پولیس میں خواتین یا نفاذ قانون میں خواتین (انگریزی: Women in law enforcement) کی ضرورت دنیا بھر میں محسوس کی گئی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اولًا یہ ہے کہ ہر پیشے میں مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ موجودگی کا جنسی مساوات کے اصول اور عورتوں کی نمائندگی کی وجہ سے راجح سمجھا گیا ہے۔ دوسری وجہ سے یہ ہے کئی خواتین خود کسی جرم کا شکار ہو سکتی ہیں۔ یہ گھریلو تشدد بھی ہو سکتا ہے اور اس کے آگے جنسی ہراسانی، جنسی بد اخلاقی اور آبرو ریزی کی حد تک سنگین ہو سکتا ہے۔ اس میں وہ شدید جسمانی تشدد کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں وہ بہ طور خاص خاتون پولیس اہل کار اور خواتین کے پولیس اسٹیشن پر اپنی شکایت بے جھجک سنا سکتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ان کا جسمانی معائنہ اور طبی معائنہ بھی خاتون افسروں کی موجودگی میں کیا جا سکتا ہے۔ تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار جرائم میں خود عورتیں ملوث پائی جاتی ہیں۔ وہ حراست یا قید میں رکھی جا سکتی ہیں۔ ایسے میں اگر وہ خاتون پولیس اہل کاروں کی نگرانی میں رہیں تو ان خواتین کی جنسی یا کوئی طرح کی غیر ضروری ہراسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔

ایک چینی پولیس اہل کار خاتون سڑک پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

حساسیت اور فعالیت

ترمیم

پاکستان کے ضلع پاکپتن میں عارف والا کے قریب قبولہ کے مقام پر ایک پانچ سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا۔ اس واقعے کی ابتدائی تفتیش کے بعد تحقیقات سب انسپکٹر کلثوم فاطمہ کے پاس پہنچیں۔وہ فخر سے بتاتی ہیں کہ 'اس واقعے کے ذمہ داران دو مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔' یہ واحد واقعہ نہیں۔ کلثوم فاطمہ گذشتہ تقریباً تین برس میں 200 سے زیادہ آبرو ریزی اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے مقدمات کی تحقیقات کر چکی ہیں، کیوں کہ وہ خود ایک خاتون ہیں۔[1]

برطانیہ جیسے مغربی ممالک پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں میں خیبر پختونخواہ جیسے پسماندہ علاقہ جات کو تعاون فراہم کررہا ہے ہیں تاکہ یہ صوبہ خواتین کی انصاف تک رسائی کو بہتر بناسکے اورخواتین کے مسائل پر مزید توجہ دے سکے اور اس میں خواتین پولیس اہل کار ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔[2]

اسی طرح سے بھارت اور کئی اور ملکوں میں خواتین میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم