عثمان علی شاہ بخاری
اس مضمون میں کئی امور غور طلب ہیں۔ براہِ مہربانی اسے حل کرنے میں ہماری مدد کریں یا ان امور پر گفتگو کے لیے تبادلہ خیال صفحہاستعمال کریں۔ (ان پیامی اور انتظامی سانچوں کو کب اور کیسے نکالا جائے)
(جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے)
|
پیرسید محمد اسماعیل شاہ بخاری، حضرت صاحب کرماں والے کے ایک صاحبزادے سید میر طیب علی شاہ بخاری(اول) اپنی کم عمری میں ہی وفات پاگئے جس کے بعد حضرت کرماں والے مغموم رہنے لگے۔ آپ کو مغموم اور پریشان دیکھ کر آپ کے مرشد حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نے فرمایا ”شاہ جی! فکر نہ کریں، رب کریم آپکو پہلے سے بہتر فرزند عنایت فرمائیں گے۔“چنانچہ سید عثمان علی شاہ بخاری، اُنکے مرشد میاں شیر محمد شرقپوری کی دعاؤں کا ثمر ہیں اور میاں شیر محمد شرقپوری نے ہی ان کا نام ”عثمان علی“رکھا۔
پیر سید عثمان علی شاہ بخاری | |
---|---|
بابا جی سرکار کرماں والےؒ | |
پیدائش | 1929ء کرموں والاضلع فیروز پور |
وفات | 15جولائی 1978ء گڑھی شاہو لاہور |
نسب | بخاری سید |
ولادت
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری کی ولادت سال 1929ء میں موضع کرموں والاضلع فیروز پور میں ہوئی۔ یہ گاؤں دریائے ستلج کے بائیں کنارے سے تھوڑے سے فاصلہ پر ریت کے ٹیلوں کے درمیان واقع ہے اور فیروز پور شہر(انڈیا) سے تقریبا ًپندرہ میل کی مسافت پر مشرق میں واقع ہے۔
نسب و خاندان
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری کا سلسلہ نسب سادات اُچ شریف حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے جا ملتا ہے اور یہ سلسلہ ترتالیس وا سطوں سے خلیفہ ء چہارم حضرت علی المرتضیٰ کر م ا للہ وجہ سے مل جاتا ہے۔ آپ کے آبا و اجداد سندھ سے سر زمین پنجاب میں آئے اور مختلف اوقات میں مختلف مقاما ت پر سکونت اختیار کرتے ہوئے آخر تیرھویں صدی ہجری کے شروع میں دریائے ستلج کے کنارے ضلع فیروز پور کی حدود میں آکر آباد ہو گئے آپ کے جد امجد سید سیدعلی شاہ المعروف سید سکندر علی شاہ اپنی خاندانی وجاہت اور پاکبازی کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور آپ کے والد پیر سید محمد اسمٰعیل شاہ بخاری المعروف حضرت کرماں والے کی وجہ سے اس خاندان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔
تعلیم و تربیت
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری نے ابتدائی تعلیم مولوی رحمت علی صاحب مرحوم سے حاصل کی جب کہ دیگر تمام علوم ظاہری و باطنی اپنے والد گرامی پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخاری حضرت کرماں والے سے حاصل کیے۔آپ نے شروع ہی سے ہر کام میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور لنگرکاانتظام، زمینوں کی دیکھ بھال، مریدین کے دیگر امور وغیرہ سب آپ کے سپرد تھے۔
ہجرت
ترمیمقیام پاکستان کے وقت پیر سید عثمان علی شاہ بخاری کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی۔ آپ موضع کرموں والا ضلع فیروز پور انڈیا سے ہجرت کرتے ہوئے براستہ قصور پہلے چک 57/E.B عارف والا اور اس کے بعد پاکپتن شریف عید گاہ میں اپنے والد پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخاری حضرت کرماں والے کے ساتھ رہے اور پھر اُن کے ساتھ ہی پکا چک (موجودہ گاؤں حضرت کرماں والا شریف) میں 1950 ء میں سکونت اختیار کی اور پھر تمام زندگی یہیں قیام کیا۔
حلیہ مبارک
