خواجہ نور محمد تیراہی
خواجہ سید نور محمد چوراہی | |
---|---|
پیدائش | 11 فروری 1766 تیزئی شریف وادی تیراہ، افغانستان |
وفات | 17 نومبر1869ء چورہ شریف ضلع اٹک |
قلمی نام | بابا جی صاحب |
پیشہ | سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج |
زبان | اردو |
قومیت | افغانستان، ہندوستان |
نسل | پشتو |
شہریت | |
اصناف | صوفی، خدمت خلق، اسلام |
موضوع | تصوف |
نمایاں کام | ہزاروں مریدین |
خواجہ نو ر محمد تیراہی بانی آستا نہ عالیہ چورہ شریف جنہیں عر ف عا م میں ’’باباجی صاحب‘کہا جا تاہے۔
ولادت
ترمیمخواجہ نور محمد تیراہی 1179ھ مطابق 1766ء کو وادی تیراہ کے علاقہ تیزئی شریف کی بستی اخوند کوٹ اورکزئی ایجنسی کے مقام پر پیداہو ئے۔ اس گاؤں کو آج کل بڈگور کہا جاتا ہے۔
شجرہ نسب
ترمیمآپ کا شجرۂ نسب غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی کے واسطے سے خلیفہ چہارم امیر المؤمنین سیّدنا علی بن ابیطالب سے ملتا ہے۔
تحصیل علم
ترمیمآپ نے علوم دینیہ کی اکثر کتابیں مولانا محمد امین سے پڑھیں اور انھیں سے تکمیل کی۔ اپنی والدہ سے بھی ابتدائی کتب و کتب فقہ پڑھیں۔ مولانامحمد امین آپ کے والد خواجہ محمد فیض اللہ کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ لہذا آپ نے تصوف میں بھی ان سے استفادہ کیا۔ پھر والد سے سلوک کی منزلیں طے کیں۔ چونکہ علوم ظاہری و باطنی میں مہارت تامہ اور شہرت عامہ حاصل تھی لہذا لوگ اپنی الجھنیں لے کر حاضر ہوتے۔
بیعت و خلافت
ترمیمسلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں آپ اپنے والد خواجہ محمد فیض اللہ تیر اہی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور سلسلہ تعلیم و سلوک کی منازل طے کرنے کے بعد خلافت واجازت سے مشرف کیے گئے۔
سیرت وخصائص
ترمیمآپ صاحب تقوی و عزیمت شیخ شریعت و طریقت، سلسلہ عالیہ نقشبند یہ کے نیر تاباں امام الاولیاء، قدرة الصلحاء، خواجہ نور محمد چوراہی۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ جب آپ کی ولادت ہوئی تو والد بزرگوار نے نور محمد نام رکھا اور فرمایا کہ یہ لڑکا امام ربانی مجدد الف ثانی کا منبع ہو گا اور اس سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کو بڑا فروغ حاصل ہو گا۔ آپ کا فیض اتنا عام ہوا کہ لوگ گروہ در گروہ داخل سلسلہ ہونے کے لیے آتے تھے اور ان کو فرصت نہ ملتی تھی۔
مجددی تعلیمات
ترمیمتعلیما ت مجددیہ کے مطا بق آپ کی طبیعت ابتدا ئی زمانہ ہی سے اتباع سنت کی طر ف مائل تھی۔ چنانچہ آپ اپنے معمولا ت زندگی میں چھو ٹی چھوٹی باتوں میں اتبا عِ سنت کا بہت لحا ظ فر ما تے تھے۔ حقہ نو شی سے آپ کو سخت نفرت تھی اس سے مریدین کو منع فر ما تے تھے۔ یہا ں تک کہ کسی حقہ نوش کو ختم خو اجگان میں بھی شرکت کی اجا زت نہ تھی۔ آپ نے نہا یت سادہ طبیعت پائی تھی آپ نے تقریباً اَسی سال تک تیزئی شریف میں قیا م فر ما یا لیکن اس دوران میں آپ نے معمولی سے مکا ن میں ہی رہائش رکھنا پسند فر مایا۔ اسی طرح مہما نو ں کے لیے بھی ایک سا دہ سا مہمان خانہ تعمیر کر وایا۔ آپ کھا نے پینے میں بالکل تکلف نہ فر ماتے تھے۔ دعوت میں ہمیشہ ہی سا دگی کی تلقین فرماتے۔ جو ملتا کھا لیتے، جو ملتا پہن لیتے البتہ اپنے مہمان کی ہر ممکن بہتر میزبانی و عزت افزئی کی کوشش فر ماتے کسی کو ہر گز حقیر خیال نہ فر ماتے۔
چورہ شریف آمد
ترمیمخواجہ خواجگان شمس الہند پیر سید محمد چنن شاہ نوری دائم الحضوری آلو مہارشریف، خواجہ حضرت ہادی نامدار شاہ نتھیالوی اور خوجا خان عالم باولی شریف کے بے پناہ اسرار پر آپ چورہ شریف تشریف لائے۔ خواجہ نور محمد تقریباً اسی سال تیزئی شریف میں فروکش رہے اور ہزاروں تشنہ لوگوں کو فیض و کرم، رُشد و ہدایت اور عشق و محبت کے چشموں سے سیراب کیا۔ آج بھی ان کے فیض کا ڈنکا بج رہا ہے۔ جب آپ کے روحانی کمالات کا شہرہ عام ہو اتو بعض لوگ حسد و بغض کی آگ میں جل کر در پے آزار ہو گئے۔ آپ تمام باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے مگر حاسدین کی معاندانہ سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ چیری نامی گاؤں کا ایک حاسد مولوی ولی خاں بغض و عناد کی آتش کا شکار ہو کر جگہ جگہ لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلاتا اور بہکاتا پھرتا تھا کہ " آپ کی خدمت میں کوئی نہ جائے کیونکہ آپ کا طریقہ (سلسلہ نقشبندیہ ) اچھا نہیں ہے۔ ولی خاں کی ان خرافات سے ناواقف و سادہ لوح افغان مشتعل ہو کر آپ کی مخالفت میں کمر بستہ ہو گئے۔ اور پنجاب سے آنے والے آپ کے عقیدت مندوں کو پریشان کرنے اور لوٹنے لگے۔ جب صورت حال انتہائی بگڑ گئی تو آپ نے ولی خاں کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ "اگر میرے عقیدہ عمل اور قول و فعل میں کوئی شرعی سقم ہے تو مجھے آگاہ کرو ورنہ اس فضول اور بلا وجہ مخالفت سے باز آجاؤ"۔ ولی خاں تو محض حسد کا مارا ہوا تھا، عقیدے اور قول و فعل کی خرابی کیا بیان کرتا۔ بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کے مریدوں کو تنگ کرنے لگا۔ آخر کار احباب واعزہ کی تکالیف برداشت کرنا مشکل ہو گیا تو آپ موضع دراوڑ ( تیزئی شریف سے 15 میل دور ) تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے 1284ھ میں چورہ شریف ضلع اٹک ( پنجاب ) میں قدوم میمنت فرما کر مستقل رہائش اختیار کرلی اور یہیں وصال ہوا۔ چورہ گاؤں جسے اب با با جی صا حب کی نسبت کی وجہ سے چورہ شریف کہتے ہیں چورہ شریف تین چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے۔ ایک ’’چورہ‘‘ جہا ں پر صرف مقامی باشندے آبا د ہیں۔ دوسری ’’ بھورا ما ر‘‘ ہے۔ اور تیسری بستی کو ’’ دربا ر شریف ‘‘ کہتے ہیں۔ یہی دربا ر شریف جنا ب با با جی خوا جہ شاہ سید نو ر محمد کا مسکن رہا ہے۔ اور یہی آپ کا مد فن اور آخری آرام گا ہ ہے۔ جنا ب با با جی صا حب خوا جہ سید نور محمد چو ُراہی نے سب سے پہلے یہا ں ایک مسجد اور ایک مکا ن بنا کر دربار شریف کی بنیا د رکھی تھی۔ جو اب خاصی آبا دی معلو م ہو تی ہے۔ اور اس آبا دی میں تما م با با جی صا حب کی اولاد ہی بستی ہے۔ اس آبادی یعنی دربار شریف کے مشرق کی طر ف ایک کونہ میں حضرت جناب بابا جی خوا جہ سید نور محمد چوراہی کا مزار ایک سادہ مگر پر کشش عما رت میں وا قع ہے۔
و صال
ترمیمخواجہ نور محمدتیراہی کا وصال 13شعبان المعظم 1286ھ، مطابق 17نومبر 1869ء بروزبدھ کو ہوا آپ کا مزار مقدس چورہ شریف کی ذیلی بستی دربار شریف میں مرجع خاص و عام ہے۔ [1][2]