چیرامن مسجد
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔ |
چیرامان جامع مسجد مٹھالہ یہ کوڈنگلور تلک ، ترشور ضلع ، ریاست کیرالا ، بھارت میں واقع ہے۔[1][2][3]ایک روایت کے مطابق یہ 629 ء میں تعمیر ہوئی[4] ، چنانچہ اسے ہندستان کی پہلی اور برصغیر کی قدیم ترین مسجد بھی تصور کی جاتی ہے [5][6][7]– اسے کابل سے تعلق رکھنے والے آزاد کردہ فارسی غلام اورمشہور تابعی حضرت مالک بن دینارؒ نے چیرمن پرومل کے حکم سے تعمیر کرایا ۔[8][9][10][11]اُس زمانے کے کیرلائی فنِ تعمیر پر یہ مسجد بنائی گئی۔ جو چیرا بادشاہ تھا آج کل جس علاقے کو کیرالہ کہا جاتا ہے-اس مسجد کے بارے میں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ یہ 11ویں صدی میں دوبارہ تعمیرکی گئی- بہت سے نو مسلم یہیں سے اسلام میں باقاعدہ شمولیت اور کلمہ پڑھائی یہیں پر کرتے ہیں چیرامان جامع مسجد بھارت کی پہلی جامع مسجد ہے۔[12][13] بھارت میں پہلی نمازِ جمعہ یہیں ادا کی گئی۔
چیرامان جامع مسجد | |
---|---|
تجدید کردہ چیرامان جامع مسجد | |
بنیادی معلومات | |
متناسقات | 10°13′12″N 76°11′38″E / 10.22°N 76.194°E |
مذہبی انتساب | اسلام |
ضلع | ترشور |
ریاست | کیرالا |
ملک | بھارت |
مذہبی یا تنظیمی حالت | مسجد |
تعمیراتی تفصیلات | |
طرز تعمیر | قدیم کیرالائی فنِ تعمیر |
سنہ تکمیل | 629 عیسوی |
لمبائی | 61 میٹر (200 فٹ) |
چوڑائی | 24 میٹر (79 فٹ) |
حکایت و تاریخ
ترمیمحکایت کے مطابق چیرامن پرومل(چیرامان پرومل چیرا بادشاہوں کا لقب ہوا کرتا تھا) نے شق القمر (چاندکے دو ٹکڑے ہوتے ) دیکھا ، وہ معجزہ رسول ﷺ دیکھا جس کا ذکر قرآن [14]میں بھی ہے ، جب مکہ کے مشرکوں نے آپ ؐ سے معجزہ طلب کیا تھا - ششدر یرامن پرومل نے اس واقعے کی اپنے نجومیوں سے تصدیق کی ، لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا مطلب کیا تھا- عرب تاجراس وقت کی سرگرم عالمی بندرگاہ ملابار پہنچے تھے اور بادشاہ کے دربار میں سیلون جانے کی اجازت لینے آئے، گفتگو کے دوران بادشاہ کو نبی ؐ کے بارے میں علم ہوا، اس نے اپنے بیٹے کو والی تخت بنا کر عرب تاجروں کیساتھ خود نبی ؐ سے ملنے گیا-[15]جب وہ ادرک کا اچار لیکرخدمتِ نبی ؐ و صحابہ ؓ میں حجاز پہنچا تو قبول اسلام کیا-[16] [17]چیرامن پرومل نے مشہور تابعی حضرت مالک بن دینارؒ کو خط دیکر کوڈنگلور اپنے بیٹے کے پاس بھیجا اور بدھمندر کو مسجد بنانے کی ہدایت کی- چیرامن پرومل کی مناسبت سے اس مسجد کا نام چیرامن مسجد پڑا۔اس زبانی حکایت میں بہت تغیر پایا جاتا ہے ، یہ بھی حکایت ہے کہ چیرمن پرومل مالدیپ کے بادشاہ کی زیارت کے دوران چاند کے ٹکڑے ہونے کی گفتگو کی ، دونوں نے مکہ جاکرحقیقت جاننے کی ٹھانی- کیرلا کے سماجی مؤرخ سیونندامندیرام نرائن سداسویین کا ماننا ہے چیرامن پرومل اس ساری حکایت سے کوئی تعلق ہی نہیں، چاند کو دیکھنے والااصل مالدیپ کا بادشاہ تھا، جس کے شہر مالی کو ملابار سمجھا جاتا رہا-[18] تاہم مالی مالدیپ کا شہر نہیں وہ تو فریقی ملک ہے مالدیپ کا شہر تو مالے ہے-بھارتی مؤرخ متائل گووندامینن سنکارا نرائن کہتے ہیں ایسی کوئی وجہ نہیں کہ چیرا بادشاہ کے مکہ جاکر قبول اسلام کی حکایت کو ردکیا جائے،کیونکہ یہ نہ صرف مسلم سرگزشتوں میں ملتی ہے بلکہ براہمن سرگزشتوں میں بھی ایسا ملا جسے کیرالولپتی[1] ، جس سے ایسی کہانی گھڑنے کی کوئی امیدنہیں اور نہ یہ ایسا کرنے سے برہمن اور ہندوؤں کی شہرت بڑھاتی ہے- [19][20]
طرزِ تعمیر
ترمیمقدیم کیرالائی فنِ تعمیر پر اس مسجد تعمیر کی گئی۔ اس لیے صورت میں موجودہ مساجد کی شکل نہ تھی۔ گیارہویں صدی ء میں مسجد تعمیرِنو کی گئی۔مسجد کی تعمیراتی تاریخ کو بہت سے مروڑ دئے گئے، کیونکہ یہ بدھمندر تھا تو اس کو اسلامی مطابقت دینا تھی، حتی کہ 1000ء میں از سر نو تعمیر کیا گیا کیونکہ مسجد کا رخ کعبہ سے ہٹ کر مشرقی جانب تھا، اب بھی مسجد میں بدھ مندر کی کچھ باقیات ہیں جیسا کہ روایتی تالاب اور چراغ جو ہزار سال سے مستقل جل رہا ہے جس میں ہر مذہب کے یاتری اور زائرین تیل ڈالتے ہیں -[21]
تقاریب
ترمیمودیارمبھم
