوخ بخاری (مقالہ پی ایچ ڈی)
- http://www.elmedeen.com/author-287-حضرت-مولانا-مفتی-نظام-الدین-شامزئی-صاحبآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
وفات
ترمیم10 ربیع الثانی 1425ھ بمطابق 30 مئی 2004ء بروز اتوار کو کراچی میں قتل کر دیے گئے۔