پاکستان میں شمن پرستی زیادہ تر وادئ نگر کے چپروٹ نامی گاؤں میں پائی جاتی ہے۔ مقامی شینا زبان میں شمن کو دن٘یَل کہتے ہیں۔ اس علاقے میں شمن پرستی دراصل اس کی تاریخ کی دین ہے۔[1] گلگت بلتستان کی شینا زبان میں ان کو دنیَل/دیاٗنل اور بروشسکی زبان میں بِٹن/بیٹن کہا جاتا ہے۔ گلگت اپنے بلند و بالا پہاڑوں، برفانی تودوں اور جنگلی حیات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن پاکستان کے اس دور دراز علاقے میں بلند و بالا پہاڑوں پر ایک ایسی برادری بھی مقیم ہے جو شمن پرستی پر عمل کرتی یعنی روحوں کو اپنے قبضے میں لیتی ہے۔ یہ عمل کرنے والے افراد دئیل کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ (چِھلیِٰ) صنوبری جھاڑی کی شاخوں کا دھواں سانسوں کے ذریعے اپنے جسم میں جذب کرتے، مخصوص موسیقی پر رقص کرتے، بے خود ہو کر تازہ تازہ ذبح کی گئی بکری کے سر کا خون پیتے اور اپنے پاس مدد کے لیے آنے والے افراد کے مسائل حل کرنے کے لیے (راٰڇھے) "روحوں“ سے گفتگو کرتے ہیں۔ معروف انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اس کے بارے میں الطاف حسین نامی ایک ماہر بشریات کا کہنا ہے کہ

”ایک دئیل تین اہم کام کرتا ہے۔ وہ روحانی معالج ہوتا ہے، مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے اور انسانوں اور روحوں کے در میان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔“[1]

دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں دنیَل پرستی کا مرکز چپروٹ نامی گاؤں ہے جو وادئ نگر کے قریب واقع ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں آج سے ساڑھے پانچ کروڑ برس قبل براعظمی تختیاں آپس میں ٹکرائی تھیں۔ دئیل پرستی اس وقت بھی گلگت کے باشندوں میں مقبول ہے اور کالے جادو سے نجات حاصل کرنے کے خواہش مند افراد ان لوگوں سے مدد طلب کرتے ہیں۔

مقامی افراد کو دن٘یَلوں پر یقین ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان پر ان کے رشتے داروں یا دوسرے حاسدین کی جانب سے کروائے گئے کالے جادو کا توڑ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور انھیں ان کی خدمات کے عوض رقم دی جاتی ہے۔

دن٘یل بننے کے تعلق سے وادئ نگر کے ایک رہائشی، مجاہد شاہ نے بتایا کہ

"دئیل بننے کے لیے کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دوران میں ایک خصوصی موسیقی بجائی جاتی ہے اور صنوبری جھاڑیوں (چِھلیِٰ) کے پتوں کو جلا کر ان کی بو کو جسم میں جذب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اِس عمل کے کرنے والے پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ رقص کے ساتھ گنگنانا بھی شروع کر دیتا ہے۔ اس کے گانے کو اس مشکل کا حل سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ عمل کے آخر میں عموماً بکری کو ذبح کیا جاتا ہے اور اس کا سر دئیل کو پیش کیا جاتا ہے ۔ وہ بکری کا خون پیتا ہے اور پھر بہ تدریج ہوش میں آنے لگتا ہے۔“[1]


دنیَل پرستی گلگت بلتستان کی ایک قدیم روایت خیال کی جاتی ہے، لیکن اب یہ ایک ممنوع عمل بنتا جا رہا ہے۔ اس بارے میں مجاہد شاہ کا کہنا تھا کہ

”دن٘یل پرستی میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ باپردہ خواتین بھی اب یہ عمل کرنے لگی ہیں، جبکہ علما کا کہنا ہے کہ دئیل شیطان سے باتیں کرتے ہیں جو اسلام میں ممنوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وادی نگر میں اب یہ عمل بتدریج ختم ہوتا جا رہا ہے۔“[1]

دنیل

ترمیم

شینا زبان (گلگت کی مقامی زبان) میں دنیل اور شمن ایک ہی ہیں۔ لیکن دن٘یل یوروشیائی شمن سے قدرے مختلف ہیں کیونکہ یوروشیائی شمن کی کچھ ظاہری خصوصیات ہیں جیسے اضافی دانت، اضافی چھٹی انگلی یا کوئی دوسرا ظاہری نشان اس میں موجود ہوتا ہے۔ جبکہ دئیل ایک عام انسان ہے جسے پری منتخب کرتی ہے۔ جب پھولوں کے موسم میں چیری اور خوبانی کی فصلیں لہلہاتی ہیں تو اس موسم میں پریاں آسمان سے زمین پر اترتی ہیں اور تمام نومولود بچوں کی ناک اور منہ سونگھ کے ان میں سے دئیل منتخب کر لیتی ہیں۔ بچپن میں دئیل کو پہچاننا مشکل ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ نوجوانی میں قدم رکھتا ہے کچھ خصوصی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان علامات میں بے ہوش ہوجانا، پریشانی کے حالات پیدا ہونا اور کئی دنوں یا کئی ہفتوں تک بیمار رہنا وغیرہ ہیں۔ اگر شمنی علامات ظاہر ہونے کے دوران میں بِٹن (روح) ایک بننے کی مزاحمت کرنے لگے تو اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

