شینا زبان
شینا زبان ایک ہند آریائی داردی زُبان ہے جو ہند آریائی لسانی گروہ کی شمال مشرقی ذیلی لسانی گروہ کی داردی لسانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ داردی لسانی گروہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ اپنے مرکز (وسط ایشیا) سے اُس وقت علاحدہ ہوا یا برصغیر کی طرف ہجرت کی جب ویدی اور اوستا بولنے والے ابھی کوئی مشترکہ زبان بول رہے تھے اور انھوں نے برصغیر کی طرف نقل مکانی شروع نہیں کی تھی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ شینا زبان اور دوسری داردی زبانوں والوں نے دو سے اڑھائی ہزار سال قبل مسیح کے دوران مختلف گروہوں میں وسط ایشیا سے برصغیر کی طرف ہجرت شروع کی۔ شینا زُبان کم و پیش پانچ ہزار ق م (امین ضیاء، شینا گرائمر، 1986) کی ایک قدیم داردی زبان سمجھی جاتی ہے۔ شینا اور داردی زبانوں میں وہ صرفی، نحوی اور فونیائی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو پاکستان کی زیادہ تر موجودہ دوسری زبانوں میں ناپید ہو چکی ہیں۔ داردی زبانوں میں فعلی صرفیے افعال میں جُڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ شینا زبان کو ایک تانی زبان بھی کہا جاتا ہے جس کے سُر اور تان کے مدوجزر سے الفاظ میں معنوی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ شینا زُبان کے ماہر جناب شکیل احمد شکیل کا کہنا ہے کہ ”شینا زُبان پروٹو کلاسک آریائی زبان ہے جس کی ابتدا وسط ایشیا میں کاکیشیا کے میدانوں اور وادیوں میں ہوئی اور یہ زبان پانچ ہزار سال قدیم ہے“۔
شینا | |
---|---|
Shina | |
مقامی | پاکستان، بھارت |
علاقہ | گلگت بلتستان، چترال |
مقامی متکلمین | (2,000,000 بحوالہ 1998–2018)e18 |
عربی رسم الخط | |
زبان رموز | |
آیزو 639-3 | کوئی ایک: scl – Shina plk – کوہستانی شینا |
گلوٹولاگ | shin1264 Shina[1]kohi1248 کوہستانی شینا[2] |
شینا زبان کی ذیلی بولیاں
شمالی پاکستان اور ہندوستان میں بولی جانے والی شینا زبان کو پانچ بڑی ذیلی بولیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 1۔ شمالی گروہ (گلگتی گروپ): اس میں گلگتی، پنیالی، ہنزہ/نگر، بگروٹی، ہراموشی، روندو اور بونڙی کے شینا لہجے شامل ہیں۔ 2۔ مشرقی گروہ (استوری گروپ): اس میں استوری، بلتستان/کھرمنگ، دراس اور گریز کی شینا لہجے شامل ہیں۔ 3۔ دیامر گروہ (چلاسی گروپ): اس میں چلاس، داریل، تانگر، ہربن اور پھلاوائی، تاؤ بٹ (نیلم وادی) کے شینا لہجے شامل ہیں۔ 4۔ شینا کوہستانی: اس میں جلکوٹ، پالس اور کولئی کی شینا زبان شامل ہے۔ 5۔ بروکسکت: شینا زبان کی یہ بولی ہندوستان کے زیر انتظام لداخ کے بٹالک سیکٹر میں اور پاکستان کے زیر انتظام بلتستان کی وادی گنوخ، دانژھر اور مورل میں بھی بولی جاتی ہے۔ بروکسکت کے بولنے والے آدھے بدھ مت اور آدھے مسلمان ہیں۔ یہ بولی دوسری چاروں بولیوں سے کافی الگ اتھلگ ہو چکی ہے لیکن لغوی اشتراک پایا جاتا ہے۔ (رازول کوہستانی)