ترمیمودیارمبھم (ودیا معنی علم رمبھم معنی ابتدا) ہندو تقریب دسہرہ میں یہ تقریب ہوتی ہے ،جو اپنے بچوں کی کسی پنڈت وغیرہ زیرسرپرستی ہندو سکھلائی کی ابتدا کروانے کے لیے کی جاتی ہے- چیرامن مسجد میں یہ تقریب مسلمان امام کرواتا ہے ، ریت میں بنے حروف کو بچے کی زبان پر ہاتھ سے نقش بناتا ہے ، جو سرسوتی دیوی (علم کی دیوی)سے دعا کی صورت ہے
تراونکور کا مہراجہ
ترمیممکہتوپیہ پیرومل ، مکہ جانے والے بادشاہ کی حکایت کیرالہ میں زندہ رہی، 1947ء سے قبل اس علاقے تراونکور کے مہراجے حلف یوں لیتے تھے " میں یہ تلوار اس وقت تک رکھوں گا جب تک مکہ جانے والا واپس نہ آجائے"[22]
نامور زائرین
ترمیم- بھارتی صدر عبد الکلام[23]
- ششی تھرور[24]
نگار خانہ
ترمیم-
قدیم عمارت کا ماڈل
بیرونی روابط
ترمیم- ↑ "Oldest Indian mosque sets new precedent"
- ↑ "1400-year-old mosque to be restored to its original form"
- ↑ Kerala Tourism - Official Website Cheraman Juma Mosque آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ keralatourism.org (Error: unknown archive URL)
- ↑ Ron Geaves (2017)۔ Islam and Britain: Muslim Mission in an Age of Empire۔ Bloomsbury۔ صفحہ: 6۔ ISBN 978-1-4742-7175-2
- ↑ "INTERVIEW"۔ www.iosworld.org۔ 04 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
- ↑ "Mosque in Kerala dates back to the Prophet's time"
- ↑ "Tinkering with the past"
- ↑
- ↑ "Cheraman Juma Masjid: A 1,000-year-old lamp burns in this mosque"
- ↑ "Solomon To Cheraman"
- ↑ "'Cheraman Juma Masjid': The first mosque of India, built in 629"
- ↑ "World's second oldest mosque is in India"۔ Bahrain tribune۔ 06 جولائی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2006
- ↑ "Cheraman Juma Masjid A Secular Heritage"۔ 26 جولائی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2012
- ↑ "Surah Al-Qamar [54:1]"۔ Surah Al-Qamar [54:1] (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
- ↑ Haseena V. A. (2015)۔ "Historical Aspects of the Legend of Cheraman Perumal of Kodungallur in Kerala"۔ The International Institute for Science, Technology and Education۔ 17 – iiste.org سے
- ↑ "The Kerala king who embraced Islam"۔ Arab News (بزبان انگریزی)۔ 2012-02-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
- ↑ "The Syncretic Treasure of India's Oldest Mosque | Madras Courier"۔ Madras Courier (بزبان انگریزی)۔ 2017-05-26۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
- ↑ S. N. Sadasivan (2000)۔ A Social History of India (بزبان انگریزی)۔ APH Publishing۔ ISBN 9788176481700
- ↑ Narayanan M. G. S. (1996)۔ Perumals of Kerala: Political and Social Conditions of Kerala Under the Cēra Perumals of Makotai (c. 800 A.D.-1124 A.D.)۔ Kerala (India): Xavier Press۔ صفحہ: 65
- ↑ Husain Raṇṭattāṇi (2007)۔ Mappila Muslims: A Study on Society and Anti Colonial Struggles (بزبان انگریزی)۔ Other Books۔ ISBN 9788190388788
- ↑ "Cheraman Juma Masjid: A 1,000-year-old lamp burns in this mosque - Times of India"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
- ↑ Nathan Katz (2000-11-18)۔ Who Are the Jews of India? (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ ISBN 9780520213234
- ↑ "The Hindu : Kerala News : President visits oldest mosque in sub-continent"۔ www.thehindu.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
- ↑ "Shashi Tharoor on Twitter"۔ Twitter (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018
http://www.bahraintribune.com/ArticleDetail.asp?CategoryId=4&ArticleId=49332آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bahraintribune.com (Error: unknown archive URL)