نیل (رنگ)
نیل ایک رنگدار مرکب ہے جسے انگریزی میں indigo dye کہتے ہیں۔ یہ ایک پودے سے حاصل کیا جاتا تھا جس کا نام Indigofera tinctoria یا Indigofera sumatrana ہے جو ہندوستان میں بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا تھا۔ ماضی میں نیلا رنگ بڑا نایاب تھا اس لیے یورپ میں نیل کی بڑی مانگ تھی۔ یہ سفید کپڑوں کو زیادہ اجلا بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آج کل ہر سال کئی ہزار ٹن نیل مصنوعی طریقے سے بنایا جاتا ہے۔ جینز کی پینٹ کا نیلا رنگ اسی مرکب سے رنگنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
نام | |
---|---|
دیگر نام
2,2'-Bis(2,3-dihydro-3- oxoindolyliden), Indigotin
| |
شناخت | |
رقم CAS | 482-89-3 |
بوب کیم | 135436515 |
مواصفات الإدخال النصي المبسط للجزيئات
|
|
|
|
خواص | |
مالیکیولر فارمولا | C16H10N2O2 |
مولر کمیت | 262.27 g/mol |
ظہور | dark blue crystalline powder |
کثافت | 1.199 g/cm3 |
نقطة الانصهار | 390-392 °س، 663-665 °ک 734-738 °ف |
نقطة الغليان | سانچہ:Chembox BoilingPt1 |
الذوبانية في الماء | 990 µg/L (at 25C) |
المخاطر | |
ترميز المخاطر | 207-586-9 |
توصيف المخاطر | |
تحذيرات وقائية | |
مركبات متعلقة | |
مركبات ذات علاقة | Indoxyl Tyrian purple Indican |
حصول
ترمیمنیل کے پودے میں ایک بے رنگ مرکب indican پایا جاتا ہے جو امینو ایسڈ ٹرپٹوفین کا مرکب ہے۔ پودے کی پتیوں کو پانی میں بھگو کر خمیر ہونے دیتے ہیں جس سے انڈیکان indoxyl میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انڈوکسل کے دو مولیکیول ہوا کی آکسیجن کی موجودگی میں باہم جڑ کر نیل کا مولیکیول بنا دیتے ہیں۔ چونکہ نیل پانی میں بہت ہی کم حل ہوتی ہے اس لیے یہ تہ نشین ہو جاتی ہے۔ اسے الگ کر کے اس میں کاسٹک سوڈا ملایا جاتا ہے اور سوکھنے پر جو ڈلے حاصل ہوتے ہیں انھیں پیس کر نیل حاصل کر لی جاتی ہے۔ woad کے پودے سے بھی اسی طرح نیل حاصل کی جا سکتی ہے جو یورپ میں پایا جاتا ہے۔
تاریخ
ترمیمہندوستان میں صدیوں سے نیل کی کاشت ہوتی تھی اور یہ باقی دنیا کو بڑی مقدار میں نیل بیچتا تھا۔ درحقیقت نیل کا انگریزی نام انڈیگو لفظ انڈیا سے ہی ماخوذ ہے۔ ایک زمانے میں نیل کو "نیلا سونا" (blue gold) کہتے تھے۔ بہار کا چمپا رن ضلع اس کی کاشت کے لیے مشہور تھا۔
1897 میں 19000 ٹن قدرتی نیل بنائی گئی تھی۔ اس وقت 7000 مربع کلومیٹر پر نیل کی کاشت ہوتی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بنائے ہوئے زمین داری نظام (بندوبست دوامی) میں نیل کے کاشت کار غلاموں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن جرمنی میں نیل بنانے کا مصنوعی طریقہ ایجاد ہونے کی وجہ سے 1914 میں نیل کی پیداوار صرف ایک ہزار ٹن رہ گئی۔
2002 میں مصنوعی نیل کی پیداوار 17000 ٹن تھی۔
مصنوعی نیل
ترمیمایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ہندوستان سے نیل کی تجارت برطانیہ کے ہاتھ لگ گئی اور دوسرے یورپی ممالک کو نیل بڑی مہنگی پڑتی تھی۔ جرمنی کی مشہور کیمیکل کمپنی BASF نے ایک کروڑ 80 لاکھ مارک خرچ کیے تا کہ نیل کے پودے کے بغیر نیل بنانے کا کوئی طریقہ دریافت ہو جائے لیکن صرف آدھی کامیابی ملی۔ نیپتھلین سے ایک مرکب (phthallic anhydride (PA حاصل کیا گیا جس سے نیل بن سکتی تھی مگر یہ طریقہ سستا نہیں تھا۔
1896 میں BASF کا ایک ٹیکنیشیئن Eugene Sapper تھیلک این ہائیڈریٹ (PA) بنانے کے لیے نیپتھلین کو گندھک کے تیزاب کے ساتھ گرم کر رہا تھا مگر مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے تھے۔ اس دوران جب اس نے درجہ حرارت ناپنے کے لیے تھرمامیٹر ڈالا تو اس کا ہاتھ پھسل گیا اور تھرمامیٹر برتن کی دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔ اس میں سے پارہ نکل کر تیزابی آمیزے میں گرا جہاں اس نے عمل انگیز (catalyst) کا کام کیا اور تھیلک این ہائیڈریٹ (PA) بڑی مقدار میں بن گیا۔ اس طرح مصنوعی نیل بنانا آسان اور سستا ہو گیا۔[1] اس کے بعد نیل کی کاشت کی ضرورت کم ہوتی چلی گئی۔
مصنوعی نیل aniline سے بھی بنائی جا سکتی ہے جو ایک سستا مرکب ہے۔ اینیلین سے ہی پیراسٹامول بھی بنتی ہے۔
بناوٹ
ترمیمنیل کا مولیکیول کاغذ کی طرح یک سطحی ہوتا ہے۔ یہ نارنجی رنگ کی روشنی جذب کرتا ہے جن کا طول موج 613 نینو میٹر ہوتا ہے اور اس وجہ سے نیلا نظر آتا ہے۔
اگر نیل کے مولیکیول میں سے دونوں NH نکال کر گندھک کا ایٹم لگا دیا جائے تو اس کا رنگ گہرا سرخ ہو جاتا ہے اور اس مرکب کو تھائیو انڈیگو کہتے ہیں۔ گندھک کا تیزاب نیل سے تعامل کر کے انڈیگو کارمین بناتا ہے جس کا رنگ سبز مائل نیلا ہوتا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالے
ترمیم- ↑ "The Blue Gold"۔ 09 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2013