وفد ثقیف
وفد ثقیف رمضان المبارک 9ھ میں اسلام قبول کرنے حاضر ہوا۔
بعض مؤرخین اس وفد کو وفدِ عُروہ بن مسعود ثقفی تحریر کرتے ہیں۔
جب حضور ﷺ جنگِ حنین کے بعد طائف سے واپس تشریف لائے اور مقام جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے ہی میں قبیلہ ثقیف کے سردارِ اعظم عروہ بن مسعود ثقفی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر برضا و رغبت دامن اسلام میں آ گئے۔ یہ بہت ہی شاندار اور با وفا آدمی تھے۔ انھوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللّٰه ﷺ آپ مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اب اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ ﷺ نے اجازت دے دی اور یہ وہیں سے لوٹ کر اپنے قبیلہ چلے گئے اور اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس علانیہ دعوتِ اسلام کو سن کر قبیلہ ثقیف کے لوگ غیظ و غضب سے بھر کر اس قدر طیش میں آ گئے کہ چاروں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کرنے لگے یہاں تک کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ان کو شہید تو کر دیا لیکن پھر یہ سوچا کہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اب ہم بھلا اسلام کے خلاف کب تک اور کتنے لوگوں سے لڑتے رہیں گے؟ پھر مسلمانوں کے انتقام اور ایک لمبی جنگ کے انجام کو سوچنے لگے۔ اس لیے ان لوگوں نے اپنے ایک معزز رئیس عبد یالیل بن عمرو کو چند ممتاز سرداروں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔
اس وفد نے مدینہ پہنچ کر بارگاہِ اقدس میں عرض کیا کہ ہم اس شرط پر اسلام قبول کرتے ہیں کہ تین سال تک ہمارے بت لات کو توڑا نہ جائے۔ آپ ﷺ نے اس شرط کو ردّ کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسلام کسی حال میں بھی بت پرستی کو ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بت تو ضرور توڑا جائے گا یہ اور بات ہے کہ تم لوگ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ توڑو بلکہ میں ابو سفیان ؓ اورمغیرہ بن شعبہ ؓ کو بھیج دوں گا وہ اس بت کو توڑ ڈالیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور عثمان بن العاص کو جو اس قوم کے ایک معزز اور ممتاز فرد تھے اس قبیلے کا امیر مقرر فرما دیا۔ اور ان لوگوں کے ساتھ ابو سفیان ؓ اور مغیرہ بن شعبہ ؓ کو طائف بھیجا اور ان دونوں حضرات نے ان کے بت لات کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالا۔[1][2]
امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عثمان بن عاص سے روایت کیا ہے کہ رسول اللّٰه ﷺ نے مجھ کو ان لوگوں کا عامل بنایا جو قبیلہ ثقیف میں سے آپ کے پاس وفد بن کر آئے تھے، حالانکہ میں ان سے عمر میں چھوٹا تھا اور یہ اس وجہ سے کہ میں نے سورۃ بقرہ کو پڑھا تھا۔[3]