شینا اور سنسکرت
پانینی (460-520 ق م) جو موجودہ علاقہ صوابی کے رہنے والے تھے نے جس وقت ٹیکسلا میں سنسکرت کی گرائمر ”سمکرتیہ“ (سم+کرت) مُرتب کی اُس وقت شینا اور داردی زبانیں گندھارا کی اہم ہمسایہ زبانیں تھیں یقیناً اُس وقت داردی زبانوں کے بے شمار الفاظ سنسکرت اور مقامی پراکرت زبانوں کا حصہ بنے ہیں۔ پانینی کی سنسکرت گرائمر جو ”سَم+کرت“ کے نام سے مشہور ہے اسے ہم داردی لفظ ”سَم+کَرَٹ“ کے معنی میں جانچیں تو اس کے اصل معنی درست اور نفاست سے وضع کی ہوئی چیز کے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ سنسکرت ایک ”سَم+کَرَٹ“ زبان ہے۔ جناب گریرسن کا کہنا ہے کہ سنسکرت میں ایسے بے شمار دوسری پراکرتوں کے الفاظ داخل کیے گئے ہیں جنہیں سنسکرت کے قواعد دان ویدک سنسکرت میں انھیں تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ ہندکو، سرائیکی اور سندھی کے بے شمار ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ سمکرت میں مقامی علاقائی پراکرتوں کے الفاظ داخل کر کے انھیں سنسکرت بنایا کیا گیا ہے۔ جناب ممتاز حسین داردی لوگوں کے متعلق اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں کہ: ”گندھارا تہذیب کے عروج کے زمانے میں اس علاقے کی آبادی کی اکثریت داردی نسل پر مشتمل تھی۔ اس زمانے میں بدھ مت اس علاقے کا غالب مذہب تھا۔ مذہبی اثرات کے تحت سنسکرت علاقے کی علمی زبان تھی اور لکھنے پڑھنے کا کام اسی زبان میں ہوتا تھا۔ تاہم بول چال کے لیے داردی لوگوں کی اپنی زبانیں استعمال ہوتی تھیں۔ یہ گندھارا تہذیب کا زمانہ داردی لوگوں کا زریں عہد تھا اور یہ علاقہ دنیا کے متمدن ترین خطوں میں شمار ہوتا تھا“۔ [رازول کوہستانی کی ایک کتاب شینا اور داردی زبانوں کے لسانی روابط سے ماخذ]
شین درد تاریخ میں
دارادیسا/دَردیسا/دارد دیسا، دارد، دَردائے، دارَدارے، دَاردُو، دَرَادُو، دَاردِی یا دَاردِک اُن اقوام کو قرار دیا گیا ہے جو کشمیر کے شمال مغربی پہاڑی سلسلوں اور درّوں میں آباد اور پھیلے ہوئے تھے۔ دارد لوگوں کا زکر مھابہارت اور سنسکرت کی مشہور کتاب راجا ترن٘گݨی میں دارد اور دارادیسا/دَردیسا/دارد دیسا کے نام سے ہوا ہے۔(دیکھیں کلہاݨا راجا ترنگݨی، ترجمہ سٹین، جلد دوم، صفحہ 435)۔ بقول Dr. John Mock کلہاݨا اپنی کتاب راجا ترنگݨی میں کشمیر کے شمال مغرب کے پہاڑی خطے میں رہنے والے لوگوں کا تعارف یا شناخت داردُو لوگوں کے نام سے کی ہے۔
