کائنات یا گیتی کی تعریف سادہ الفاظ میں تو یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ سب کچھ جو موجود ہے وہی کائنات ہے۔ اور بنیادی طور پر دو ہی چیزیں ہیں جو موجود کے دائرے میں آتی ہیں 1- مادہ اور 2- توانائی، لہذا کائنات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمام مادے اور توانائی کو ملا کر مشترکہ طور پر کائنات کہا جاتا ہے۔ گو عموما کائنات سے مراد اجرام فلکی اور ان کے مابین موجود فضائیں اور ان کے مربوط نظام لی جاتی ہے جو قدرت کی طرف سے بنائے گئے ہیں مگر درحقیقت کائنات میں وہ سب کچھ ہی شامل ہے جو موجود ہے۔ بعض اوقات اس لفظ کا استعمال انسانی حیات اور اس سے متعلقہ چیزوں کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور یہاں بھی اس سے مراد ہر موجود شے کی ہوتی ہے، یہاں تک کہ انسانی تجربات اور خود انسان بھی اس دائرے میں آجاتے ہیں۔

علم الکائنات کی تعریف کے مطابق کائنات کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ : کائنات؛ ذرات (particles) اور توانائی کی تمام موجودہ اقسام اور زمان و مکاں (space time) کا وہ مجموعہ جس میں تمام عوامل و واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کائنات کے قابل مشاہدہ حصوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے شواہد کی مدد سے طبیعیات داں اس کل زمان و مکاں اور اس میں موجود مادے اور توانائی اور اس میں رونما واقعات کے کل مجموعے کو ایک واحد نظام کے تحت تصور کرتے ہوئے اس کی تشریح کے لیے ریاضیاتی مثیل (mathematical model) کو استعمال کرتے ہیں۔

ہمہ کائناتی نظریہ ترمیم

 
Depiction of a متعدد کائناتیں of seven "bubble" universes , which are separate زمان و مکاں continua, each having different physical laws, physical constants, and perhaps even different numbers of بُعدs or وضعیت.

چند نظریات ایسے بھی ہیں جو یہ انکشاف کرتے ہیں کہ ہماری کائنات صرف ایک کائنات نہیں ہے بلکہ سات کائناتوں کا ایک دستہ ہے جس کو ہمہ کائنات یا کثیر کائنات کہا گیا۔ اس دستہ (سیٹ) میں ہر کائنات ایک بلبہ (آبگینہ) کی طرح ہے اور ہر بلبہ ایک اپنی ہیئت اور نوعیت رکھتا ہے اور ایک دوسرے سے جداگانہ طور پر وجود رکھتا ہے۔ یہ نطریہ موجودہ نظریہ سے مختلف اور چلینج کرنے والا ہے .[1][2][3]

آغاز ترمیم

آغاز کائنات کے بارے میں دنیا میں ہر زمانے مختلف اور متضاد نظریے ہیں۔ اس دنیا میں لا تعداد مذاہب کے نظریات بھی شامل ہیں اور فلسفیوں کے نظریات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سائنسی نظریات بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ سب کائنات کی تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی یہ کائنات عدم سے وجود میں آئی اور پہلے کچھ نہیں تھا۔ خدا نے چاہا کہ وہ جانا جائے، چنانچہ اس نے کائنات کی تخلیق کی۔ اس نے کہا ہوجا اور کائنات وجود میں آگئی۔ زمین اور آسمان سات دن میں تخلیق ہوئے۔ ایسے بہت سے نظریات ہیں جن کا ماحاصل یہ ہے کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں یہ بحثیں بھی شامل ہیں کہ کائنات میں خدا جاری و ساری ہے، وہ روح کائنات ہے یا اس سے ماورا۔ اسلامی تصورات کے مطابق خدا کائنات سے وراہ الورا ہے۔ لیکن فلسفہ وحدت الوجود نے اس دوئی کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔

بعض دیو مالاؤں میں زمین کو ازل سے تسلیم کیا گیا ہے، گو زندگی کی تخلیق کا تصور بھی اس کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ سائنس بھی ابھی تک کائنات کے کسی بھی حتمی نظریے کا مادی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے۔ ابتدا سائنس کے لے ے ابھی تک حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ ماضی کی جستجو جہاں تک بھی انسانی تحقیق ممکنہ طور پر پہنچی ہے بہر کائنات موجود ہے۔

