(English: Peer Fazal Shah)پیر سید فضل شاہ بخاری(ولادت 1877ء—وفات 1966ء) 1877ء کے لگ بھگ موضع ملیار ضلع جہلم میں پیدا ہوائے۔ آپ کے والد اور والدہ بچپن میں ہی انتقال کر گئے ۔ والد سید گلاب شاہ نقوی البخاری کا سلسلہ نسب سید جلال شاہ بخاری المعروف سرخ پوش تک جاتا ہے۔ [1]کچھ عرصہ اسکول میں پڑھتے رہے پھر مولانا سید غلام حسین شاہ شیرازی آف کوٹلہ ضلع جہلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پیر فضل شاہ نے زندگی کے ابتدائی ایام اپنی پھپھو کے زیر سرپرستی گزارے۔1913ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے ایران و عراق کا بھی سفر کیا۔ آپ نے اپنے زیر اثر افراد کے بچوں کو دینی تعلیم کے لیے مدارس میں بھجوایا نیز ضلع سرگودھا میں کئی ایک مدارس کی بنیاد رکھی۔ آپ کی ہی تشویق پر دارلعلوم محمدیہ قائم ہوا۔ اسی طرح خوشاب اور بھلوال کے مدارس بھی آپ ہی کی تشویق پر قائم کیے گئے۔ آپ کا لکھنو کے علما سے خط کتابت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ آپ زندگی بھر مجرد رہے، آپ جہلم اور سرگودھا کے دیہاتوں میں تبلیغی دورہ جات کیا کرتے تھے۔ صاحب کرامت اور مجیب الدعوات بزرگ تھے۔ اگرچہ آپ پیر تھے تاہم ظاہری طور پر کسی سلسلے میں بیعت نہ تھے۔ آپ کے جمع کردہ فتاوی کو مولانا منور حسین نے ’’جامع الفتاوی‘‘کے نام سے شائع کروایا ہے۔

پیر فضل شاہ
پیر سید فضل شاہ موضع ملیار جہلم کے ایک اہل اللہ ہیں

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1877ء
تاریخ وفات 1966ء
والد سید گلاب شاہ نقوی
عملی زندگی
وجہ شہرت تبلیغ دین، اہل اللہ
شجرہ نسب
ترمیم

پیر سید فضل شاہ بن سید گلاب شاہ بن خیر یا شیر شاہ بن بادہکر شاہ بن احمد شاہ بن فتح شاہ بن کمال شاہ بن رسول شاہ بن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امام علی نقی علیہ السلام [2]

تبلیغاتی سفر

ترمیم
کرڑ کی جانب ہجرت
ترمیم

مہر سبحان بخش، بابا علی محمد ، حاجی محمد خان ، زوار فتح محمد ، سائیں یتیم علی وغیرہ کی استدعا پر پیر فضل شاہ ملیار سے ترک سکونت کرکے موضع کرڑ ضلع خوشاب چلے گئے۔ [3]پیر فضل شاہ نے اپنی تمام تر توجہ تبلیغ دین کی جانب مبذول کردی۔ آپ کا زیادہ وقت عبادت الہی اور خلق خدا کی خدمت میں گزرتا۔

چک 21 جنوبی کوٹ مومن آمد
ترمیم

باوا ناصر حسین شاہ شیرازی جن کا مزار پیر فضل شاہ بخاری کے ساتھ ہی واقع ہے کی دعوت پر آپ چک 21 جنوبی کوٹ مومن تشریف لائے اور یہاں زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کیا ۔ باواناصر شاہ اور پیر فضل شاہ میں اخوت مثالی تھی ،باوا ناصر شاہ کے پوتوں کے نام پیر فضل شاہ نے ہی رکھے۔باوا ناصر شاہ اور ان کے فرزند مولانا محمد علی شاہ نیز مولانا محمد علی شیرازی کی اولاد اس وقت بھی پیر فضل شاہ کی تعلیمات کو آگے بڑھانے کے لیے مصروف عمل ہے، علامہ سید سبطین شیرازی ہر سال پیر فضل شاہ کی برسی کی مناسبت سے ایک کانفرنس کا اہتمام کرتے ہیں۔