کلہاݨا نے سنسکرت کی اس کتاب میں دارد قبائل کے لشکر، حملوں، بعض دارد سرداروں اور حکمران کا زکر بھی کیا ہے۔ راجا ترنگݨی کشمیر کی تاریخ کا اولین مستند ماخذ مانا جاتا ہے۔ مورخین نے کشمیر سے ہندوکُش تک پھیلے ہوئے وسیع جغرافیائی علاقہ میں آباد قبائل کو پاکستان یا ہندوستان کے قبیلوں سے الگ شناخت کے لیے انھیں دارد اور زبانوں کو داردی زبانوں کا نام دیا ہے۔ پہلے پہل بعض لوگ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ دارد اور داردستان کسی قبیلہ/لوگ اور داردستان کسی جگہ کا نام نہیں۔ لیکن آثار قدیمہ کی ہونے والی دریافتوں نے اس نام کی تصدیق کی ہے۔ معروف محقق سٹین نے گلگت کے عالم پُل کے پاس ایک قدیم خروشتی چٹانی کُتبہ دریافت کیا تھا جسے ”دَرددرایا“ یعنی ”داردوں کا بادشا“ پڑھا گیا تھا۔ اس کُتبہ کا تاریخی تعین چار سو عیسوی قرار دیا گیا ہے۔ (احمد حسن دانی، شمالی پاکستان کی تاریخ، ص: 38) اس کے علاوہ شمالی پاکستان کے بعض دوسرے چٹانی کتبات میں بھی دارد حکمرانوں یا بادشاہوں کے نام پائے گئے ہیں جیسے ”شاندار ویسرواناسینا، زمین کے عظیم بادشاہ“ (تَھلپن داس میں)، داران مہاراجا ”دلوں کا عظیم بادشاہ“ (چِلاس میں) ”درددرایا“ (گلگت میں) اور ”کھوجا“ بادشاہ (شتیال میں)۔ جناب مورکرافٹ (1819) نے اپنے سفر کشمیر کے دوران سنسکرت کی قدیم کتاب راجا ترنگݨی کا قدیم نسخہ دیکھا اور شاید اپنے سفرنامے Travels in Himalayas میں انھوں نے جس ”داردُو“ قبیلے کا زکر کیا وہ نام انھوں نے راجا ترنگݨی ہی سے لیا ہو۔ راجا ترن٘گݨی یا راج ترن٘گݨی 4250 سال کے واقعات کی ایک منظوم تاریخ ہے جس کا اختتام 1149ء میں ہوتا ہے۔ اس کے غیر ملکی زبانوں میں کئی تراجم شائع ہوئے ہیں۔ شہنشاہ اکبر اور زین العابدین کے دور میں اس کے فارسی تراجم ہوئے اور بعد کے دور میں اس کتاب کو اردو میں بھی ترجمہ کیا گیا لیکن جو سب سے مستند ترجمہ خیال کیا جاتا ہے وہ جناب ایم اے سٹین کا ہے جو 1900ء میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس ترجمہ میں جناب سٹین نے خصوصی وضاحتی نوٹس بھی لکھے ہیں جو تاریخی واقعات اور مقامات کو سمجھنے میں بہت مدد ہیں۔ مورکرافٹ (1819) جس نے اپنے سفر نامے میں گلگت اور چھلاس کے قبائل کو دَاردُو (Dardu)کے نام اور چھلاس کو دَاردُو چھلاس مُلک کے نام سے یاد کیا ہے۔ ہیروڈوٹس نے ان قبائل کو Daradæ یا Daradræ کا نام دیا ہے۔ 1842 میں جناب Vigne نے بھی اپنے سفر نامے Travels in Kashmir جلد اوّل، صفحہ 300 میں ان قبائل کو Dardu اور علاقے کو Dardu Country کے نام سے یاد کیا ہے۔ Schomberg (1853) نے اپنی کتاب Travels in India and Kashmir جلد اوّل و دوم میں اور Knight (1893) نے اپنی کتاب ”Where Three Empires Meet“ کے صفحہ 104 پر ان قبائل کو Dard کے نام سے یاد کیا ہے۔ Neva (1915) نے اپنی کتاب Beyond the Pir Punjal میں ان قبائل کو Dard کا نام دیا ہے۔ سٹرابو کی کتاب میں ان قبائل کو دردائ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کے بعد آنے والے محققین اور مورخین جن میں فریڈرک ڈریو (1875) جان بڈلف (1880)، راورٹی (1881)، پٹولمی (1884)، لٹنر (1893)، اوسکر (1896)، روبرٹسن (1899)، گریرسن (1908)، بیلی (1915)، مورجنسٹرن، (1927)، لاریمر (1935)، اورل سٹین (1930، 1933), ، ٹوچی (1963)، ڈاکٹر کارل جٹمار (1980،1986، 1989) اور احمد حسن دانی (1989) نے اپنی مختلف کُتب میں جگہ جگہ ان قبائل کے لیے دارد، داردی، درادُو اور داردک کا نام استعمال کیا ہے۔ یہ نام اُن تمام قبائل کے لیے ایک مشترکہ نام ہے جو کُشن گنگا سے ہندوکُش تک پھیلے ہوئے علاقوں میں آباد ہیں اور داردی زبانیں بولتے ہیں۔ متزکرہ سفرنگاروں اور محققین نے دارد، داردی، دردائے، درادائے، داردُو، درادُو، دیردائی، داردک کے جو جو نام دیے ہیں موجودہ دور میں بعض لسانی ماہرین ان نسبی اصطلاح یا نام سے اختلاف بھی کر رہے ہیں لیکن اس نام کو اپنی کتابوں میں بار بار دہراتے بھی ہیں۔ ڈاکٹر لٹنر نے اپنی تحقیقات میں اسی مناسبت سے ان علاقوں کو داردستان کا نام دیا ہے۔ یہ نام بعض مقامی لوگوں اور دانشوروں میں تا حال مستعمل ہے۔ ہیروڈوٹس نے اس اصطلاح کو بطور جغرافیائی نام بھی استعمال کیا ہے ایک Andarae اور دوسرا Daradae یعنی گندھارا اور دَدیکائے (دَرادائے) کا علاقہ۔
شین دارد قبیلوں کے متعلق عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ وسط ایشیا سے نقل مکانی کر کے ایران سے ہوتے ہوئے برصغیر میں داخل ہونے والے اوّلین آریائی قبائل ہیں جو دو سے اڑھائی ہزار سال قبل مسیح میں وسط ایشیا سے ایران، بلوچستان اور سندھ سے ہوتے ہوئے گھندھارا آئے اور پھر شناکی/ݜݨاکی (انڈس کوہستان، چھلاس) اور اس کے بعد گلگت اور سکردو کی بعض وادیوں تک پہنچے۔ اور بعد میں مختلف گروہوں کی شکل میں دارد شین قبیلے، کشمیر، گریز، دراس اور لداخ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وادی دراس سے تعلق رکھنے والے محقق و ادیب جناب مختار زاہد بڈگامی نے اپنی کتاب ”تاریخ شنا زبان و ادب“ میں لکھا ہے کہ شین دارد قبائل کی برصغیر میں آمد کے دوران کئی دارد قبیلے اترپردیش بہار، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور پنجاب (بھارت) میں بھی آباد ہو گئے تھے۔ لیکن بعد کے دور میں یہ قبیلے کہاں گئے کچھ معلوم نہیں۔ [یہ مواد رازول کوہستانی کے ایک مقالہ سے ماخذ ہے]
شینا کا موجودہ ماحول
شینا زبان کا موجودہ لسانی ماحول شینا زبان کا موجودہ لسانی جغرافیہ اس کے قدیم لسانی جغرافیہ سے کئی گُنا زیادہ سُکڑا ہوا ہے۔ موجودہ دور میں شینا زبان سلسلہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکُش کے ایک وسیع لسانی جغرافیہ کے کئی مقامات پر بولی جاتی ہے جو جموں کشمیر میں گریز، دراس، بٹالک، لداخ، آزاد کشمیر کی نیلم وادی میں تاؤ بَٹ اور پُھلوائی، پاکستان میں پورے ضلع دیامر چلاس، نصف سے زائد گلگت کے حصّے، اسکردو کے بعض مقامات، ضلع غذر کے اکثر علاقے، ضلع اپر کوہستان کے نصف حصّے اور ضلع کولئی پالس کوہستان کے تمام ضلع میں بولی جاتی ہے۔ یہ موجودہ داردی زبانوں میں سب سے زیادہ بولنے والی زبان ہے۔ اس زبان کے کئی لہجے پائے جاتے ہیں ۔ اس کے بولنے والوں کی بعض بستیاں آج کل اپنے موجودہ جغرافیہ سے باہر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ شینا زبان کے موجودہ لسانی جغرافیہ میں بلتستان کی طرف اس کے ارد گرد بعض ہندآریائی، ایرانی، تبتو برمن (بلتی/لداخی)، گلگت اور غذر کے آس پاس بروشسکی، ڈُماخی، وخی، کھوار، ہندوستان کے زیر قبضہ علاقوں کی شینا گریزی، دراسی اور بٹالک، لداخی بروکھسٹ شینا کے اردگرد لداخی، تبتی، کشمیری، ہندی اور گوجری، انڈس کوہستان کے آس پاس داردی کوہستانی لسانی گروہ، ضلع شانگلا اور سوات کی طرف پشتو، ہزارہ ڈویژن کی طرف پشتو، ہنکو/تنولی اور گوجری، نیلم وادی میں شینا زبان کے ارد گرد پہاڑی، گوجری، کشمیری اور کُنڈل شاہی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شینا زبان کے وہ نئے میدانی یا شہری علاقے (پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ) جہاں 1930 کے بعد نئی بستیاں اور آبادیاں معرض وجود میں آئیں اور جہاں لاکھوں شینا بولنے والوں کی مستقل یا عارضی آبادیاں پائی جاتی ہیں ان کا کئی دوسری زبانوں سے لسانی رابطہ قائم ہے۔ ان میں ہندکو، گوجری، پشتو، پنجابی، پوٹھواری، پہاڑی، کشمیری، سندھی اور اردو زبانیں شامل ہیں۔ شہری علاقوں میں آباد شینا بولنے والی نئی نسل کے لہجے میں بعض صوتی، صرفی اور لغوی تغیّر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ دور میں شینا زبان کے مختلف لہجے اپنے اپنے جغرافیائی منطقوں میں بے شمار دوسری زبانوں کے ساتھ لسانی روابط ہیں۔ نظام تعلیم، دفاتر اور طبی مراکز وغیرہ میں اردو زبان کا رابطہ عام ہے جبکہ مذہبی تعلیم کے میدان میں عربی اور فارسی سے لسانی واسطہ پڑ رہا ہے۔ ان علاقوں میں سماجی، ثقافتی، تجارتی، مذہبی، تعلیمی، سیاسی اور لسانی روابط کے تحت مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کا ایک دوسرے سے روزمرہ واسطہ پڑتا ہے اور زبانوں کے کئی الفاظ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح کئی مقامی الفاظ معدومی کی طرف اور کئی بیرونی الفاظ دخول کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے توسط سے نئے نئے الفاظ زبانوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ گھر، حجرہ اور بیاک کے ماحول میں جو روایتی گفتگو اور لوک دانش پر بات چیت کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا اب اس کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ مقامی زبانوں میں زرعی اوزار و زراعت، لباس، گھریلو اشیاء، موسیقی کے آلات اور روایتی دُھنیں، خوراک، ہتھیار اور نظام قرابت داری سے متعلق بعض قدیم الفاظ معدومی کا شکار ہیں اور نوجوان نسل اس قسم کے الفاظ سے بالکل آگاہ نہیں۔ اس کے با وجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ شینا زبان کا لسانی ماحول کسی حد تک سازگار ہے اور وہ جنگ و جدل اور لشکر کشی اب نہیں جو ماضی بعید میں پائی جاتی تھی۔ اس زبان کو معدومی کا خطرہ نہیں، بولنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور زبان کی ترویج کا عمل جاری ہے۔ [رازول کوہستانی کی ایک کتاب شینا اور داردی زبانوں کے لسانی روابط سے ماخذ]
سوشل میڈیا اور شینا قوم
سوشل میڈیا کے بدولت مختلف لہجے بولنے والے آپس میں رابطہ میں ہیں اور ایک دوسرے کے لہجوں کے لغوی سرمایہ سے مستفید ہو رہے ہیں جس سے شینا زُبان میں اندرونی طور پر اس کے مختلف لہجوں میں ہم آہنگی اور لُغوی اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بٹالکی، گریزی، دراسی، استوری، گلگتی، چلاسی، پنیالی ، شینا کوہستانی اور شینا آزاد کشمیری لہجے بولنے والے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے کے قریب ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ خواص کی حد تک یہ معمولی کوشش ہے لیکن عوام میں ایسی بیداری نظر نہیں آرہی ہے اور دن بہ دن شینا اصلی الفاظ کی جگہ اردو اور انگریزی کے الفاظ آرہیں ہیں، اس بابت عوام میں کوئی شعور ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زبان کا لوک ادب، فن داستان گوئی اور لوک شعری اصناف و ادب سے اس کے بولنے والے دور ہو رہے ہیں اور اس کے احیاء کی طرف کوئی خاص توجہ اور عملی کوشش نظر نہیں آ رہی۔ [رازول کوہستانی کی ایک کتاب شینا اور داردی زبانوں کے لسانی روابط سے ماخذ]
شینا رسم الخط
شینا زبان کو عربی رسم الخط میں لکھا جا رہا ہے تا ہم رسم الخط کے مسائل تا حال موجود ہیں پاکسان اور ہندوستان میں اس زُبان میں پائی جانے والی مخصُوص اضافی آوازوں کے قائم حروف کو دو طرح سے لکھا جا رہا ہے جو ایک مثبت قدم نہیں۔ اس سلسلے میں جناب محمد امین ضیاء اور جناب شکیل احمد شکیل کی معیاری اور شینا املا سے متعلق فنی کوششیں قابل قدر ہیں اور ایک بہتر راہنمائی مل سکتی ہے۔ شینا رسم الخط میں ایک مسئلہ املا میں فعلی صرفیوں یا جوڑوں کا درست لکھنا بھی ہے اور اس کمزوری پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ گلگت بلتسان/کوہستانی شینا کے اضافی حروف:ڇ ، ڇھ ، څ ، څھ ، ڙ ، ݜ ، ݨ ، ڱ اور کوہستانی شینا کا حرف ڦ۔
شینا حروف تہجّی (رازول کوہستانی)
آ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ڇ څ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ ڙ س ش ݜ ص ض ط ظ ع غ ف ڦ ق ک گ ل م ن ݨ ں ڱ و ہ ء ی ے بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ ڇھ څھ دھ ڈھ ڑھ زھ ڙھ کھ گھ لھ مھ نھ
شینا ترجمہ قرآن