سائنسی نظریہ ترمیم

کائنات خود کیا ہے؟ اس کی حدود ثفور ہیں یا یہ لامحدود ہے؟ آیا اس کا کوئی آغاز و انجام ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے بارے ہمارا علم کہاں تک جاتا ہے اور اگر نہیں ہے اس کی ازلیت و ابدیت کو سائنس کے کن اصولوں کے تحت ثابت کریں گے؟ اس سلسلے میں جدید فلکیات کا کاسمولوجی میں دو متضاد سائنسی نظریے پیش کیے گئے ہیں۔ ایک عظیم دھماکے بگ بینگ کا نظریہ اور دوسرا یکسانی حالت کا نظریہ۔ یکسانی حالت کے نظریے کے تحت کائنات ہمیشہ سے یکساں حالت میں ہے، جس میں مادہ کی اوسط گنجانی فاصلے یا وقت کے فرق سے گھٹتی بڑھتی نہیں بلکہ یکساں رہتی ہے۔ مادہ خلا میں مسلسل پیدا ہو رہا ہے۔ گو کہ اجرام فلکی دور سے دور جا رہے ہیں اور کائنات پھیل رہی ہے۔ اس نظریہ پر جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعہ اعتراضات ہو چکے ہیں کہ اس کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر نہیں رہی ہے۔

عظیم دھماکا ’ بگ بینگ ‘ کے نظریہ کے مطابق پہلے کائنات کا تمام مادہ ایک انتہائی گنجان نقطہ (ایٹم) میں مرکوز تھا، جو آج سے دس بارہ سے لے کر بیس ارب سال پہلے کسی وقت ایک اعظیم دھماکے سے پھٹ گیا۔ جس سے مادہ ہر سمت بکھرنا شروع ہو گیا۔ تب سے کائنات پھیل رہی ہے۔ جس وقت دھماکا ہوا اسے کائناتی وقت کا ’ لمحہ صفر ‘ شمار کیا جاتا ہے اور تب سے کائنات پھیل رہی ہے۔ آہستہ آہستہ اس موجود گرم مادہ کم گنجان ہوتا گیا اور ٹھنڈا بھی۔ اس نظریہ کے کائناتی مفکرین نے کائناتی ادوار بھی بتائے ہیں، جن میں کائنات کے رویے کی تاریخ رقم و مرتب کرنے کی کوشش کی ہے اور اجرام فلکی کی پیڑھیاں بنائی ہیں۔ ایک دور میں اجرامِ فلکی کی ایک نسل پروان چڑھی، عمر طبعی گزاری اور ختم ہو گئی، پھر دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اور یہ عمل مسلسل ہوتا رہا۔

عظیم دھماکے ’ بگ بینگ ‘ کا نظریہ سب سے پہلے 1930میں پیش کیا گیا تھا۔ اب تک اس پر دنیا بھر میں تحقیق ہو چکی ہے اور ان تحقیقات سے بھی اس نظریہ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوا۔ لیکن اس پر جو اعترض کیے گئے۔ ان کے ہر اعتراض کے جواب میں مزید تحقیقات نے ایسی سچائیوں سے پردہ اٹھایا کہ سے یہ نظریہ مزید مستحکم ہوتاگیا۔ اگر یہ نظریہ سائنسی طور پر یکسر غلط ہوتا تو اب تک کی ہزار پہلو تحقیق سے اس کی بے شمار حماقتیں سامنے آجانی چاہے۔ جب کہ اس کے برعکس ہوا یہ کہ اس کے مقدمات کو درست مان کر ہونے والی تحقیقات نے فلکی طبعی علوم کے مختلف شعبوں نے میں نئی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے اور اس کی تائید مزید کی ہے۔ یہی وجہ ہے آغاز کائنات کے بارے میں اب تک یہی نظریہ سب سے بہتر تسلیم کیا گیا ہے۔ کائنات کی عمر کے بارے میں تازہ ترین تحقیقات میں 90 ارب سال کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بات حروف آخر کی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ کائنات کے عناصر ترکیبی میں بڑی چیزیں ، کہکشاں، ستاروں کے وسیع و عریض سلسلے، ستاروں کے گروہ اور نیبولے ( ستاروں کے درمیان گرد اور گیس کے بادل جو مادی ذرات پر مشتمل ہیں) ہیں۔یہ عناصرِ ترکیبی کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ نظام شمسی، سیاروں کے گروہ، سیٹلائٹ، دم دار ستارے اور شہاب ثاقب جو کسی جرم فلکی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ان چھوٹے عناصر کا محل و قوع لاکھوں کروڑوں کہکشاؤں کے درمیان کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ان اجسام کے علاوہ کائنات میں کئی میدان ہائے ثقل اور کئی شعائیں اور تابکاریاں بھی ہیں، یعنی توانائی کی مختلف شکلیں بھی ہیں۔

عظیم دھماکے کے فوراً بعد کائنات میں فقط توانائی کی لہریں تھیں۔ جوں جوں یہ لہریں پھیلتی گئیں ان کی مرتکز تابکار توانائی مادے میں تبدیل ہو گئی۔ یہ مادہ پہلے شاید باریک بخارات کی شکل میں خلائے بسیط میں لامتناہی پھیلا ہوا تھا۔ پھر یہ سکڑتا گیا اور مرغولوں میں تقسیم ہو گیا۔ سکڑاؤ کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی۔ یہ نرم مرغولے بعد میں ٹھوس شکل اختیار کرکے اجرام فلکی بن گئے ۔

گو کائنات لامحدود ہے۔ لیکن آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے مطابق کائنات کا مخصوص حجم ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی کنارہ ہے، جس کے باہر کائنات نہیں ہے۔ بلکہ کچھ اور ہے۔ حقیقتاً ایسا تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ جہاں آپ کائنات کی کوئی حد تسلیم کریں گے، یقیقناً وہاں سے کوئی اور چیز شروع ہو جائے گی۔ یہ کوئی اور چیز کائنات کا حصہ کیوں نہ تسلیم کیا جائے۔ گو لامتناہی کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جدولیات کا بنیادی اصول ہے کہ لامحدود محدود میں تبدیل ہو جاتا ہے اور محدود لامحدود میں۔ لہذا صداقت تک پہنچنے کے لیے آپ کائنات کو لامحدود سمجھتے ہوئے بھی اسے مخصوص اور متعین تسلیم کریں گے۔ آئن اسٹائن کے مطابق خلا بذات خود خمدار ہے۔ خلا ایک سہ العبادی دائرہ ہے، جس میں کوئی سا بھی ممکنہ خط مستقیم چلتے ہوئے آخر کار اپنے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہ کائنات ہر لمحہ یا پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے ۔

آئن اسٹائن بعض مقدمات میں عینیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ کائنات کا قطر ساڑھے تین بلین ارب ( پینتیس ارب ) نوری سال ہے۔ جدولیاتی نقطہ نظر رکھنے والے سائنسی مفکرین نے اس موقف پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس پیمائش سے کائنات کو محدود تسلیم کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ایک حد ہے۔ اگر اس کی حد ہے تو اس کی سرحدوں کے باہر کچھ اور ہے۔ دوسرے لفظوں میں تعین پسندی، محدودیت اور جبریت کے آگے سر تسلیم کیا گیا ہے اور جبر و اختیار کی جدولیات سے آنکھیں چرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

اس نظریہ کی تشریح کرنے والے بعض خیال پرست سائنس دانوں نے ’ تباہئ عظمیٰ ‘ کے انجام کی پیشن گوئی بھی کی ہے اور یہ بھی پیشن گوئی بھی کی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا۔ اور معکوس عمل (reverse process) شروع ہو جائے گا یعنی پھر جو سمٹاؤ شروع ہوگا تو اس کا انجام اسی جہنم کے نقطہ پر ہوگا، جہاں ساری کائنات جل کر فنا ہو جائے گی۔ اس بعد وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ دوبارہ یہ عمل شروع ہوگا کہ نہیں ۔