دن٘یل موسیقی (ایک خاص دھن یا ساخت) کا دیوانہ ہوتا ہے جسے سن کر وہ عالم بے خودی (وجد) میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات پری سے ہوتی ہے۔ تہواروں میں دن٘یل موسیقی کی دھن پر ناچتا ہے۔ فصلوں کی کٹائی کا تہوار گنانی ایک ایسا ہی تہوار ہے۔ ناچنے کے دوران میں ہی دن٘یل اگلے سال فصل کی پیشن گوئی بھی کر دیتا ہے۔ دن٘یل جب بے خودی میں پہنچتا ہے تو وہ مخصوص طرز کا گانا گاتا ہے، جس کو اوگالِہ (اَۆڱاٗلِہ) کہا جاتا ہے اور اسی میں پیشنگوئی کے جملات موجود ہوتے ہیں۔ دن٘یل جس زبان میں گاتا ہے وہ گلگت بلتستان کی زبان شینا ہے، وہ اس کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں گاتا ہے۔اس وجہ سے بعض لوگ شینا زبان کو طنزاً شیاطین کی زبان کہتے ہیں۔

شمنی عبادات

ترمیم

شمن یا دئیل کو عالم غیب تصور کیا جاتا ہے۔ اور یہ علم غیب انھیں روح کے ذریعے ملتا جن سے ان کی گفتگو ہوتی ہے۔ یہ روحیں دراصل پریاں ہیں۔ یہی پریاں دئیل کو عالم وجد میں مستقبل کی خبریں بتاتی ہیں جنہیں وہ علم غیب کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

رسومات

ترمیم

دئیل کو شمنی حالت یا خوشگوار موڈ میں لانے کے لیے بکرے کا خون، دھواں اور موسیقی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ ڈڈنگ استاد موسیقی پیش کرتے ہیں۔ آرکسٹرا کے تین موسیقی آلات ہیں، ان میں ڈڈنگ (ڈھول)، ڈامل (دف) اور سرنائی (شہنائی) یا گابی (بانسری کی ایک مقامی شکل) وغیرہ شامل ہیں۔ دھواں کرنے کے لیے جوپینر (ایک قسم کی گھاس) اور اسپند (مقامی زبان میں: سپندور) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ خون کے لیے حالیہ ذبح کیا ہوا بکرے کا سر لایا جاتا ہے اور دیال اس میں سے خون پیتا ہے۔ دئیل موسیقی پر ناچنا شروع کرتا ہے اور ناچتے ناچتے وہ دھواں اپنے اندر لینا شروع کرتا ہے۔ پھر وہ چھاتی سے خون پیتا ہے۔ وہ موسیقی پر مسلسل ناچتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مقام عروج تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہ شینا زبان (گلگت کی مقامی زبان) میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی حالت میں دیال پری کے سامنے اپنی عرض داشت پیش کرتا ہے، اس سے حجت اور سوالات کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران میں دیال کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ موت سے قبل دیال دو یا تین دفعہ اس حالت میں پہنچ سکتا ہے۔[2]

تاریخ

ترمیم

تاریخ دان جیسے ایچ ایم صدیقی نے شمن پرستی پر بہت وسیع تحقیق کی ہے۔ صدیقی نے ہنزہ میں شمن پرستی پر ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ اس مقالے میں صدیقی نے اس علاقے کے مشہور شمنوں کا تذکرہ کیا ہے اور ساتھ ہی حک مامو اور شون گاکور جیسے شمنوں کے بارے میں لکھا ہے۔[3]

ہنزہ کے بِٹن/دئیل شمنی رسومات ادا کرنے کے دوران مستقل کی خبریں بتایا کرتے تھے۔ ثوم یا میر بِٹن کو پیشن گوئی کے لیے بلایا کرتے تھے کہ مستقبل قریب میں کہیں کوئی مصیبت، قحط سالی یا بلا تو نہیں آنے والی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت "Shamanism: Spirits in the valley"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون (بزبان امریکی انگریزی)۔ 2010-10-14۔ 26 دسمبر 2018 میں spirits-in-the-valley/ اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2016۔ The practitioners, called Dayals, inhale the smoke of burning juniper branches, dance to a special music, enter into ecstatic trances, drink blood from a freshly severed goat’s head and converse with ‘spirits’ to find solution to the problems of the people who come to seek their help, according to anthropologists. 
  2. Csáji László (2011)۔ "Flying with the Vanishing Fairies:Typology of the ShamanisticTraditions of the Hunza"۔ Anthropology of Consciousness۔ 22 (2)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. M.H. Sidky (1994)۔ "Shamans and Mountain Spirits in Hunza"۔ Asian Folklove Studies۔ 53۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