پنجاب، بھارت میں تعلیم
پنجاب میں تعلیم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پنجاب میں بھارت کے بے شمار مشہور تعلیمی ادارے، اسکول، کالج اور جامعات موجود ہیں جبکہ پنجاب ایگریکلچرل یونیورسٹی دنیا کی بلند پایہ زرعی یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے۔
ابتدائی تعلیم
ترمیمحکومت ہند نے بھارت میں چودہ سال کی عمر تک بچوں کی ابتدائی تعلیم پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔[1] نیز حکومت نے بچہ مزدوری پر بھی پابندی عائد کر دی ہے تاکہ بچے غیر محفوظ کاموں اور ہاتھوں میں پڑ کر اپنا مستقل نہ گنوا بیٹھیں۔[1] تاہم مفت ابتدائی تعلیم اور بچہ مزدوری پر پابندی کا نفاذ غربت اور معاشرتی حالات کی وجہ سے عملاً انتہائی مشکل ہوتا ہے۔[1] ابتدائی تعلیم کی اسی فیصد تسلیم شدہ اسکولیں حکومت کے زیر انتظام ہیں یا حکومت انھیں امداد دیتی ہے۔[2]
تاہم وسائل کی ناقص فراہمی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ابتدائی تعلیم کے یہ انتظامات ناقص کارکردگی پیش کر رہے ہیں، عمارتوں کی کمی اور معلمین کی عدم تربیت بھی اس نظام کے خلا کو مزید وسیع کر رہے ہیں۔ سنہ 2011ء میں حکومت ہند کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ابتدائی تعلیم کے 5,816,673 اساتذہ،[3] جبکہ مارچ 2012ء کے مطابق ثانوی تعلیم کے 2,127,000 اساتذہ تھے۔[4] مفت اور لازمی تعلیم بچوں کا حق قانون 2009ء کے تحت 6 سے چودہ برس کے بچوں یا ساتویں جماعت تک پڑھنے کے لیے تعلیم کو مفت کر دیا گیا ہے۔[1][5]
حکومت ہند کی جانب سے تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے گئے۔ سنہ 1994ء میں ضلعی تعلیم کی باز تازہ کاری پروگرام (DERP) شروع کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ کل ہند سطح پر ابتدائی تعلیم کے موجودہ نظام کی اصلاح اور تازہ کاری کے ذریعہ ابتدائی تعلیم کو خوب فروغ دیا جائے۔[6] اس پروگرام کے لیے 85 فیصد سرمایہ مرکزی حکومت نے جبکہ بقیہ پندرہ فیصد سرمایہ ریاستی حکومتوں نے پیش کیا۔[6] اس پروگرام کے تحت 160000 نئے اسکول کھلے جن میں 84000 متبادل تعلیم کے اسکول تھے۔ متبادل تعلیم کے ان اسکولوں میں تقریباً 3.5 ملین بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ ان اسکولوں کو یونیسیف اور دیگر بین الاقوامی پروگرام کے تحت امدادیں دی جا رہی تھیں۔[6]
ابتدائی تعلیم اسکیم کے تحت آخری تین برسوں میں کچھ صوبوں میں بڑے پیمانے پر بھرتی ہوئی جس کا مجموعی تناسب 93 سے پچانوے فیصد ہے۔[6] نیز عملہ میں قابل لحاظ اضافہ ہوا، بھرتی اور اضافہ کے یہ اقدامات اسی اسکیم کا حصہ تھے۔[6] تعلیم کے فروغ کے لیے موجودہ جاری اسکیم سروا شکشا ابھیان ہے جو دنیا کے بڑے تعلیمی اقدامات میں سے ایک ہے۔ گرچہ ان اسکیموں کے تحت بھرتی جاری ہے لیکن تعلیمی معیار بدستور پستی کا شکار ہے۔
ثانوی تعلیم
ترمیمسنہ 1986ء کی قومی حکمت عملی برائے تعلیم (NPE) نے بھارت کے ثانوی تعلیمی نظام میں ماحولیات کے تئیں بیداری کی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم اور یوگا جیسے دیگر روایتی عناصر کو فروغ بخشا۔[7] سنہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ثانوی تعلیم کے تحت 14 سے 18 برس کے 88.5 ملین بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
بھارت کے ثانوی نظام تعلیم کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں معاشرے کے پسماندہ طبقوں پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے اکثر بڑے اداروں کے ماہرین کو بلایا جاتا ہے اور طلبہ کو پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں طلبہ کو اپنا میدان منتخب کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔[8] نیز راشٹریہ مادھمک شکشا ابھیان کے ذریعہ بھی ثانوی نظام تعلیم کو مزید موثر اور مفید بنانے کی کوشش جاری ہے۔[9]