ایک دوسری خیال آرائی یہ بھی ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ ایسی انتہاؤں کو چھولے گا، جس میں تمام مادہ سرد ہو کر یخ بستہ ہو جائے گا۔ اس یخ میں تمام زندگی ختم ہو جائے گی۔ اسی کے قریب قریب فنا کا ایک تصور بھی ہے جسے ’ مرگ حرارت ‘ کے نظریہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق چونکہ حرارت گرم سے ٹھنڈے جسموں کی طرف سفر کرتی ہے۔ لہذا ایک وقت ایسا آئے گا کہ کائنات میں حراری حرکت کا توازن وقوع پزیر ہو جائے گا۔ اس لمحے ہر حرکت فوراً ختم ہو جائے گی۔ وہی کائنات کا نقطۂ فنائی ہوگا ۔

جدولیاتی نکتہ نظر ترمیم

کائنات کے بارے میں انسانی علم ارتقا پر بنیاد رکھتے ہوئے جدلیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کا بحیثیت مجموعی کوئی آغاز و انجام، کوئی ارتقا یا کوئی اس کی حدود نہیں ہے۔ یہ زمان اور مکان دونوں کے حوالے سے لامتناہی ہے۔ لیکن اس کی لامتناہیت اس کی متناہیت کے ساتھ جدولیاتی رشتہ رکھتی ہے۔ یعنی کائنات کی مختلف مادی اشکال اپنا آغاز و انجام، ارتقا اور حدود رکھتی ہے۔ ان سائنس دانوں نے مغربی فلکیات کے جواب میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ مختصر یہ ہے۔

مکان کے حوالے سے کائنات لامحدود ہے۔ یعنی کائنات کی کوئی آخری حد، کوئی سرحد اور کوئی کنارہ نہیں ہے، جہاں ہم کہیں کہ کائنات ختم ہو گئی ہو۔ یہ لامحدود ہے، لیکن یہ لامحدودیت اپنے طور پر آزادانہ محدود چیزوں سے ماوراء قائم بالذات، اپنا وجود نہیں رکھ سکتی ہے۔ لامحدودیت اور محدودیت دونوں مل کر وحدت اضداد کی تکمیل کرتے ہیں۔ محدود لامحدودیت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور لامحدودیت محدودیت میں۔ کائنات کے لامحدود اور محدود ہونے کے جتنے بھی نظریہ اب تک بیان کیے گئے ہیں۔ نیوٹن کے کلاسیکی تصورِ کائنات سے جدید فلکیات تک کوئی سا بھی کائنات کی محدودیت اور لامحدودیت کی رہنمائی نہیں کرتا ہے۔ نتیجتاً یہ تمام نظریات بالآخر ما بعد الطبیعیات اور عینیت میں پناہ یتے ہیں۔

وقت کے حوالے سے بھی کائنات لامحدود ہے، لامتناہی ہے۔ کائنات میں مادہ لامتناہی طور پر مصروف ارتقا ہے۔ بحیثیت مجموعی کائنات کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ بے حرکت کا نظریہ باطل ہے۔ کائنات کے بارے میں علم انسانی کی ترقی بدرجہ اتم یہ ظاہر کرتی ہے کہ کائنات جن اضداد کی وحدت ہے، وہ ہیں مطلق لامتناہیت اور اضافی محدودیت۔ انہی ضدین کے اجتماع سے کائنات کی جدولیات متشکل ہوئی ہے ۔

کائنات کیا ہے ترمیم

کائنات ابدی اور مادی دنیا کا نام ہے۔ مکان کے حوالے سے اس کا پہلوئے کبریٰ یہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر اربوں اور کھربوں دوسری کہکشائیں ہیں اور اسی لحاظ سے کائنات بے حدود و ثفور ہے۔ اس کی کوئی سرحد، کوئی کنارہ، کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ پہلوئے صغیر یہ ہے کہ ذرات کے اندر ایٹم ہیں، ایٹم کے اندر عنصری جز کا ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے۔ اس کی تقسیم در تقسیم کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور بے انتہا ہے۔ اس پہلو کا کوئی آخری سرا، کوئی کنارہ، کوئی آخری حد نہیں ہے ۔

زمان (وقت) کے اعتبار سے کائنات کتنے بھی بعید سے بعید میں چلے جائیں، اس کے پیچھے ایک لامتناہی اور مستقبل میں کتنا ہی آگے چلے جائیں، جہاں رکیں گے وہاں سے آگے لامتناہی مستقبل ہے۔ وقت کا کوئی آغاز ہے اور کوئی انجام نہیں۔ مادے کی ہر صورت اور حرکت کی ہر شکل ہر معروضی وجود کائنات میں شامل ہے۔ مادے کی ہر صورت اور حرکت کی ہر شکل اور ہر معروضی وجود کائنات میں شامل ہے۔ کائنات سے باہر موجود ہونے کا کوئی طریقہ، کوئی رستہ نہیں ہے۔ یہ ازبس ناممکن ہے ۔

کائنات سے باہر کچھ نہیں، کائنات ہر شے پر حاوی ہے، کائنات ہی کل ہے۔ بعض مغربی سائنسدانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ کائنات سے باہر ایک ضد کائنات ہے۔ جو ضد مادہ پر مشتمل ہے۔ دراصل جس چیز کو سائنس دان ضد مادہ کہہ رہے ہیں وہ مادہ ہی کی مخصوص شکل ہے۔ اس کی اندرونی ساخت ایسی ہے جو اس مادے سے مختلف ہے، جس کو ہماری سائنس کچھ سمجھ سکی ہے اور جس کی مزید پرکھ میں سائنس مصروف کار ہے۔ یقیناً کائنات میں ایسی مادی صورتیں اپنا معروضی وجود رکھتی ہیں، جو ہمارے جانے پہنچانے سے مختلف ہیں۔ یہ چیز خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مادہ لامتناہی طور پر قابل تقسیم ہے۔ اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل کہیں نہیں رک سکتا ہے۔ اس کا کوئی انجام، کوئی حد، کوئی آخری کنارہ نہیں۔ اگر کوئی ایسے اجرام فلکی موجود ہیں جو ضد مادے پر مشتمل ہیں تو یہ سب اجرام فلکی بھی کائنات کا حصہ ہی ہیں۔ یہ کائنات سے باہر کسی نام نہاد ضد کائنات کا حصہ نہیں۔

کائنات لامتناہی زمان اور لامتناہی مکان کی وحدت پر مشتمل ہے، کائنات کے بارے میں انسانی علم ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور نہ کبھی اپنے عروج پر پہنچے گا۔ انسان کا کائناتی علم جتنا بھی بڑھتا جائے گا اتناہی لامختم رہے گا۔ مغرب کی نام نہاد فلکیات عینیت پرستی کے زیر اثر ہے اور اس کا زاویہ نگاہ مابعد الطبیعیاتی ہے۔

فنایت ترمیم

مغربی ماہرین فلکیات یہ باور کرتے ہیں کہ کائنات کا فوری طور پر بھی کوئی نقطہ آغاز ہے اور اس کا من حیث المجموع بھی ایک سلسلہ ارتقا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک نظریہ عظیم دھماکا ( بگ بینگ ) کا ہم یعنی کائنات ایک ’ ماقبل کائنات ایٹم ‘ یا ’ ماقبل آتشیں گولے ‘ کے ایک عظیم دھماکے سے پھٹ جانے سے وجود میں آئی۔ دھماکے سے قدیم مادہ ہر سمت بکھر گیا، وہی کائنات ہے۔ چونکہ دھماکا سے مادہ بکھر گیا تو وہ یقیناً مسلسل پھیل رہا ہے۔ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یقینا یہ محدود کناروں میں بند کائنات ہے جس کے کنارے پھیل رہے ہیں۔ اگر یہ آغاز رکھتی ہے تو اس کا انجام، یوم فنا بھی یقینا ضرور ہوگا۔ مغربی سائنسدانوں نے اس یوم فنا کی بھی پیش گوئی کی ہے۔ حراری حرکیات کے دوسرے قانون کو بنیاد بنا کر وہ مرگِ حرارت کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ حرارت گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ یوں پوری کائنات جو اپنی سرحدوں میں بند ہے ایک روز حراری حرکیات کے توازن کو پالے گی اور کل کائنات ایک جامد تالاب میں بدل جائے گی، جس میں تبدیلی کے سب امکانات ختم ہوجائیں گے۔ ایسا ہی دن کائنات کا آخری دن فنا کا دن ہوگا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Munitz MK (1959)۔ "One Universe or Many?"۔ Journal of the History of Ideas۔ 12 (2): 231–255۔ JSTOR 2707516۔ doi:10.2307/2707516 
  2. Misner, Thorne and Wheeler, p. 753.