 
باوا ناصر شاہ شیرازی
اجنالہ ضلع سرگودھا ڈیرہ الحاج مہر سردار لک
ترمیم

پیر فضل شاہ بخاری تبلیغ کے سلسلے میں مہر سردار لگ کی دعوت پر اجنالہ سرگودھا میں بھی گئے ۔ پیر فضل شاہ بخاری کی تبلیغ اور مہر سردار لک کے خانوادے پر نظر کرم کی وجہ سے یہ خانوادہ آج بھی دین دوست خانوادہ ہے۔ اجنالہ ڈیرہ الحاج مہر سردار لک اہل کے لیے دعوت دین اور ہدایت کامرکز تھا جہاں پیر فضل شاہ بخاری مسلسل بیس یا پچیس برس تک فیض و برکات عام کرتے رہے۔ [4]پیر فضل شاہ کا معمول تھا کہ وہ سردیوں میں تو چک 21 جنوبی میں گزارتے تاہم گرمیوں میں ڈیرہ اجنالہ میں قیام کرتے۔

نظریات و عقائد

ترمیم

اگرچہ پیر فضل شاہ کے نظریات و عقائد کے حوالے سے الگ سے کوئی کتاب تو موجود نہیں ہے تاہم "جامع الفتاوی" اور ان سے بنفس نفیس ملاقات کرنے والے احباب نیز 21 چک کوٹ مومن میں بسنے والے ان کے خدمت گزار افراد کی گفتگو سے درج ذیل امور ظاہر ہوتے ہیں ۔ پیر فضل شاہ ایک اصولی شیعہ تھے ، آپ تقلید کے قائل تھے اور اپنے مریدین کو بھی تقلید کی ترغیب دیتے تھے۔پیر فضل شاہ اگر چہ پیر کے طور پر معروف تھے لیکن آپ کا وتیرہ عام پیروں سے بالکل مختلف تھا۔ آپ پابند شریعت تھے تاہم بعض مسائل میں شدت سے عمل کرتے تھے جن میں طہارت و نجاست، اکل حلال ، واجبات شرعیہ کی ادائیگی قابل ذکر ہیں ۔ ذکر اہل بیت ؑ کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا جانتے تھے اور مریدین کو تعویذ دھاگہ کرنے بجائے دعا دیا کرتے تھے ۔ جب بھی کوئی سائل آتا سب کو دعا میں شریک کرتے اور پابندی سے سائل کے لیے دعا کا اہتمام کرتے تھے ۔ تہجد گزار اہل اللہ تھے اور لوگوں میں ان کا تعارف مجیب الدعوات شخصیت کا تھا ۔ پنجاب کے عوام میں معروف تھا کہ آپ کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی ۔ پیر فضل شاہ کسی بھی صوفی سلسلے میں بیعت نہ تھے بلکہ تصوف کو درست نہ جانتے تھے ۔ ان کے چند ملفوظات حسب ذیل ہیں :