اجتماعی تعلیم برائے معذور اطفال (IEDC) کے نام سے ایک خصوصی پروگرام سنہ 1974ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اس میں ابتدائی تعلیم پر زیادہ توجہ دی گئی تھی۔[10] تاہم اس کے اثرات ثانوی تعلیم پر بھی مرتب ہوئے۔[11] دوسرا اہم اور معروف پروگرام کیندری ودیالیہ کا منصوبہ ہے جو بھارت کی مرکزی حکومت کے اہلکاروں اور ملازمین کے لیے شروع کیا گیا اور پورے بھارت میں اس کی تعلیم گاہیں کھل گئیں۔ سنہ 1965ء میں شروع ہونے والے اس منصوبہ میں حکومت نے اس بات کا خصوصی اہتمام کیا کہ کیندری ودیالیہ کی تمام تعلیم گاہوں میں یکساں نصاب تعلیم ہو اور تمام اسکولوں کے اسباق اور نصاب یکساں رہے تاکہ اگر کسی ملازم کا دوسرے شہر میں تبادلہ ہو جائے تو اس کے بچوں کا درسی نقصان نہ ہو اور ان کے اسباق دوسری اسکول میں بھی وہیں سے شروع ہوں جہاں سے انھوں نے پچھلی اسکول میں چھوڑا تھا۔[10]
ثلثی تعلیم
ترمیمپنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے بہت سے ادارے موجود ہیں (جن کی فہرست ذیل میں درج ہے)۔ ان اداروں میں عہد حاضر کے تمام شعبے فنون لطیفہ (arts)، بشریات (humanities)، سائنس، انجینئری، طب، قانون اور کاروبار کے نصاب گریجویٹ اور مابعد گریجویٹ کی سطح تک پڑھائے جاتے ہیں۔ مختلف شعبوں میں اعلیٰ تحقیق کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ پنجاب زرعی یونیورسٹی (Punjab Agricultural University) زراعت کے میدان میں دنیا کی اہم اور مستند ترین جامعات میں شمار ہوتی ہے۔ اس یونیورسٹی نے 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں پنجاب کے سبز انقلاب میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔
جامعات
ترمیممرکزی
ترمیم- سینٹرل یونیورسٹی آف پنجاب، بٹھنڈا
ریاستی
ترمیم- پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ (پنجاب کی ریاستی یونیورسٹی[12])
- بابا فرید یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، فریدکوٹ
- گرو نانک دیو یونیورسٹی، امرتسر
- پنجاب ایگریکلچرل یونیورسٹی، لدھیانہ
- آئی کے گجرال پنجاب ٹیکنیکل یونیورسٹی,[13] جالندھر
- مہاراجہ رنجیت سنگھ اسٹیٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی،[14][15] بٹھنڈا
- پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ
- گرو روی داس آیروید یونیورسٹی، ہوشیارپور
- گرو انگد دیو ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی، لدھیانہ
- راجیو گاندھی نیشنل یونیورسٹی آف لا، پٹیالہ
تسلیم شدہ
ترمیم- سنت لونگوال انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لونگوال (تسلیم شدہ)
- تھاپڑ یونیورسٹی، پٹیالہ (تسلیم شدہ)
نجی
ترمیم- اپی جے انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ ٹیکنیکل کیمپس، جالندھر (پنجاب)[16]
- شری گرو گرنتھ صاحب ورلڈ یونیورسٹی، فتح گڑھ صاحب
- جی جی ایس کالج آف ماڈرن ٹیکنالوجی، کھرڑ
- انڈین اسکول آف بزنس، اجیت گڑھ
- گرو کاشی یونیورسٹی, تلونڈی سابو
- ڈی اے وی یونیورسٹی، جالندھر
- جی این اے یونیورسٹی، پھگواڑا
- سنت بابا بھگ سنگھ یونیورسٹی، جالندھر
- اکال یونیورسٹی
پنجاب کے خود مختار کالج
ترمیمیونیورسٹی گرانٹس کمیشن (بھارت) کی جانب سے پنجاب کے بہت سے کالجوں کو خود مختار کالج کا درجہ دیا گیا ہے۔
- خالصہ کالج، امرتسر
- ماتا گجری کالج، فتح گڑھ صاحب
- ایس جی جی ایس خالصہ کالج، مہل پور (ضلع ہوشیارپور)
- امرتسر کالج آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی
- بی سی ای ٹی گرداسپور
- گرو نانک دیو انجینئرنگ کالج، لدھیانہ[17]
نامور کالج (تکنیکی /پیشہ ورانہ)
ترمیم- اپی جے انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ ٹیکنیکل کیمپس، جالندھر (پنجاب)[16]
- یونیورسل گروپ آف انسٹی ٹیوشنز، لالرو
- دیش بھگت گروپ آف انسٹی ٹیوشنز، گوبند گڑھ، موگا، مکتسر دیش بھگت یونیورسٹی کے تحت
- انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، روپڑ
- انڈین انسٹی ٹیوٹ آف امرتسر[18]
- انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، موہالی
- ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، جالندھر
- گلوبل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز، امرتسر
- انسٹی ٹیوٹ آف نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (آئی این ایس ٹی)، موہالی
- گیانی ذیل سنگھ پنجاب ٹیکنیکل یونیورسٹی کیمپس (گورنمنٹ انجینئری کالج)، بٹھنڈا
قابل ذکر شخضیات
ترمیم- سابقہ وزیراعظم بھارت، ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جامعہ پنجاب، چندی گڑھ، اوکسفرڈ اور کیمبرج، برطانیہ سے تعلیم حاصل کی۔
- ہر گوبند کھرانا، نامور نوبل انعام یافتہ نے حیاتی کیمیا کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔
- بی جے پی کی رہنما سشما سوراج نے پنجاب یونیوسٹی سے تعلیم کی۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت Blackwell, 93–94
- ↑ [1] [مردہ ربط]
- ↑ flashstatistics2009-10.pdf
- ↑ "Archived copy" (PDF)۔ April 17, 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 8, 2016
- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 12 فروری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2016
- ^ ا ب پ ت ٹ India 2009: A Reference Annual (53rd edition), 215
- ↑ India 2009: A Reference Annual (53rd edition), 231
- ↑ Blackwell, 94–95
- ↑ Microsoft Word – Framework_Final_RMSA.doc آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ education.nic.in (Error: unknown archive URL). (PDF). Retrieved on 21 March 2011.
- ^ ا ب India 2009: A Reference Annual (53rd edition), 233
- ↑ Secondary Education آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ education.nic.in (Error: unknown archive URL). Education.nic.in. Retrieved on 21 March 2011.
- ↑ "Panjab University (PU) cannot be considered a centrally-funded university"
- ↑ "ਪੰਜਾਬ ਤਕਨੀਕੀ ਯੂਨੀਵਰਸਿਟੀ ਜਲੰਧਰ ਦਾ ਨਾਂਅ ਇੰਦਰ ਕੁਮਾਰ ਗੁਜਰਾਲ ਦੇ ਨਾਂਅ 'ਤੇ ਰੱਖਿਆ"
- ↑ "state technical university will have academic control over the colleges in Bathinda, Barnala, Faridkot, Fatehgarh Sahib, Fazilka, Ferozepur, Mansa, Muktsar, Patiala and Sangrur districts."
- ↑ "Maharaja Ranjit Singh State Technical University on the campus of Giani Zail Singh College of Engineering and Technology in Bathinda"۔ 17 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2016
- ^ ا ب Apeejay Institute of Management Technical Campus
- ↑ "Autonomous Colleges - University Grants Commission" (PDF)
- ↑ "IIM to be set up in Amritsar"۔ 27 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2016
بیرونی روابط
ترمیم- حکومت پنجاب - محکہ اسکولی تعلیم
- پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ
- سوامی سروآنند گری پنجاب یونیورسٹی ریجنل سینٹر، ہوشیارپورآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ssgpurch.puchd.ac.in (Error: unknown archive URL)
- گرونانک دیو یونیورسٹی، امرتسر