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری کا رنگ گندمی اور قد دراز تھا۔ آپ کی پیشانی مبارک کشادہ اور بینی مبارک بلند تھی۔ آپ کا دہن اور دندان مبارک بہت خوشنما تھے آپ درخت کی تازہ شاخ سے مسواک کرتے تھے اور کھانے کے بعد خلال استعمال کرتے۔ خلال عموما ً نیم کے سرکنڈے کے ہوتے تھے جس کی کڑواہٹ سے دانتوں کو کیڑا نہیں لگتا۔ داڑھی زیادہ گھنی نہ تھی اور قدرتی طور پر ایک بالشت دو انگلی پر رک گئی تھی۔ آپ ہر جمعۃ المبارک کے دن لبوں کے بال کٹواتے تھے۔
خور و نوش
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری ہمیشہ سادہ غذا استعمال کرتے تھے کوئی خاص غذا مرغوب نہ تھی۔ گھر میں جو بھی پکتا بخوشی تناول کرتے۔ گندم کے موٹے آٹے کی روٹی سالن کے ساتھ پسند تھی۔ کھیرا اور ککڑی بھی کھانے میں پسند تھے۔دودھ پینا پسند تھا۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوتے اور مریدین کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھو کر کپڑے یا تولیہ سے صاف کرتے اور اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے مسنونہ پڑھتے۔اس کے بعد دانتوں میں خلال کرتے۔
لباس
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری سفید لباس پہننا پسند کرتے۔ گرمیوں میں عام ٹوپی اور سردیوں میں اونی ٹوپی استعمال کرتے۔ کہیں باہر جاتے تو پگڑی باندھتے۔ عموماً کرتا اور تہبند استعمال کرتے تھے لیکن ایک دو مرتبہ شلوار قمیص بھی زیب تن کی۔ چند مرتبہ شیر وانی بھی استعمال فرمائی۔ ایک سفید رومال بائیں کندھے پر ڈال لیا کرتے تھے۔ تہبند سفید لٹھے کا پسند کرتے مگر کبھی کبھی صوفیانہ رنگ دار لباس بھی استعمال کیا۔ ہمیشہ سادہ جوتا دیسی ساخت کا پہنتے اور سیاہ رنگ کا جوتا پہننا سخت ناگوار تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں سلیپر بھی استعمال کیا۔
معمولات و عبادات
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری صبح نماز فجر سے پہلے ہی گھر سے باہر آ کر متوسلین مریدین کو اپنے پاس بٹھا لیتے۔ سردی کے موسم میں آگ سینکتے۔ نماز کے وقت تمام مریدین کو جماعت سے نماز پڑھنے کی تاکید کرتے۔ دو پہر تک آنے والے سائلین کے مسائل غور سے سنتے اور ان کے حل کے لیے کوشش اور دعا کرتے کہ ”رب کریم فضل فرمادیں گے یا رب کریم مہربانی فرماویں“۔پھر گھر تشریف لے جاتے اور بعد از نماز ظہر دوبارہ تشریف لاتے اور ملاقات کے لیے آنے والوں سے ملتے۔
نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔نہ خود دکھاوا کرتے اور نہ دکھاوا پسند کرتے۔ بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح، بڑوں کے ساتھ مدبرانہ اور زمینداروں کے ساتھ زمینداری طور طریق استعمال کرتے۔ طبیعت اتنی سادہ کہ نہ جاننے والا شخص آپکوپہلی نظر میں ایک زمیندار ہی سمجھتا لیکن جب کسی ڈاکٹر، انجئنیر، دانشور یا اہل علم سے گفتگو کرتے تو دیکھنے سننے والے دنگ رہ جاتے۔
اخلاق کریمانہ
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری انتہائی خوش خلق اور خوش ذوق انسان تھے۔ اخلاق حمیدہ اور اوصاف کریمانہ کے مالک تھے۔ آپ سے جو شخص بھی ملنے آتا،نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے۔بچوں سے بہت محبت کرتے تھے، رات کے وقت بچوں کی کشتی کراتے تاکہ ان کی روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی تربیت بھی ہو سکے۔ نمود و نمائش اور ریا کاری سے سخت نفرت تھی۔ مجلس میں آپ کے آنے پر اگر کوئی تعظیم کے طور پر اٹھنے کا قصد کرتا تو فوری روک دیتے۔پیر سید عثمان علی شاہ بخاری کو خانہ کعبہ کی طرف تھوکنا یا پیشاب کرنا سخت ناپسند تھا اور اگر کسی کو ایسا کرتے دیکھتے تو اس کو روکتے۔ اپنے والد گرامی حضرت صاحب کرماں والے کی اتبداء میں ہر چیز کو قبلہ رخ رکھنے کی تاکید کرتے۔ کسی کی لغزش یا کوتاہی پر اس کا نام لے کر اصلاح نہ کرتے بلکہ عمومی طور پر لغزش کا بیان کر کے اصلاح کرتے۔رسول اکرم ﷺ کی بھی یہی سنت تھی۔اپنے مریدین / متوسلین سے ایسے اخلاق سے پیش آتے کہ جو کوئی ایک مرتبہ مل لیتا وہ گرویدہ ہو جاتا اوردوبارہ ملاقات کا متمنی رہتا۔ مولانا عبد الغفور صاحب (گھوڑے شاہ والے) نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہآپ کے پاس آیا تو ایک شخص کو کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھاجو بے باکانہ انداز اختیار کیے ہوئے تھا۔میرے دل میں خیال آیا کہ اتنے معزز آدمی کے پاس یہ شخص کس انداز میں بیٹھا ہے لیکن کچھ دن کے بعد مولانا موصوف کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہی شخض اب بڑے ہی باادب طریقے سے بیٹھا تھا۔
اساتذہ کا احترام
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اتفاق ہسپتال میں تھے اور آپ کا آپریشن ہوا تھا۔ خدمتگار کسی کو ملنے کی اجازت نہ دیتے کہ اس دوران آپ کے ایک استاذ حافظ احمد یار صاحب ملنے آئے۔ آپ اس وقت آرام کر رہے تھے مگر جب استاد صاحب کے آنے کا پتہ چلا تو فوراً ملنے کے لیے بلا لیااور دیر تک گفتگو کرتے رہے۔
عشق رسول کریم ﷺ
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری ہر وقت عشق رسول کریم ﷺ میں سرشار رہتے۔ جب رسول اللہﷺ کا نام سنتے تو ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں پر لگاتے اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتے۔ اکثر حضور نبی کریم ﷺکی مدح سرائی میں نعتیں سنتے رہتے اور اپنے قلب کو عشق رسول ﷺمیں گرماتے رہتے۔قصیدہ بردہ شریف کے اشعار بھی بہت پسند تھے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کا نعتیہ کلام بھی اکثر سنتے ایک مرتبہ ایک بیلی (مرید) سے کہا کہ مجھے قصیدہ بردہ شریف کے اشعار مولائی صلی و سلم دائماً ابداً پانچ سو مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے پلائے (کیونکہ طبیعت نہایت خراب تھی) اور ساتھ ہی تعداد کی گنتی پوری کرنے کے لیے ٹک ٹک کرنے والی چرخی بھی دے دی۔ وہ شخص آہستہ آہستہ یہ مصرع پڑھ کر پانی پر دم کرتا رہا۔ ایسا معلوم ہوتھا تھا کہآپ نیند میں ہیں۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے پوچھا کہ کیا گنتی پوری ہو گئی ہے؟اور وہ شخص بہت حیران ہوا کہ چرخی پر گنتی پوری ہو چکی تھی۔
وفات
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری کے والد گرامی پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخاری حضرت کرماں والے سال 1966ء میں وصال فرما گئے تو آپ نہایت مغموم اور کبیدہ خاطر رہنے لگے۔ بالآخر آپ بھی مورخہ 15جولائی 1978ء بمطابق 9شعبان 1298ہجری کو مختصر علالت کے بعد رحلت فرما گئے۔
اولاد
ترمیمپیر سید عثمان علی شاہ بخاری کی اہلیہ معروف بزرگ پیر سید نورالحسن شاہ بخاری، حضرت کیلیاں والے کی صاحبزادی تھی (جن کا وصال نومبر 2017ء میں ہوا تھا) اور پیر سید صمصام علی شاہ بخاری اور پیر سید میر طیب علی شاہ بخاری (جن کا وصال 15جنوری 2022ء میں ہوا) دونوں آپ کے صاحبزادے ہیں۔[1] [2][3]