  • عرفان کا تعلق صوفیت سے نہیں، صوفیت گمراہی ہے، عرفان درا صل حکم شرعی کی پیروی ، احکامات الہی پر عمل درآمد اور تقوی الہی اختیار کرنے کا نام ہے۔
  • اللہ کی مخلوق کو الہی نظر سے دیکھنا اور خدا کو پانے کے لیے اس کی مخلوق کی خدمت کو شعار بنانا ہی رضائے الہی اور قرب خدا وند ی کا راستہ ہے۔
  • ریاکاری اور خودپسندی وہ زہر ہے جو تقوی کے تمام تر نشانات مٹا دیتی ہے اور انسان کے کیے ہوئے نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
  • اسلام دین فطرت ہے ، عبادات ، مناجات ، تسبیح و تقدیس اور اذکار اس منزل معرفت تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔
  • سنی سنائی بات پر ایمان لانے سے بچو کیونکہ اس میں اس شخص کا ناقص فہم دین اور غلط فہمی کی آمیزش کے امکانات ہوتے ہیں تحقیق کرو اور اپنے دور کے علمائے حق کی طرف رجوع کرو۔
  • مجالس امام حسین ؑ کو ریاکاری سے بچاؤ اور صاحبان منبر مطالعہ کرکے صحیح روایات لوگوں تک پہنچائیں۔
  • عزاداری مظلوم کربلا دین کو سمجھنے کا بہترین راستہ ہے۔اس راستے پر دنیا پرست آبیٹھیں گے، اس پاکیزہ مشن کا تقدس برقرار رکھنا عزادار مظلوم کربلا کا اولین فریضہ ہے۔
  • اجتہاد ، تقلید یا احتیاط دین حقہ کو سمجھنے کے تین راستے ہیں ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہی اتباع شریعت ہے۔
  • خود ساختہ افکار نے مذہب کو بہت نقصان پہنچایا ، میں نے دین کی حقیقی تاثیر کو عمل کے ذریعے محسوس کیا۔
  • غم حسین ؑ وہ آفاقی غم ہے جو زندہ دلوں کی تشکین روح ، بالیدگی کا باعث اور ظلم سے نفرت پیدا کرتا ہے۔

زہد و تقوی

ترمیم

پیر فضل شاہ ایک شب زندہ دار اور سادہ زیست انسان تھے۔ آپ کی سادہ زیستی کے حوالے سے کئی ایک واقعات معروف ہیں۔ آپ کے بارے معروف ہے کہ آپ کی عبادت دیکھ کر اصحاب پیغمبر اور اہل بیت اطہار ؑکے ساتھیوں کی عبادت یاد آجاتی تھی۔رجب و شعبان کے مستحب روزے بھی قضا نہ کرتے تھے۔اپنی محدود آمدن کے باوجود زکوۃ و خمس کا حساب رکھتے تھے۔ اکل حلال اور صدق مقال پر زور دیتے اور خود بھی اس پر عمل کرتے۔ دعا کا خصوصی اہتمام کرتے اور فوت شدگان اور ضرورت مندوں کے لیے مسلسل دعا کرتے، حتی وہ شخص خود آکر بتاتا کہ آپ کی دعا سے میری حاجت رفع ہو گئی ہے۔ لوگوں کو کہتے کہ مجھ سے دعا کا کہنے کی بجائے والدین کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔طہارت کا از حد اہتمام کرتے تھے، سردی اور گرمی میں دن میں دو مرتبہ ضرور غسل کرتے ۔ انگریزی ادویات اور معالجین سے اجتناب کرتے ،فقط بونگہ سادات کے پابند شریعت معالجینجن میں ڈاکٹر سید صادق شاہ ، ڈاکٹر عابد حسین شاہ، ڈاکٹر سید حسن علی شاہ ، ڈاکٹر حاذق نقی شاہ اور ڈاکٹرمظہر حسین شاہ ہیں سے علاج کرواتے۔

سید سبطین شیرازی جن کے گھر پیر فضل شاہ صاحب 21 چک کوٹ مومن میں رہے لکھتے ہیں :

