صفحہ ماڈیول:Coordinates/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔35°36′N 74°39′E / 35.600°N 74.650°E / 35.600; 74.650

این-35
Karakoram Highway
شاہراہ قراقرم
Route information
Part of AH4 ایشین ہائی وے نیٹ ورک 4
Maintained by نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور محکمہ نقل و حمل سنکیانگ (چین)
Length1,300 کلومیٹر (800 میل)
پاکستان: 887 کلومیٹر (551 میل)
چین: 413 کلومیٹر (257 میل)
Existed1966–present
Historyتکمیل 1979، عوامی افتتاح 1986
Major junctions
شمالی endچین کا پرچم کاشغر، شنجیانگ، چین
چین نیشنل ہائی وے 314 (درہ خنجراب–کاشغر–ارومچی)
چین کا پرچمپاکستان کا پرچم درہ خنجراب
Major intersections35 قومی شاہراہ 35
N-15 قومی شاہراہ 15
جنوبی endپاکستان کا پرچم حسن ابدال، پنجاب، پاکستان
Location
Countryپاکستان
Major citiesہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، بشام، پتن، کوہستان، داسو, چلاس، گلگت، علی آباد، ہنزہ، گلمیت، سوست، تاشقورغان، Upal، کاشغر
Highway system
شاہراہ قراقرم
چینی نام
سادہ چینی 喀喇昆仑公路
اردو نام
اردو شاہراہ قراقرم
śāharāha qarāqaram
شاہراہ قراقرم

شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔

یہ بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دے دی۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔
شاہراہ ریشم کا وجود انسانی تخلیقی ہنر کا ایک ادنیٰ سا منظر ہے۔ معروف حیثیت میں اباسین یعنی دریائے سندھ جسے آریاؤں نے سندھو کہا ، چین والوں نے اسے چام لوہو کہا ،فارس کے دارا اعظم نے اسے بدو کا نام دیا، سکندر اعظم مقدونی نے اس دریا کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے یونانی زبان کے تلفظ میں اسے سندوس کہا، لاطینی میں اسے سندس کہا گیا، عربوں نے اس دریا کے جلال و جمال کی آمیزش کو محسوس کرتے ہوئے اسے بحرالذھب کے نام سے پکارا یعنی سونا اگلنے والا دریا۔ دیگر مسلمان مؤرخین و جغرافیہ دانوں نے اس کے پانی کی نیلی رنگت کا پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نیلاب کہا، لداخ کے باشندوں نے اسے سانگ پو کہا تبت کے لوگوں نے اسے سنگ کہا جبکہ کئی لوگوں نے اسے سدرہ یا سوہدرہ بھی کہنا شروع کر دیا ۔ غرض کہ اس دریا کو جس جس قوم و وطن کے لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں جو بھی نام دیا اس کی قدامت و عظمت اور بساط و شوکت کے اظہار میں کوئی بخل نہ برتا اور یہ دریا متعدد دانشوروں اور شعرا کے ادبی مجموعوں کی بھی زینت بنتا رہا۔ پشتو زبان کے اس اباسین یعنی دریاؤں کے باپ کی سطح ساحل پر بنائی جانے والی شاہراہ کبھی دریا کے دائیں اور کبھی بائیں ساحل پر ایک فنکار رقاصہ کی طرح یو ںرقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

شاہراہ قراقرم کا افتتاح ترمیم

شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لیے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑ گیا تھا۔ جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہو گیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا

راستے ترمیم

شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جس کا 887 کلومیٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ،ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ،بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔

اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اس کی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جو سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اس کو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اس کو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپ کا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے.

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم