البرٹ آئنسٹائن

جرمن نژاد ماہر طبیعیات اور نظریہ اضافیت کا بانی
(آئن اسٹائن سے رجوع مکرر)

البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein)، بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتا ہے۔ [45] جرمنی کے شہر اولم میں 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہوا۔ باپ کا نام ہرمین (Hermann Einstein) اور ماں کا نام پالین (Pauline Koch) تھا۔

البرٹ آئنسٹائن
(جرمنی میں: Albert Einstein ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 14 مارچ 1879ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولم [8][2][9][10][11]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 اپریل 1955ء (76 سال)[1][9][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پرنسٹن [12][13][9][11]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن قومی عجا‏‏ئب گھر برائے صحت و طب   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت [14]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش میونخ
پرنسٹن
شافہاوزن (ستمبر 1901–جنوری 1902)  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت جرمن سلطنت (14 مارچ 1879–28 جنوری 1896)[15][16]
بے وطنی (28 جنوری 1896–21 فروری 1901)[17]
سویٹزرلینڈ (21 فروری 1901–)[11]
جمہوریہ وایمار (1918–1933)[18]
جرمنی (30 جنوری 1933–28 مارچ 1933)[19][11]
ریاستہائے متحدہ امریکا (1 اکتوبر 1940–)[15]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب لامعرفت [20]،  یہودیت [21]،  عقیدۂ وحدت الوجود [22]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جرمن ڈیموکریٹک پارٹی (–1933)  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن رائل سوسائٹی ،  سائنس کی پروشیائی اکیڈمی ،  جرمن سائنس اکیڈمی آف سائنسز لیوپولڈینا ،  امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی ،  باوارین اکیڈمی آف سائنس اینڈ ہیومنٹیز ،  اکیڈمی آف سائنس سویت یونین ،  فرانسیسی اکادمی برائے سائنس ،  رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز ،  رائل نیدرلینڈ اگیڈمی برائے سائنس اور فنون ،  امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون ،  انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی ،  قومی اکادمی برائے سائنس ،  قومی اکادمی برائے سائنس   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ پڑھنے کی اہلیت میں کمی   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ملیوا مارِک (16 جنوری 1903–14 فروری 1919)[11]
ایلسا آئن سٹائن (1919–20 دسمبر 1936)[11]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد
والد ہرمین آئن سٹائن   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ پالین کوش   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
ماجا آئن سٹائن   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
پروفیسر   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آغاز منصب
1911 
عملی زندگی
مقام_تدریس سانچہ:Indented plainlist
مقالات Eine neue Bestimmung der Moleküldimensionen (A New Determination of Molecular Dimensions)
مادر علمی جامعہ زیورخ (–30 اپریل 1905)[23]  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم طبیعیات   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ڈاکٹریٹ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری مشیر Alfred Kleiner
استاذ Heinrich Friedrich Weber
پیشہ نظریاتی طبیعیات دان ،  موجد ،  سائنسی مصنف ،  ماہر تعلیم ،  استاد جامعہ [24]،  طبیعیات دان [25][26][27][28][11]،  فلسفی [29][30][27]،  مصنف [31][32]،  سائنس دان [33][11]،  ریاضی دان [34][35][27]،  پروفیسر [36]،  امن پسند [11]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان جرمن   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [37]،  جرمن [38]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل نظری طبیعیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ چارلس ،  جامعہ زیورخ [39]،  جامعہ پرنسٹن [40]،  جامعہ لیڈن ،  جامعہ برن ،  جامعہ ہومبولت ،  سائنس کی پروشیائی اکیڈمی ،  انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈی ،  جامعہ لیڈن [24]،  برن ،  جامعہ کیلیفورنیا، برکلے   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں اضافیت مخصوصہ ،  عمومی اضافیت ،  ضیا برقی اثر ،  نظریۂ اضافیت ،  E=mc2 ،  پلانک کا مستقلہ ،  آئنسٹائن میدانی مساواتیں ،  مقداریہ آلاتیات   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر فیودر دوستوئیفسکی ،  سپینوزا ،  موہن داس گاندھی ،  شوپنہائر ،  ہنڈرک لورنٹز ،  جارج برنارڈ شا ،  آئزک نیوٹن ،  ریاض الدین ،  ڈیوڈ ہیوم ،  برنہارڈ ریمان ،  جیمز کلیرک ماکسویل ،  کارل پیرسن   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
فرینکلن میڈل (1935)
تمغا میکس پلانک (1929)
کاپلی میڈل (1925)[41]
میٹوسی میڈل (1921)
 نوبل انعام برائے طبیعیات   (1921)[42][43]
 پور لی میرٹ
 آرڈر آف میرٹ فار آرٹس اینڈ سائنس   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نامزدگیاں
دستخط
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

آئنسٹائن کا خاندان جرمنی کے خوش حال یہودی النسل خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ باپ کاروباری تھا مگر زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ جب آئنسٹائن چھ برس کا تھا، یہ لوگ میونخ آ گئے۔ ابتدائی تعلیم ایک کاتھولک مدرسہ میں پائی۔ یہاں کا سخت ماحول اس بچے کو ناگوار گزرتا تھا۔ سن 1894ء میں آئنسٹائن کو بورڈنگ مدرسہ میں پیچھے چھوڑ کر، اس کا باپ کاروباری وجوہات کی بنا پر خاندان سمیت اٹلی منتقل ہو گیا۔ دسمبر 1894ء میں سولہ سال کی عمر میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئنسٹائن (غالباً جرمن کی لازمی فوجی سروس کے خوف سے ) خود بھی اٹلی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر سن 1896ء میں اس نے جرمن شہریت چھوڑ دی۔ اکتوبر 1895ء میں سویٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقعہ یونیوسٹی ETH کے داخلہ کا امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ استاد نے مشورہ دیا کہ وہ اسکول کی تعلیم مکمل کرے، چنانچہ سویٹزرلینڈ کے شہر آراو Aarau کے ایک اسکول میں پڑھائی کی۔ یہاں جس گھر میں قیام تھا، اس کے مالک کی بیٹی میری Marie سے شناسائی ہوئی۔ اگلے سال ETH کا داخلہ امتحان پاس کر لیا۔ اب اس نے ETH میں پڑھائی شروع کردی۔ وہ اسکول استاد بننے کی پڑھائی کرنے لگا۔ اگست 1900ء میں امتحان ہوا، پانچ طالب علموں کے امتحان میں آئنسٹائن چوتھے نمبر پر آیا۔ پہلے تین کو ETH نے نوکری دے دی، مگر اسے اور پانچویں نمبر پر آنے والی ملیوا مارِک (Mileva Maric) کو نہیں۔ ملیوا کے ساتھ اس کا میل جول تھا اور وہ بعد میں آئنسٹائن کی پہلی بیوی بنی۔ ملیوا مسیحی تھی اور اس کا تعلق سربیا سے تھا۔ ملیوا اور آئنسٹائن کے درمیان میں 1897ء سے 1903ء تک کے خطوط کے تبادلہ سے تاریخ دانوں کو اس بارے معلومات ملی ہیں۔ ان خطوط میں ذاتی معاملات کے علاوہ فزکس کے مسائل پر بھی گفتگو ملتی ہے۔ فکرِ معاش کی وجہ سے آئنسٹائن شادی نہیں کر پا رہا تھا، مگر ملیوا حاملہ ہو گئی۔ سن 1902ء میں ایک لڑکی کو جنم دیا، مگر پالا نہیں۔ 1902ء میں ہی آئنسٹائن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آئنسٹائن عارضی استاد کے طور پر مختلف جگہ کام کرتا رہا، حتٰی کہ جون 1902ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن کے پیٹینٹ دفتر میں نوکری مل گئی۔ سن 1901ء میں آئنسٹائن سویٹزرلینڈ کا شہری بن گیا۔ جنوری 1903ء میں ملیوا سے شادی ہو گئی۔ پیٹنٹ دفتر میں کام کے دوران میں آئنسٹائن فزکس کے مسائل پر بھی تحقیق کرتا رہا اور اسی دوران میں اس نے اپنی زندگی کے عظیم ترین مقالات شائع کیے۔ کچھ محققین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئنسٹائن کی تحقیق میں ملیوا مارِک بھی شریک تھی۔ یہ شبہات آئنسٹائن اور ملیوا کے خطوط سے پیدا ہوئے جن میں آئنسٹائن "ہمارے نظریے " کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی سائنس دان ابراہیم یوفے Abraham Joffe نے مبینہ طور پر یہ بتایا کہ جب آئنسٹائن نے اپنے مقالے جریدہ Annalen der Physik کو بھیجے تو ان پر پیٹنٹ دفتر میں کام کرنے والے Einstien-Maric نامی کسی شخص کے دستخط تھے۔[46]

1905ء، کارناموں کا سال

ترمیم

اس سال آئنسٹائن نے چار مشہور مقالے شائع کیے :

  1. پہلا مقالہ جو مارچ، 1905ء میں شائع ہوا وہ ضیاء برقی اثر اور روشنی کی ہیئت کے بارے تھا۔ اس وقت تجرباتی ثبوتوں کی بنیاد پر روشنی کو موج سمجھا جاتا تھا، مگر اس سے ضیاء برقی اثر کی تشریح کرنا ممکن نہ تھا۔ آئنسٹائن نے اس نظریے کو تقویت دی کہ روشنی کو توانائی کے چھوٹے چھوٹے کوانٹم نوریہ زرات (photons) پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کوانٹم نوریہ کا نظریہ سب سے پہلے میکس پلینک نے پیش کیا تھا۔
  2. دوسرا مقالہ جو مئی، 1905ء میں شائع ہوا وہ براؤنین حرکت (Brownian motion) کے ریاضی ماڈل پر مشتمل تھا۔ جس میں احصاء کا استعمال کرتے ہوئے سالمہ کی مائع میں حرکت کی تشریح کی گئی تھی۔ اس سے اس نظریہ کو عام کرنے میں مدد ملی کہ جوہر اور سالمہ کا وجود حقیقی ہوتا ہے۔
  3. تیسرامقالہ جو جون، 1905ء میں شائع ہوا، اضافیت کے خصوصی نظریے (special theory of relativity) پر تھا۔ اس سے وقت اور فضاء (زمان و مکاں) کو علاحدہ علاحدہ تصور کرنے کی بجائے "وقت۔فضاء" یا "زمان و مکاں" (space-time) کا نظریہ سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز زیادہ (مگر یکساں) سمتار velocity سے حرکت کر رہی ہو، تو جس مشاہد کے حوالے سے حرکت ہو رہی ہوگی، اس مشاہد کو اس چیز کی کمیت زیادہ، لمبائی کم اور وقت آہستہ گزرتا، نظر آئے گا۔ البتہ روشنی کی رفتار ہر کسی کو ایک ہی (تقریباً  ) نظر آئے گی۔ اور یہ بھی کہ کسی مادی چیز کو تیز رفتار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور یکساں سمتار uniform velocity سے سفر کرنے والے جمودی حوالہ جاتی قالب (inertial frame of reference) میں کوئی ایسا تجربہ ممکن نہیں جس سے جمودی حوالہ جاتی قالب میں موجود مشاہد یہ معلوم کر سکے کہ وہ یکساں سمتار سے سفر کر رہا ہے یا "ساکن" ہے۔ واضح رہے کہ اضافیت کا نظریہ اس سے پہلے ہنڈرک لورنٹز اور ہینری پوائنکیرے پیش کرچکے تھے۔ آئنسٹائن نے یہ اضافہ کیا کہ ایسا تجربہ ناممکن ہونے کا اطلاق میکسویل کی برقناطیسی موجوں پر بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طیبیعات کے قوانین تمام غیر اسراعی (non-accelerated) جمودی حوالہ جاتی قالب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں۔
  4. چوتھا مقالہ جو ستمبر، 1905ء میں شائع ہوا۔ اور یہ طبیعیات کی مشہور ترین مساوات   پر مشتمل تھا، جس میں مادہ اور توانائی کی آپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا گیا تھا۔ حال میں ایک محقق نے رائے دی ہے کہ یہ مساوات ایک اطالوی سائندان نے آئنسٹائن سے کچھ سال پہلے شائع کی تھی، اگرچہ نظریہ اضافیت کے سیاق و سباق میں نہیں۔[47]

پروفیسری اور واپس جرمنی میں

ترمیم

1906ء میں زیورخ یونیوسٹی نے پی ایچ ڈی کی سند عطا کی، جس کے لیے آئنسٹائن نے تحقیقی مقالہ 1905ء میں جمع کرایا تھا۔ مقالات کی وجہ سے آئنسٹائن کی شہرت جو پھیلی، تو زیورخ یونیوسٹی نے نظریاتی طیبعیات میں اکتوبر 1909ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔ 1910ء میں پراگ یونیوسٹی سے پوری پروفیسر کی پیشکش ہوئی، تو 1911ء میں پراگ چلا گیا۔ یہاں جرمن اور چیک افراد میں لسانی و قومیاتی چپقلش کی وجہ سے کشیدگی تھی، اس لیے ایک سال ہی یہاں گزارنے کے بعد 1912ء میں زیورخ یونیوسٹی میں مکمل پروفیسر کی حیثیت سے واپس آ گیا۔ 1911ء میں برسلز میں اس کی میکس پلانک اور لورینز جیسے بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی۔ سن 1911ء میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کیا۔ شہرت اور بڑھی، تو برلن یونیوسٹی، جو اس وقت علم کا گڑھ تھا، سے پروفیسر اور نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر اور اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی، جو قبول کر کے آئنسٹائن سن 1914ء میں جرمنی چلا آیا اور جرمن شہریت دوبارہ حاصل کر لی۔ یہاں آنے کے چار ماہ بعد ہی پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ چار سالہ جنگ کے دوران میں آئنسٹائن زیادہ تر جرمنی میں ہی مقیم رہا۔ سن 1918ء میں جنگ جرمنی کی شکست پر ختم ہوئی۔ جرمنی پر سخت شرائط تھیں اور اسے فاتح ممالک کو بھاری رقم جرمانے کے طور پر دینا پڑ رہی تھی۔ اس سے جرمنی کی معیشت تباہ ہونا شروع ہوئی تو جرمن سیاست میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں نے زور پکڑ لیا۔ فرانس جرمنی کے کچھ علاقہ پر غاصبانہ قابض تھا، اس کے باوجود آئنسٹائن فرانس کی تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کر رہا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں یہودیوں کو بھی جرمنی کی تباہ شدہ معیشت کا ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ اس کے باوجود آئنسٹائن جرمنی میں مقبول تھا (سوائے کچھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے )۔ آئنسٹائن نے عمومی اضافیت کے نظریہ سے مشہوری پانے کے بعد دنیا بھر کے دورے کیے جس میں جاپان، جنوبی امریکا، امریکا اور فلسطین شامل تھے۔ وہ کئی بار امریکا گیا۔ ان دوروں میں سائنسی لیکچر کے علاوہ آئنسٹائن صیہونیت کا بھی پرچار کرتا۔ سن 1922ء میں آئنسٹائن کو نوبل انعام دیا گیا۔ سن 1929ء میں جرمنی کے ایک شہر نے ایک جھیل پر آئنسٹائن کو جھونپڑی تحفے میں دی (بعد میں آئنسٹائن کو اس کی کچھ قیمت بھی دینا پڑی)۔ آئنسٹائن کشتی رانی کا شوقین تھا۔ سن 1933ء میں آئنسٹائن امریکا کے دورے پر تھا کہ جرمنی میں ہٹلر نے اقتدار سنبھال لیا۔ آئنسٹائن یورپ واپس پلٹ رہا تھا، تو بحری جہاز میں خبر ملی کہ جرمن پولیس نے اس کی جھونپڑی پر چھاپہ مار کر ملک دشمن مواد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئنسٹائن نے جرمنی کی بجائے بیلجیم پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ یہاں اس نے جرمنی کے خلاف جنگی تیاریوں کی حمایت کی۔[48] سنہ 1933ء میں ہی آئنسٹائن امریکا منتقل ہو گیا۔

اولاد

ترمیم

پہلی بیٹی شادی سے پہلے سن 1902ء میں سربیا میں بیوی ملیوا کے آبائی گھر پیدا ہوئی، مگر اسے ماں باپ نے پالا نہیں۔ اس کا انجام معلوم نہیں۔ سن 1903ء میں پہلا بیٹا ہینز (Hans)، شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا، جس نے سویٹزرلینڈ سے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی تعلیم مکمل کی اور بعد میں برکلے یونیوسٹی کیلی فورنیا میں پروفیسر بنا اور سن 1973ء میں وفات پائی۔ اپنی ماں سے آئنسٹائن کے برے سلوک کی وجہ سے کافی عرصہ تک اس کے باپ سے تعلقات کشیدہ رہے۔ دوسرا بیٹا ایڈورڈ سن 1910ء میں پیدا ہوا، جو ذہنی مریض تھا اور ذہنی امراض کے اداروں میں ہی زیادہ وقت گزارا اور سن 1965ء میں زیورخ میں وفات پائی۔

ازواج

ترمیم

پہلی بیوی ملیوا مارِک (Mileva Maric) سے سن 1903ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ سن 1914ء میں برلن جانے کے بعد میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو گئے۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ آئنسٹائن ملیوا کو صرف اس صورت اپنے ساتھ رکھنے پر راضی تھا اگر وہ یہ شرائط پوری کرے [49]

A. تم یہ یقینی بناؤ گی کہ (1) میرے کپڑے اور بسترا ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (2) مجھے اپنے کمرے میں تین وقت کا کھانا پہنچاؤ گی۔ (3) میرا سونے اور پڑھنے کا کمرہ صاف ستھرا رکھو گی۔ میری پڑھنے والی میز کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ B. میرے سے تمھارے تمام ذاتی تعلقات ختم ہوں گے، سوائے لوگوں کو دکھانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ جب مخاطب ہوں تو فوراً جواب دو گی۔۔۔۔۔ میرے بچوں کو میرے خلاف نہیں کرو گی، گفتگو سے یا اپنے عمل سے۔

اس کے بعد ملیوا بچوں کو لے کر زیورخ چلی آئی۔ سن 1916ء میں آئن سٹائن نے طلاق کا سوال کیا۔ ملیوا ذہنی صدمے سے نڈھال ہو گئی اور ہسپتال میں داخل ہوئی۔ آخر سن 1918ء میں اس شرط پر طلاق ہوئی کے اگر میاں کو نوبل انعام ملے تو اس کے پیسے ملیوا کے ہوں گے اور بچوں کو مالی طور پر میاں سہارا دے گا۔ دونوں بیٹوں کو ملیوا نے اکیلے ہی سوئٹزرلینڈ میں پالا۔ بڑا بیٹا بڑا ہو کر امریکا چلا گیا۔ سن 1948ء میں ملیوا کی وفات ہوئی تو ہسپتال میں اکیلی تھی۔

 
Albert Einstein and Mileva Marić Einstein, 1912
 
Albert Einstein and Elsa Einstein, 1930

1914ء میں برلن آنے کے بعد آئنسٹائن کی شناسائی اپنی چچا زاد بہن ایلسا (Elsa) سے دوبارہ ہوئی۔ اس نے آئنسٹائن کے لیے ایک سیکرٹری ہیلن ڈیوکس (Helen Dukas) ڈھونڈ کر رکھ کے دی جو عمر بھر آئنسٹائن کی سیکرٹری رہی۔ آئنسٹائن اس شش وپنج میں تھا کہ ایلسا سے شادی بنائے یا اس کی جوان سال بیٹی سے۔[50] مگر اس کی بیٹی نے کچھ دلچسپی ظاہر نہیں کی اور آئنسٹائن نے ایلسا سے ہی شادی کر لی۔ ایلسا بعد میں آئنسٹائن کے ساتھ امریکا آ گئی جہاں سن 1936ء میں اس کا انتقال ہوا۔