سید محترم عشق الٰہی کے سمندر میں اس طرح غوطہ زن تھے کہ آپ پر اکثر و بیشتر حالت عبادت میں سکتہ اورخشیت الٰہی کی کیفیت طاری ہوجاتی، جسے عمومی نظر سے خوف خدا لیکن عرفانی نظر سے خالق کے حضور پیشی کی کیفیت کہا جائے تو موزوں ہوگا، نحیف آواز، نرم لب و لہجہ، نہایت احتیاط، شدید احساس، ذوقِ عبادت میں سرشار ،غذا میں اعتدال، پاک اور حلال غذا پر بہت زیادہ توجہ، بازار کی چیزوں سے مکمل پرہیز، عام گھروں کے پکے ہوئے کھانوں سے مکمل اجتناب ،بازاری کپڑا، بازاری جوتے، بازاری صابن اور دیگر روزمرہ کی بازاری اشیاء سے مکمل اجتناب آپ کا معمول تھا۔ ان بنیادی ضروریات کے لیے ایک خاص نظام موجود تھا جس کے تحت آپ کو لباس، غذا اورخوردونوش کی دیگر اشیاء مہیا کی جاتی تھیں۔جن میں کھڈی کا بنا ہوا مخصوص کپڑا، لکڑی کے بنے ہوئے جوتے، چینی کی جگہ شہد کا استعمال اور صابن کی جگہ بیسن کا استعمال آپ کے معمولات میں تھا آپ روحانیت کی اُس منزل پر فائز تھے کہ دل کے بھید اُن پر آشکار ہوتے اور ہونے والے واقعات سے وہ باخبر ہوتے۔ آپ عاشق رسولؐ و آل رسولؑ تھے۔ واقعہ کربلا بیان ہونے پر آپ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آجاتے۔ حضرت امام حسینؑ کی شہادت کو اسلام کی بقا اور دین کے وقار کا ذریعہ گردانتے تھے۔ آپ کا نظریہ تھا کہ عظیم شخصیات پر اجارہ داری اُن ہستیوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ آپ شخصیت پرستی کے سخت مخالف اورتوحید پرستی کے علم بردارتھے۔ آپ کا نظریہ تھا کہ عظیم شخصیات کے اہداف و مقاصد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے پیغام اور تبلیغ سے ہر مذہب و مسلک کے لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔[5]

علوم محمد و آل محمد کی ترویج

ترمیم

پیر فضل شاہ عام پیروں کے برعکس پابند شریعت ، علما سے محبت رکھنے والے اور علم و حکمت کو پسند کرنے والے انسان تھے آپ کی تبلیغات کے سبب بہت سے افراد علم دین کی جانب راغب ہوئے اور انھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں دین کی تبلیغ کی ۔ ان افراد میں ارسطو جاہ مولانا رجب علی خان جگرانوالی، سید العلماءسید شریف حسین بھاکری( یہ دونوں حضرات معروف عالم دین اور مبلغ سید باقر ہندی چکڑالوی کے اساتذہ ہیں)، مولانا غلام حسین شاہ شیرازی، مولانا فیض محمد مکھیالوی(مناظر و مبلغ)، مولوی سید شاہنواز ، مولانا غلام مہدی، مولوی سید کاظم حسین، مولوی عاشق حسین، مولانا نصیر حسین مجتہد، مولوی غلام قنبر، مولوی عطا محمد ، مولوی محمد حسین ساہیوال، مولوی منور حسین، مولوی سید علی شاہ ، مولوی سردار شاہ ، مولوی نذیر حسین ، مولوی غلام حیدر ، مولوی ذاکر حسین ، مولوی امداد حسین شیرازی ، سید محمد حسنین شاہ شیرازی ، سید ریاض حسین نقوی ، سید ظل حسنین ، غلام مختار ، نثار علی قابل ذکر ہیں۔[6]

دار العلوم محمدیہ
ترمیم

پیر فضل شاہ نے سرگودھا کے معروف دینی مرکز دارلعلوم محمدیہ کی بنیاد 1949میں سرگودھا کے رؤسا اور سر برا ٓوردہ افراد کے تعاون سے رکھی۔[7]

دار العلوم جعفریہ خوشاب
ترمیم

پیر فضل شاہ نے خوشاب شہر میں بونگہ سادات اور اہلیان سندرال کے تعاون سے 1954میں دارلعلوم جعفریہ قائم کیا [8]جو اس وقت مولانا ملک اعجاز حسین کے زیر سرپرستی کام کر رہا ہے ۔

بھلول میں مسجد و امام بارگاہ
ترمیم

بھلوال شہر جو اب ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل ہے میں پیرسید فضل شاہ نے مہاجرین کے لیے ایک مسجد و امامبارگاہ تیار کروائے جہاں بعد میں مدرسہ بھی قائم ہوا ۔ اس وقت اس مدرسے کا انتظام مولانا سید باقر شیرازی کے پاس ہے ۔ سید باقر شیرازی بھی پیر صاحب کے قریبی افراد میں سے ہیں۔

معمولات زندگی اور لوگوں سے میل جول

ترمیم

پیر فضل شاہ کا معمول تھا کہ سفر و حضر میں غسل کرکے نماز ظہر و عصر ادا کرتے، مغرب و عشاء کو سنتوں اور نوافل کے ساتھ ادا کرکے عبادت گاہ سے باہرآتے۔ماحضر کے بعد لوگوں سے ایک دو گھنٹے ملاقات کرتے اور پھر سو جاتے۔آخر شب میں غسل و طہارت سے فارغ ہو کر عبادت الہی میں مشغول ہوتے ۔ نماز تہجد ، تعقیبات ، نماز فجر کے بعد دن چڑھے اپنی عبادت گاہ سے باہر آتے۔اس وقت لوگوں سے ملاقات کرتے اور دعا کا سلسلہ جاری رہتا۔ظہر سے قبل تھوڑی دیر آرام کرتے اور دن کو باقاعدہ تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کرتے ۔ اس کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے آنے والے افراد سے ملتے اور تبلیغ و وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رہتا۔ان محافل میں فقہی مسائل بھی بیان ہوتے ، بچوں اور خواتین کے لیے الگ انتظام موجود ہوتا۔آپ تبلیغاتی سفر بھی کرتے تھے اس دوران آپ کا پڑاؤ چک 21، کرڑ، اجنالہ اور سرگودھا میں ہوتا۔[9]

مجرد زندگی
ترمیم

پیر فضل شاہ نے شادی نہ کی۔جامعہ الفتاوی کے مصنف مولانا منور حسین لکھتے ہیں کہ زندگی میں مجھے اس بارے میں سوال کرنے کا حوصلہ نہ ہوا ، بعد میں معلوم ہوا کہ پیر فضل شاہ جو پابند شریعت تھے اور دوسروں کو بھی پابندی شریعت کی تلقین کر تے تھے سے پوچھا جاتا کہ شادی جو شریعت میں مستحسن عمل ہے کے بارے آپ کا کیا کہنا ہے تو آپ کا متاسفانہ جواب ہوتا تھا کہ بوجہ شرعی مجبوری میں اس سعادت سے محروم ہوں۔مولانا منور کے خیال میں اس شرعی مجبوری سے مراد پیر صاحب کا عبادت میں استغراق ہے۔ [10]

سفر حج و زیارات
ترمیم

پیر فضل شاہ نے 1913ءمیں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور 1933ءمیں عتابات عالیہ کیا زیارات سے مشرف ہوئے ۔ اس سے قبل جوانی میں ایک مرتبہ زیارات مقامات مقدسہ کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ [11]

مکتب اہل بیت ؑ کی ترویج اور دفاع

ترمیم

پیر فضل شاہ نے اپنی پوری زندگی مکتب اہل بیت ؑ کی ترویج اور دفاع میں صرف کی ، آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں اہل بیت ؑ کا تذکرہ نہ ہو۔ آپ کے اطوار و کردار مکتب اہل بیت ؑ کی حقانیت پر زنددہ دلیل تھے ۔ مدارس ، مساجد اور امامبارگاہوں کا قیام ،طلبہ کو تعلیم دین کی جانب راغب کرنا ، محافل ذکر اہل بیت ؑ ، دعا غرض کہ ہر عمل سے محبت اہل بیت ؑ اور ترویج مذہبہ حقہ چھلکتی تھی۔آپ کا سب سے بڑا کارنامہ اس دور میں توضیع المسائل تشکیل دینا ہے جس دور میں اردو زبان میں توضیع المسائل دستیاب نہ تھی ۔ یہ توضیع المسائل اگرچہ کتابی صورت میں تو نہ تھی تاہم خطوط کی صورت میں پیر فضل شاہ کے پاس موجود تھی جس کی یقینا تنظیم کا اہتمام کیا گیا ہوگا ۔ انہی خطوط سے بعدہ مولانا منور حسین نے جامع الفتاوی ترتیب دی جو ایک ضخیم کتاب ہے۔

مدحِ صحابہ ایجی ٹیشن
ترمیم

1939ءمیں سواد اعظم کی عصبیت کے نتیجے میں لکھنؤ میں ہونے والی مدح صحابہ ایجی ٹیشن اور حکومت کی سیاسی حکمت عملی کے سبب برصغیر کے شیعہ ہر قربانی دینے کے لیے آمادہ ہو گئے ۔ پنجاب سے شیعہ پیر فضل شاہ کی تحریک پر ہی لکھنؤ کی اس تحریک میں شامل ہوئے ۔ پیر فضل شاہ بھی اس تحریک میں عملی طور پر شریک ہوئے۔1914ءمیں پیر فضل شاہ دوبارہ لکھنؤ گئے اور کچھ عرصہ وہاں قیام بھی کیا ۔[12]

مراجع سے روابط اور فکری دفاع
ترمیم

پیر فضل شاہ کامراجع سے مسلسل رابطہ رہتا تھا ، آپ شیعہ عقائد اور تعلیمات کے دفاع کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔لوگوں کی مختلف مسائل کے حوالے سے راہنمائی کرتے۔مراجع بھی آپ کی تعظیم کرتے ۔ ناصر الملت و الدین ناصر حسین مجتہد نے آپ کو عمدۃ الفضلا ء، زبدۃ الاتقیاء، زبدۃ المتقین ، سالک و مسالک التصدیق والعرفان ، واقف رموز المتین والعرفان کے القاب سے نوازا ۔ مفتی احمد علی نے آپ کو سلمان آل رسول ؐ کا لقب دیا ۔ [13]

آپ کے درج ذیل مراجع سے روابط تھے جن کے استفتائات کتاب جامع الفتاوی میں درج ہیں :

رحلت و مدفن

ترمیم

پیر فضل شاہ کا انتقال 23 اکتوبر 1966ء سرگودھا میں دوران علاج ہوا ، آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو فورا چک نمبر 21 جنوبی تحصیل بھلوال، ضلع سرگودھا منتقل کیا گیا۔آپ کے انتقال کی خبر ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی۔ المبلغ نے ان کی وفات پر خصوصی ضمیمہ شائع کیا ۔ پیر فضل شاہ کا جنازہ محمد حسین ڈھکو قبلہ مجتہد نے پڑھایا ۔ [14]

  1. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس لاہور۔ صفحہ: ۱۲ 
  2. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۵۳ 
  3. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس لاہور۔ صفحہ: ۱۸ 
  4. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۲۱ 
  5. سبطین شیرازی (۲۰۱۱)۔ پیر فضل شاہ ایک عہد ساز شخصیت ، ماہنامہ پیام۔ اسلام آباد: البصیرہ پبلیکشنز۔ صفحہ: ۵۱،۵۲ 
  6. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۳۲،۳۳ 
  7. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۳۸ 
  8. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۴۰ 
  9. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۴۲ 
  10. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۵۲ 
  11. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۳۲ 
  12. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۳۳ 
  13. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۴۷ 
  14. منور حسین (۱۹۷۵)۔ جامع الفتاوی۔ لاہور: القائم آرٹ پریس۔ صفحہ: ۴۹،۵۰