تحریک مدح صحابہ
مدحِ صحابہ ایجی ٹیشن بیسویں صدی کے پہلے نصف میں لکھنؤ کے دیوبندی مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی ایک سول نافرمانی کی تحریک تھی۔ اس کے نتیجے میں 1906ء تا 1909ء کے سالوں میں شیعہ سنی تنازع پیدا ہوا اور 1936ء تا 1939 ءکے دوران میں کانگریس اور مسلم لیگ میں اختلاف نمایاں ہونے پر دو آتشہ ہو کر پرتشدد ہو گیا۔ اس دوران میں دار العلوم دیوبند کے وسیع نیٹ ورک کی مدد سے یہ تنازع برطانوی ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گیا۔
مدحِ صحابہ ایجی ٹیشن | |
---|---|
بسلسلہ ضد شیعیت | |
مقام | |
مرتکبین | جمیعت علمائے ہند، مجلس احرار اسلام، دار العلوم دیوبند |
مقصد | فرقہ واریت، مسلم لیگ کی مخالفت |
پس منظر
ترمیمقرون وسطی کے سیکولر ہندوستان میں مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ مل کر محرم کا غم مناتے تھے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ہجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچے، لکھتے ہیں:۔
”سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے“[1]۔
کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔
”محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں۔ ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے“[2]۔
امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ ذاکرین کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[3]۔ الہ آباد میں سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[4]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[5]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انھوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [6]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم الشان نمائش کے ساتھ منایا جاتا تھا[7]۔ سیاحوں نے ہندوؤں کو ریاست اودھ میں سبز لباس میں حسین کے فقیر بنے دیکھا۔ ایک ہندی اخبار نے جولائی 1895ء میں خبر دی: ”محرم بنارس میں مکمل طور پہ امن و امان سے گذرا۔جب ہندؤ ہی سب سے زیادہ اس کے منانے والے تھے تو پھر خوف کیسا ہونا تھا؟“[8] مرہٹہ راجا شیو پرشاد نے ایک خصوصی تعزیہ بہانے کے لیے تیار کیا تھا۔ محرم کے دسویں روز، آدمی جتنا بلند قامت روشن کاغذوں سے بنا تعزیہ نما مقبرہ اور اور اس سے لٹکی زنجیریں جلوس میں دفنانے کے لیے لائی جاتی تھیں، مسلم خادم سوز خوانی کرتے، جبکہ شیو پرشاد اور اس کے بیٹے ننگے پاؤں اور ننگے سر احترام میں ان کے پیچھے چلتے تھے[9]۔
لکھنؤ کے شیعوں اور سنیوں کے مابین جھگڑوں کا آغاز سید احمد بریلوی نے کیا تھا، جب وہ اپنے بنیاد پرست خیالات کی تبلیغ کے لیے 1818ء سے 1820ء کے سالوں میں اودھ، بہار اور بنگال کے قصبوں کا دورہ کر رہے تھے۔ سید احمد نے بار بار تعزیوں کو تباہ کیا، اس کے نتیجے میں ہنگامے اور انتشار پیدا ہوئے۔ [10] باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:
”دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:
’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔
سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کاذکر کیا ہے۔“[11]
یہ میراث ان کے پیروکاروں، جو بعد میں دو نئے فرقوں یعنی دیوبندیوں اور اہلحدیث میں تقسیم ہو گئے، میں منتقل ہوئی۔ تاہم انیسویں صدی کے آخر تک سید احمد بریلوی کے پیروکار تعداد میں بہت کم تھے۔ مشیرالحسن کہتے ہیں:
” شیعہ سنی تعلقات فرقہ وارانہ خطوط پر قائم نہیں تھے۔ کچھ لوگوں نے فرقہ وارانہ تعصبات کو بڑھاوا دیا، لیکن اکثر لوگ شعوری طور پر سماجی اور ثقافتی طرز زندگی کی وسیع وحدت میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرتے تھے۔ علمائے کرام اور خطیبوں کی شعلہ بیانی کے قطع نظر، دوستی اور افہام و تفہیم کے بندھن برقرار تھے کیوں کہ شیعہ اور سنی کی زبان، ادب اور ثقافتی ورثہ ایک ہی تھا۔ شاید اسی لیے شررنے، اگرچہ ایک مبالغہ آمیزی کے ساتھ، لکھا کہ ”لکھنؤ میں کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ“۔[12]
البتہ جدید چھاپہ خانے کی ٹیکنالوجی، سیاسی اصلاحات اور ریلوے کی مدد سے سفر میں پیدا ہونے والی آسانی نے ایسی معاشرتی تبدیلیاں لائیں کہ سیاسی مقاصد رکھنے والے علما کے لیے اپنی باتیں لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا۔ مذہبی شناخت کو سیاسی رنگ دیا جانے لگا۔ ہندوؤں میں ہندتوا اور مسلمانوں میں علما کی خلافت کے نظریے کا پرچار ہونے لگا۔ مذہبی رہنماؤں نے اپنی معاشی اور سیاسی مدد کی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے لوگوں کوالگ الگ کرنا شروع کیا۔ [13]لکھنؤ میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان میں سنہ 1880ء اور 1890ء کی دہائی میں تصادم ہوا۔[14]
1908ء کے فسادات اور پیگوٹ کمیٹی
ترمیمبیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک شیعوں کے علاوہ سنیوں اور ہندوؤں کی اکثریت بھی محرم مناتی تھی۔ جدید طرز زندگی کے نتیجے میں محرم کی تقریبات میں ایسی چیزیں شامل کی گئیں کہ وہ غم کا تہوار نہ رہا اور ایک میلے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر سید احمد بریلوی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا عبد الشکور لکھنوی اور مرزا حیرت دہلوی جیسے علما نے شیعہ سنی خلیج میں اضافہ کر دیا۔ برطانوی گزٹ ان تبدیلیوں کے بارے میں لکھتا ہے:
”جلوس کے راستے پر کمائی کے لیے عارضی دکانیں اور ریڑھیاں لگنے لگیں۔ یہاں تفریحی سرگرمیوں کے لیے جھولے لگائے اورکرتب دکھائے جانے لگے۔ بظاہر دھندے والیاں بھی اس موقعے پر خیمے لگا کر گاہکوں کی تلاش میں بیٹھنے لگیں “۔ [15] ۔
دیوبندی عالم دین عبد الشکور لکھنوی نے چالاکی سے عاشورا کو یزید پر امام حسین کی اخلاقی فتح کے جشن کا نام دے دیا۔ انھوں نے سنیوں سے سیاہ کی بجائے سرخ یا پیلے رنگ کا لباس پہننے اور روایتی سیاہ پرچم کی بجائے سجے ہوئے چاریاری پرچم اٹھانے کو کہا۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے عین محرم میں مدحِ صحابہ کے عنوان سے عوامی جلسوں کا اہتمام کرنا شروع کیا جن میں امام حسین اور کربلا کی بجائے صحابہ کا ذکر کیا جاتا۔وہ چونکہ ایک مناظر تھے، لہٰذا اپنی تقریروں میں شیعہ عقائد کا تمسخر بھی اڑاتے۔ [16]
شیعوں نے لکھنؤ کے ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر میں شکایت درج کروائی کہ وہ محرم میں عزاداری کی بجائے جشن کی صورت حال پیدا کرنے والی چیزوں پر پابندی عائد کرے۔ لکھنؤ کی ضلعی انتظامیہ نے ان کے مطالبات کو قبول کیا اور سنہ 1906ء کے عاشورہ کے جلوس کے لیے سخت قوانین نافذ کر دیے گئے۔ مولانا عبد الشکور لکھنوی کے ساتھیوں نے ان نئے اصولوں پر اعتراض کیا اور ضلعی انتظامیہ نے سنیوں کے لیے نشاط گنج میں اپنے تعزیہ کو دفن کرنے کے لیے ایک علاحدہ جگہ مختص کر دی، جسے پھول کٹورا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ [15] تاہم انھوں نے نئے انداز کو جاری رکھا۔ ان کے جلوسوں میں چاریاری نظمیں اوربند پڑھے گئے اور اس سے شیعوں میں ناراضی پیدا ہو گئی۔ انھوں نے جواب میں تبرا کرنا شروع کر دیا۔ سنہ 1907ء اور 1908ء میں سنگین ہنگامے ہوئے، اس کے بعد اس معاملے کو دیکھنے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے ایک آئی سی ایس آفیسر اور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ٹی سی پیگوٹ کی سربراہی میں ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے معاملے کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ ” تعزیہ کے جلوسوں کو پہلے خلفاء کی مدح کے جلوسوں میں تبدیل کرنے کی کوشش ایک نئی بدعت تھی“۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ تین مواقع پر مدحِ صحابہ پڑھنے پر پابندی لگائی جائے، یعنی عشرہ محرم، چہلم امام حسین اور رمضان کی اکیسویں تاریخ کو یوم علی پر منظم انداز میں مدحِ صحابہ کی تقریب پر ممانعت ہونی چاہیے۔ حکومت نے کمیٹی کی رپورٹ کو قبول کیا اور اس کی سفارشات پر عمل درآمد کیا۔
1930ء کی دہائی میں مدح صحابہ ایجی ٹیشن
ترمیمتحریک خلافت کے دوران میں غلط فیصلوں کی وجہ سے سیاسی علما عوام میں اپنی حمایت کھو بیٹھے تھے اور مسلمان محمد علی جناح جیسے جدید ذہن رکھنے والے سیاست دانوں کی پیروی کرنے لگے تھے۔ 1931ء میں سیاست میں زندہ رہنے کے لیے دیوبندی علما نے ایک نئی جماعت، مجلس احرار اسلام، قائم کی۔ اس تنظیم کو سپاہ صحابہ پاکستان کا پیش رو سمجھا جا سکتا ہے۔انھوں نے کشمیر کمیٹی میں احمدی رہنما کی شمولیت کے خلاف تحریک چلا کر اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اگلے موقع کی تلاش میں تھے۔یہ موقع مولانا عبد الشکور لکھنوی نے فراہم کیا جو 1931ء میں لکھنؤ کے روایتی عزاداری کے جلوس کے راستے پر دارالمبلغین کے نام سے ایک مدرسہ قائم کر چکے تھے۔ مولانا عبد الشکور نے بہت ساری کتابیں اورپمفلٹ لکھے اور شیعہ علما سے بحث و مباحثہ کیا۔ چونکہ کاغذ کافی سستا اور چھپائی عام ہو چکی تھی، یہ تحریریں پورے برصغیر میں پھیل گئیں اور تشدد کے واقعات کا باعث بنیں۔ دھلی پالہ کہتے ہیں:
”1936ء میں مسئلے نے نئے ولولے سے سر اٹھایا جب دو سنی لڑکوں نے عاشورا کے دن احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر کے مرکز میں چاریاری پڑھ دی۔ انھیں گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ لیکن چہلم کے روز کچھ اور سنیوں نے چاریاری پڑھی اور چودہ لوگ گرفتار ہوئے۔ یہ لکھنؤ میں (دیوبندی) سنیوں کی نئی ایجی ٹیشن کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا، جس کا مقصد ان نظموں کو سرِ عام پڑھنا تھا اور جو بعد میں 'مدحِ صحابہ' ہنگامے کے نام سے جانی گئی۔“ [15]
حکومت نے آلسوپ کمیٹی مقرر کی جس نے پیگوٹ کمیٹی کے فیصلے کی تائید کی۔ آلسوپ کمیٹی کی رپورٹ مارچ 1938ء میں شائع ہوئی اور دیوبندی علما نے اسے مسترد کر دیا۔ مشیرالحسن کہتے ہیں:
”مئی – جون 1937ء میں فضا پرتشدد ہو گئی۔ لکھنؤ اور غازی پور میں مشتعل ہجوم دندنانے لگے۔ غازی پور میں فسادات جونپورسے آنے والی سنیوں کی ایک جماعت نے بھڑکائے۔ مشتعل ہجوم نے آگ جلائی اور لوٹ مار کی۔ انھوں نے جسے چاہا مار ڈالا۔ اب تک فرقہ وارانہ اختلافات دبے ہوئے تھے مگر پریشانی میں گھرے اس موسم گرما میں یہ فسادات میں بدل گئے اور لکھنویوں کی زندگی میں ایک معمول بن گئے۔ اگلے دو سالوں کے دوران مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، جسے لکھنؤ میں حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کے مدحِ صحابہ کے خلاف فیصلے نے ہوا دی۔ جہنم کا دروازہ کھل گیا۔ دیوبند کے مشہور مدرسے کے پرنسپل حسین احمد مدنی (1879ء–1957ء) پوری بے شرمی کے ساتھ جمعیت علمائے ہند کے دیگر رہنماؤں کو لے کر میدان میں کود پڑے۔ انھوں نے سول نافرمانی کی وکالت کی۔ ہزاروں افراد نے ان کی پکار پر دھیان دیا اور گرفتاری کے لیے پیش ہو گئے۔مدنی یوں تو سیکولر قوم پرستی کے پر جوش حامی اور دو قومی نظریے کے نقاد کے طور پر مشہور تھے، مگر انھوں نے بے رحمی سے فرقہ وارانہ جذبات کو اکسایا۔ انھوں نے 17 مارچ 1938ء کو لکھنؤ میں دارالمبلغین کے آتشیں سربراہ، مولوی عبد الشکور اور لکھنؤ میں مدح صحابہ کمیٹی کے سربراہ مولانا ظفرالملک کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔“ [12]
اپریل 1938ء میں، جب چہلم کا جلوس مدرسہ دارالمبلغین کے سامنے سے گذرا تو اس پر چھت سے اینٹیں برسائی گئیں، اس کے نتیجے میں دس شیعہ ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ [15] جدید پریس اور تیز تر مواصلات کی وجہ سے تنازع جلد ہی دوسرے شہروں میں بھی پھیل گیا۔ 1940ء میں دہلی میں عزاداری کے جلوس پر بم پھینکا گیا۔ 1940ء میں محرم کے دوران میں سیکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں ہولسٹر لکھتے ہیں:
” محرم میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان میں تنازعات معمول بن چکے ہیں۔ شہروں میں جلوس مقررہ راستوں پر پولیس کے ہمراہ چلتا ہے۔ محض ایک دن کی اخبارمیں چھپنے والی یہ سرخیاں معمولی بات نہیں ہیں۔ یہاں سے پتا چلتا ہے کہ اگر حکومت حالات کو قابو میں نہیں رکھے تو کیا ہو سکتا ہے:
'فسادات کو روکنے کے مناسب اقدامات'، 'محرم پرامن طور پر گذر گیا'، 'نا خوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے تمام دکانیں بند رہیں'، 'الہ آباد سے بیس میل دورمتعدد خواتین نے آخری جلوس کے سامنے دھرنا دے دیا ۔، انھیں اپنے کھیتوں سے جلوس کے گزرنے پر اعتراض تھا'، 'پولیس نے امن کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے بہت احتیاطی تدابیر اختیار کیں'، 'ایک مہندی کے جلوس پر پولیس کے لاٹھی چارج کے خلاف احتجاج کے طور پر آج محرم نہیں منایاگیا۔ کوئی تعزیہ جلوس نہیں نکالے گئے۔ ہندو اکثریت کے علاقوں میں معمول کے مطابق کاروبار کیا گیا '، ' جلوس پربم حملہ '۔
اگرچہ ان سب واقعات کے محرکات فرقہ وارانہ ہیں نہیں پائے جاتے ہیں، لیکن اکثر بلوے فرقہ وارانہ دشمنی سے ہی جنم لیتے ہیں۔ برڈ ووڈ کا کہنا ہے کہ بمبئی میں، جہاں محرم کے ابتدائی چار دن ایک دوسرے کے تعزیہ خانوں کی زیارت کے لیے وقف کیے جانے کا رواج ہے، خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ مرد بھی ایک دوسرے کے ہاں جاتے ہیں۔ اس بار پولیس نے سنیوں کو تعزیہ خانوں میں جانے سے روکا ہے تاکہ کوئی تصادم نہ ہو جائے۔“ [17]
جسٹس منیر اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں:
”انھوں نے کس طرح مسلم لیگ کو شکست دینے کے لیے اسلام کو ہتھیار بنایا، اس کا اندازہ مجلس احرار کے رہنما مولانا مظہر علی اظہر کے بیان سے ہوگا، جنھوں نے قائد اعظم کو کافر کہا تھا۔ یہ شریف آدمی خود کو شیعہ بھی کہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ مدحِ صحابہ کا ہنگامہ بھی اسے زندگی سے زیادہ عزیز ہے۔ لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات کے دوران میں اس نے اور اس کے بیٹے نے ایسے نعرے لگائے جو ہر شیعہ کے دل کو جلاتے ہیں آگ بھڑکتی ہے۔ یہ لاہور سے اٹھ کر لکھنؤ گیا تاکہ شیعہ سنی تصادم کی آگ کو اور ہوا دے۔ ان دنوں بھاٹی گیٹ کے باہر احرار کے جلسہ عام میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ پچھلے دو یا تین ماہ سے مسلم لیگ سے پوچھ رہا ہے کہ کیا پاکستان میں مدحِ صحابہ ہو گی، لیکن اسے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ چنانچہ اس نے الزام لگایا کہ کانگریس کے زیر انتظام صوبوں میں جہاں حکومت اب بھی انگریزوں کے ہاتھ میں ہے اور لیگ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، لیگ مدحِ صحابہ کی اجازت نہیں دے رہی۔ اس نے پوچھا کہ اگر اقتدار لیگ کو منتقل ہوا تو کیا ریاست لکھنؤ اور دیگر صوبوں کی طرح ہی ہوگی جہاں مسلمان اکثریت میں مدحِ صحابہ ایک جرم ہوگا۔ آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے استفسار کیا کہ اگر (عاشورا کے دن) حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی مدح لکھنؤ اور محمود آباد میں نہیں کی جا سکتی تو لیگ کے پاکستان میں کیا حالت ہوگی اور اس طرح کے پاکستان میں مسلمانوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ (ملاحظہ کیجیے 20 نومبر 1945ء کا شہباز)۔2 نومبر 1945ء کے اپنے شمارے میں 'نوائے وقت' نے اسی آدمی کا احرار کے ایک اور رہنما کے نام لکھا گیا خط شائع کیا۔ چونکہ اس خط کی صحت پر سوال اٹھایا گیا تھا، ہم نے اس کے بارے میں مولانا مظہر علی اظہر سے پوچھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے یقینی طور پر یاد نہیں کہ اس نے یہ خط لکھا تھا یا نہیں۔ لیکن چونکہ یہ خط لاہور کے ایک ناموراخبار میں شائع ہوا تھا اوراس کی طرف سے اس کی تردید نہیں کی گئی تھی، اس لیے ہمارے پاس یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ یہ خط اس نے خود ہی لکھا تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ مولانا صاحب کہ جو ان دنوں ایک مشہور رہنما تھے، اس خط کی اشاعت سے آگاہ ہی نہ ہوئے ہوں۔ اور اگر انھوں نے اس کی تردید نہیں کی تواس کا واحد سبب یہی ہو سکتا ہے کہ اصل خط نوائے وقت کے پاس تھا جو وقت آنے پر اس کو بطور ثبوت پیش کر سکتے تھے۔ اس خط کا موضوع ایک بار پھر مدحِ صحابہ کا ہنگامہ ہے اور یہاں ہم اس بات کو دہرانا چاہیں گے کہ مولانا خود شیعہ ہیں۔ اس خط میں مولانا کا کہنا ہے کہ مدحِ صحابہ کا ہتھیار لیگ کے خلاف موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، لیگ اور حکومت دونوں کو اس معاملے پر ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ مولانا کے اس طرز عمل سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ احرار اور دوسری مذہبی جماعتیں کس طرح آسانی سے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو استعمال کرسکتی ہیں۔“ [18]
مدحِ صحابہ سے سپاہ صحابہ تک
ترمیم3 ستمبر 1939ء کو برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اس کے فورا بعد ہی وائسرائے ہند لنلتھگو نے اس کی پیروی کی اور اعلان کیا کہ ہندوستان بھی جرمنی سے لڑ رہا ہے۔ [19] 1939ء میں کانگریس نے برطانوی ہندوستان کی ان تمام حکومتوں سے استعفا دے دیا جو 1937ء کے انتخابات کے بعد ملی تھیں۔ 1940ء کی دہائی میں جناح ہندوستانی مسلمانوں کے واحد رہنما کے طور پر ابھرے اورانہیں قائد اعظم کا لقب دیا گیا۔ اس تازہ پیشرفت اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کے بارے میں ہونے والی بحث نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں مسلمان اپنے تنازعات کو دفن کرنے اور اہم امور پر توجہ دینے پر مجبور ہو گئے۔ 1944ء میں دیوبندی علما نے شیعہ عقائد و رسوم پر حملہ کرنے کے لیے تنظیم اہلسنت کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کی، تاکہ جمعیت علمائے ہند کو بدنامی سے بچایا جائے اور ان کا سیکولر غلاف مذہبی ہنگاموں سے پیدا ہونے والے تضاد سے محفوظ رہے۔ [20] 1947ء کے بعد، مولانا عبد الشکور لکھنوی اور مولانا حسین احمد مدنی کے بہت سے شاگردپاکستان ہجرت کر گئے اور یا تو وہاں مدارس کا قیام عمل میں لایا یا تنظیم اہل سنت اور جمعیت علمائے اسلام کا حصہ بن گئے جسے مولانا شبیر احمد عثمانی نے 1945ء میں مسلم لیگ کے متبادل کے طور پر قائم کیا تھا۔ انھوں نے شیعوں کے خلاف کتابیں اور رسالے چھاپنے کے علاوہ ملک کے طول و عرض کا سفر کیا اور شیعہ جلوسوں پر حملے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
1949ء میں نارووال میں محرم کے جلوس پر حملہ ہوا۔ 1951ء کے پنجاب اسمبلی انتخابات میں شیعہ امیدواروں کو ووٹ ڈالنا ممنوع قرار دیا گیا اور انھیں کافر کہا گیا۔ 1955ء میں پنجاب میں 25 مقامات پر ماتمی جلوسوں پر حملہ کیا گیا۔ اسی سال، کراچی میں ایک بلتی امام بارگاہ پر ہجوم نے حملہ کیا اور بارہ افراد شدید زخمی ہوئے۔ [21] 1957ء میں مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں محرم کے جلوس پر حملہ ہوا جس میں تین عزادار ہلاک ہو گئے۔ اسی سال احمد پور شرقی میں ماتمی جلوس پر اینٹیں اور پتھر پھینکنے سے ایک شخص ہلاک اور تین دیگر شدید زخمی ہو گئے۔ جون 1958 میں بھکر میں شیعہ خطیب آغا محسن کو قتل کیا گیا۔ [22]
تین جون 1963ء کو متعدد مقامات پر عزاداری کی مجلس اور جلوسوں پر حملے ہوئے- ان میں سب سے زیادہ افسوسناک واقعہ سانحۂ ٹھیری ہے جس میں 118 عزاداروں کو کلہاڑوں اور چڑیوں سے ذبح کر کے امام بارگاہ کو آگ لگا دی گئی۔یہ واقعہ صوبہ سندھ کے ضلع خیر پور کے نواہی گاؤں ٹھیری میں پیش آیا۔ [23] اسی دن بھاٹی گیٹ لاہورمیں ماتمی جلوس پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا، جس میں دوعزادار ہلاک اور ایک سو کے قریب زخمی ہوئے۔ نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی سوگواروں پر حملہ کیا گیا۔ [24]
1969ء میں جھنگ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ 26فروری 1972ء کو ڈیرہ غازی خان میں جلوس عزا پر پتھراؤ کیا گیا۔ مئی 1973ء میں شیخوپورہ کے محلہ گوبند گڑھ میں شیعہ گھروں پر ہجوم نے یلغار کی۔ اس سال پاراچنار اور گلگت میں بھی مسلح افراد نے شیعہ آبادیوں پر حملہ کیا۔ 1974ء میں گلگت میں دوبارہ شیعہ دیہاتوں پر دیوبندیوں کی جانب سے حملہ ہوا۔ جنوری 1975ء میں کراچی، لاہور، چکوال اور گلگت میں شیعوں کے جلوسوں پر حملہ ہوا۔ لاہور کے علاقے بابو صابو میں مجلس عزا پر دہشت گردوں کے حملے میں تین شیعہ قتل اور ایک زخمی ہوا۔[25]جب جولائی 1977ء میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم، فروری 1978ء میں لاہور میں 8 جبکہ کراچی میں 14 شیعہ قتل ہوئے۔[26][27]
1984ء میں مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد کچھ عرصہ ”تنظیم اہلسنت“ کو”سواد اعظم“ پکارا گیا اور اس کی سرپرستی مولانا سمیع الحق اور مولانا سلیم اللہ خان نے کی۔ 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں ”انجمن سپاہ صحابہ“ کے نئے نام سے سامنے آئی۔کچھ سالوں بعداس کا نام بدل کر ”سپاہ صحابہ پاکستان“ رکھ دیا گیا۔
مزید دیکھیے
ترمیم- ضد شیعیت
- کشمیری شیعوں کی نسل کشی
- سانحۂ ٹھیری
- ہزارہ کا قتل عام
- سید احمد بریلوی
- سپاہ صحابہ پاکستان
- لشکر جھنگوی
حوالہ جات
ترمیم- ↑ محمد بلخی، بحر الاسرار، مرتبہ ریاض الاسلام، کراچی، 1980،ص 7-10
- ↑ ڈاکٹر مبارک علی، "جہانگیر کا ہندوستان"، صفحہ 87، تاریخ پبلیکیشنز لاہور (2016)۔
- ↑ Cole, "Roots of North Indian Shiísm"، pp. 105
- ↑ C.A. Bayly, The Local Roots of Indian Politics-Allahabad, 1880–1920 (Oxford, 1975)، p. 81;
- ↑ W. Crooke, "The North-Western Provinces of India: their History ، Ethnology, and Administration"، p. 263
- ↑ Cole, "Roots of North Indian Shiísm"، pp. 116-7
- ↑ P.D. REEVES (ed.)، Sleeman in Oudh: An Abridgement of W.H. Sleeman' s Journey Through the Kingdom of Oude in 1849–50 (Cambridge, 1971)، pp. 158-9
- ↑ Nita Kumar The Artisans of Bañaras: Popular Culture and Identity 1880–1986 (Princeton New Jersey, 1988)، p. 216.
- ↑ Attia Hosain. Phoenix Fled (Ruper Paperbacks. 1993)۔ p. 176
- ↑ Andreas Rieck, "The Shia's of Pakistan"، p. 16, Oxford University Press (2016)۔
- ↑ B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900"، p. 58, Princeton University Press ۔(1982)۔
- ^ ا ب Mushirul Hasan, "Traditional Rites and Contested Meanings: Sectarian Strife in Colonial Lucknow"، Economic and Political Weekly, Vol. 31, No. 9, pp. 543 – 550, (1996)۔
- ↑ B. D. Metcalf and T. R. Metcalf, “A Concise History of Modern India”، p. 123, Cambridge (2012)۔
- ↑ Mushirul Hasan, "Traditional Rites and Contested Meanings: Sectarian Strife in Colonial Lucknow"، Economic and Political Weekly, Vol. 31, No. 9, pp. 543 – 550, (1996)۔
- ^ ا ب پ ت Venkat Dhulipala, "Rallying the Qaum: The Muslim League in the United Provinces, 1937–1939"، Modern Asian Studies, Vol 44(3)، pp. 603–640, (2010)۔
- ↑ Justin Jones, "Shi'a Islam in Colonial India: Religion, Community and Sectarianism"، pp. 102–103, Cambridge University Press, (2012)۔
- ↑ J. N. Hollister, "The Shi’a of India"، p. 178, Luzac and Co, London, (1953)
- ↑ Justice Munir, "Report of the court inquiry constituted under Punjab act II of 1954 to enquire into the Punjab disturbances of 1953"، pp. 254–255, (1954)۔
- ↑ Bolitho، Hector (1960) [First published 1954]۔ Jinnah: Creator of Pakistan۔ London: John Murray۔ ص 123۔ OCLC:14143745
- ↑ A. Rieck, "The Shias of Pakistan"، p. 47, Oxford University Press, (2015)۔
- ↑ A. Rieck, "The Shias of Pakistan"، pp. 88–90, Oxford University Press, (2015)۔
- ↑ A. Rieck, "The Shias of Pakistan"، pp. 94–97, Oxford University Press, (2015)۔
- ↑ Eamon Murphy (18 اکتوبر 2018)۔ Islam and Sectarian Violence in Pakistan: The Terror Within۔ Taylor & Francis۔ ص 100–۔ ISBN:978-1-351-70961-3۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-06-09
- ↑ A. Rieck, "The Shias of Pakistan"، pp. 110–111, Oxford University Press, (2015)۔
- ↑ A. Rieck, "The Shias of Pakistan"، pp. 181– 184, Oxford University Press, (2015)۔
- ↑ Kunwar Khuldune Shahid, Shiaphobia آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ thefridaytimes.com (Error: unknown archive URL)، The Friday Times, اپریل 04-10 ، 2014 – Vol. XXVI, No. 08
- ↑ Rabia Ali, "Shia-Sunni conflict: One man's faith is another man's funeral"۔ The Express Tribune۔ 10 فروری 2013.