قرآنِ مجید کا تاریخ میں پہلی بار شینا میں ترجمہ ہوا ہے،مترجم جناب شاہ مرزا صاحب گلگت کے علاقہ جلال آباد سے ہیں،جن کو خدا نے توفیق دی کہ پہلی بار شینا ترجمہ کرنے کا۔کلام اﷲ کا ترجمہ کرنا اول تو اردو جیسی بڑی زبانوں میں مشکل ہوتا ہے تو ایک زبان جس کے ابھی ابھی قاعدے لکھ رہے ہوں اور ذخیرہ الفاظ کی کمی ہو مشکل تر ہے۔ [3]
شینا تحریری مواد
شینا زبان میں بے شمار تحریری کُتب یا مواد پایا جاتا ہے جس میں لُغات، گرائمر، ابتدائی قاعدے، کہاؤتیں، عارفانہ کلام، شعری مجموعے، منظوم شعری تراجم، قرآن مجید کا ترجمہ اور کئی دوسرے موضوعات پر کتابیں موجود ہیں۔ داردی زبانوں میں کشمیری کے بعد سب سے زیادہ تحریری مواد اسی زبان میں پایا جاتا ہے۔ شینا زبان میں لکھنے والے اہم ناموں میں محمد شجاع ناموس، محمد امین ضیاء، فضل الرحمن عالمگیر، شکیل احمد شکیل، رازول کوہستانی، مسعود سموں، محمد رمضان، رضا امجد، نصیرالدین چھلاسی، شیخ غلام احمد شیخ، احمد جوان، محمد شفیع ساگر، محمد لطیف نلتریجو، اکبر حسین اکبر، مظہر علی، غُلام رسول ولایتی بلامکی، عبد الخالق تاج، ظفر اقبال تاج، جمشید دُکھی، حکیم جاوید اقبال، الحاج شاہ میرزہ، شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور لوگ جن میں نوجوان ماہر لسانیات بھی شامل ہیں شینا زُبان کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس زبان میں ریڈیو اور ٹی وی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں۔ جمو و کشمیر انڈیا میں طبع شدہ شینا کتابیں:
- احمد جوان کی کتاب حمد، نعت اور قصائد کا مجموعہ "ڇلو" 1989 میں شائع ہوئی؛
- رضا امجد کے دو شعری تصنیفات جلے زہراؑ اور چناٗلو تکیاٗر، منظر عام پر آئیں؛
- رضا امجد کی کتاب ”جموں و کشمیر میں درد ݜیݨ“ شائع ہوئی؛
- شفیع ساگر نے امین ضیاء کے حروف تہجی کو دراسی لہجے میں استعمال کرکے ایک کتابچہ شائع کیا؛
- شفیع ساگر کی کتاب "ݜیݨا لوک ادب " منظر عام پر آئی جس میں اہم لوک گیت و ادب شامل ہے؛
- مختار زاہد بڈگامی کی ایک اہم کتاب "تاریخ ݜیݨا زبان و ادب“ شائع ہوئی؛
- چکٹ صاحب کی کتاب "گلستان ݜیݨا" شائع ہوئی؛
- پُݜوٰں بآغ گلستان سعدی کا ترجمہ مسعود ساموں نے چھاپی۔
- شیخ غلام احمد شیخ کی کہاؤتوں کی کتاب ”مَلیکہ“ شائع ہوئی؛
- مسعود سموں کی کتاب ”شںا محاؤرآے گہ مثالے“ 2016 میں شائع ہوئی؛
- مسعود سموں کی گریزی شینا گرائمر کی کتاب 2018 میں شائع ہوئی؛
- محمد رمضان صاحب نے شینا زبان کے گریزی لہجہ میں آسان شینا قاعدہ شایع کیا۔
اسی طرح گلگت ریجن میں شینا زبان کے متعلق اردو اور شینا میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان مین سر فہرست:
- ڈاکٹر محمد شجاع ناموس کی صغیم کتاب ”گلگت اور شینا زبان“ جو 1956 میں شائع ہوئی؛
- محمد امین ضیاء کا شعری مجموعہ ”سان“ جو 1974 میں شائع ہوا؛
- محمد امین ضیاء کی کہاؤتوں کی کتاب ”سوینو موریئے“ جو 1978جو میں شائع ہوئی؛
- محمد امین ضیاء کی کتاب ”شینا قاعدہ اور گرائمر“ 1976جو میں شائع ہوئی؛
- محمد امین ضیاء کی کتاب ”شینا اُردو لُغت“ 2010 میں شائع ہوئی؛
- اکبر حسین اکبر کی کتاب ”سومولو رسول“ جو 1980 میں شائع ہوئی؛
- گلزار اہلبیتؑ، شینا کے پرانے قصیدے، مرثیے اور نوحوں کا مجموعہ، فضل علی فرفوحی نے 1988 میں شایع کی؛
- اکبر حیسن اکبر کی کتاب ”اُردو اور شینا کے مشترکہ الفاظ“ 1992میں شائع ہوئی؛
- عبد الخالق تاج کا گلگتی شینا زبان کا قاعدہ ”شینا قاعدہ“ 1989میں شائع ہوا؛
- نصیر الدین چھلاسی کا شعری مجموعہ ”زاد سفر“ شائع ہو (اشاعتی تاریخ نہیں)؛
- رحمت عزیز چترالی کا ”شنا قاعدہ“ جو غالباً ِ2017 یا کچھ اس سے قبل شائع ہو؛
- شکیل احمد شکیل نے ددی شلوکے دو جلدیں،شینا ورک بک، الکھانوں بڙوٗن، شینا قاعدہ، شینا اردو انگریزی بول چال شایع کی؛
انڈس کوہستان میں شایع شدہ کتابیں:
- مولانا ضیاء المرسلین کوہستانی مرحوم نے ”قاعدہ کوہستانی مصدر حروف“ کا کتابچہ شائع کیا؛
- رازول کوہستانی/رُتھ لیلی شمٹ نے ”شینا متلہ“ 1998 میں کوہستانی شینا کہاؤتیں شائع کیں؛
- رازول کوہستانی/رُتھ لیلی شمٹ نے ”شینا متلہ“ رسم الخط کی تبدیلی اور اضافہ کے ساتھ 2018 میں اشاعت دوم کے لیے کتاب مکمل کی؛
- رازول کوہستانی/رُتھ لیلی شمٹ نے کوہستانی شینا زبان کا ”شینا قاعدہ“ 1996 میں شائع کیا؛
- رازول کوہستانی ”بُنیادی شینا کوہستانی اردو لُغت“ 1999 میں شائع ہوئی؛
- رازول کوہستانی ”شینا کوہستانی اُردُو لُغت“ جو تین جلدوں میں ہے 2018 میں چار نقطوں والی اضافی علامات اور مصوّتی اعراب کے ساتھ مکمل کی جو اشاعت کے لیے تیار ہے؛
- رازول کوہستانی ”کوستان دہ ادویاتی گوڑیو روایتی استعمال“ 1998 میں شائع کی؛
- رازول کوہستانی نے ملک عبد الرؤف مرحوم کی تبلیغی کتاب ” شینا کوہستانی تبلیغى کتابچہ“ 2018 میں مکمل کیا۔[4]
شینا سافٹ ویئر
شینا زبان کے لیے موبائل سافٹ ویئر چترالی سائنس دان رحمت عزیز چترالی، ایف ایل آئی ، غلام رسول ولایتی بلامکی اور جموں کشمیر سے مسعود سامون نے بنایا جبکہ کمپیوٹر کیبورڈ رحمت عزیز چترالی اور غلام رسول ولایتی بلامکی نے بنایا۔ شینا زبان کا ایک موبائل سوفت ویئر فورم فار لینگویج انیشیٹیوز نے بنایا ہے جو گوگل کے پلے سٹور سے دستیاب ہے۔ مائکروسوفٹ آفس کی اپلی کیشن میں لیپ ٹاپ/کمپیوٹر کا سافٹ ویئر انڈس کوہستان سے تعلق رکھنے والے رازول کوہستانی نے بنایا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "Shina"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری
- ↑ ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "کوہستانی شینا"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری
- ↑ شینا بیاک،14 جنوری 2018
- ↑ ویبلاگ،[مردہ ربط]
شینا زبان آزمائشی ویکیپیڈیا، ویکیمیڈیا انکوبیٹر پر |