عمومی اضافیت نظریہ

ترمیم

نظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا۔ اس نظریہ پر کام 1915ء میں مکمل کیا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ

  • اسراع کے دوران مشاہد جو طاقت محسوس کرتا ہے وہ بعینہ کشش ثقل کی طرح ہے۔ -
  • کشش ثقل (جس کی وجہ سے مثلاً سورج کے گرد سیارے کا گھومتے ہیں) کی طاقت کی ایک اور توضیح پیش کی۔ وہ یہ کہ سورج کی موجودگی سے زمان و مکان ہی ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اب سیارہ اپنی طرف سے سیدھا ہی چل رہا ہوتا ہے مگر اس زمان و مکان کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے وہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ اس ٹیرھے پن کا اثر برقناطیسی موجوں پر بھی ہو گا۔ مثلاً ستاروں کی روشنی سورج کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا رُخ ہلکا سا تبدیل کرتی ہے۔ روشنی کے اس مڑنے کی تصدیق تجرباتی طور پر سورج گرہن کے دوران میں برطانوی سائنسدانوں نے 1919ء میں کی، جس سے عمومی اضافیت نظریہ کی تصدیق ہو گئی اور آئنسٹائن کی شہرت کی اخباروں میں دھوم مچ گئی۔ تاریخ دانوں نے کہا ہے کہ برطانوی سائنس دان ایڈنگٹن نے اس تصدیق میں ڈنڈی ماری تھی۔[51]
  • اس کے علاوہ سیارے عطارد کا مدار مشاہدے میں جیسا نظر آتا تھا، اس کی آئزک نیوٹن کا کشش ثقل نظریہ پوری طرح تشریح نہیں کر پاتا تھا، جبکہ نظریہ اضافیت کی پیشن گوئی اور مشاہدہ میں مماثلت دیکھی گئی۔
  • نظریہ اضافیت کے مطابق روشنی کی شعائیں بھاری ستاروں سے نکلتے ہوئے ان شعاعوں کا تعدد روشنی کے طیف میں سرخ رنگ کی طرف تھوڑا سا کھسک جاتا ہے۔

جب آئنسٹائن نے یہ نظریہ تیار کر رہا تھا، اسی عرصہ میں اس کا عظیم جرمن سائنس دان ڈیوڈ ھلبرٹ کے ہاں کچھ دن قیام رہا اور اس سے سائنسی بحث بھی ہوتی رہی۔ آئنسٹائن سے کچھ دن پہلے ہلبرٹ نے نظریہ اضافیت پر ابنا مقالہ سائنسی جریدے کو ارسال کیا۔ آئنسٹائن نے بعد میں ھلبرٹ پر اس کے خیالات "چوری" کرنے کا الزام لگایا۔ یہ اب تک متنازع ہے کہ ھلبرٹ اور آئنسٹائن کا عمومی اضافیت نظریہ میں کتنا حصہ تھا۔[52]

علم الکائنات

ترمیم

آئنسٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریہ کا علم الکائنات سے گہرا تعلق بنتا تھا۔ اس لیے علم الکائنات کے بارے بھی آئنسٹائن نے تحقیقی نظریات پیش کیے۔

مقداریہ میکانیات

ترمیم

مقداریہ میکانیکات کا نظریہ اسی زمانے میں وجود میں آ رہا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق:

  • ہم یہ نہیں کہے سکتے کہ برقیہ گردش کرتا ہوا جوہر کے اندر ایک خاص مدار میں ہے، بلکہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں برقیہ کا کسی جگہ موجود ہونے کا احتمال کیا ہے۔ یعنی جس طرح روشنی کی موجیں دوہری فطرت (dual nature) رکھتی ہیں، یعنی روشنی کی موجوں کو نوریہ ذرات پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے، بعینہ، جوہری ذرات (مثلاً برقیہ) بھی دوہری فطرت رکھتے ہیں، یعنی انھیں بھی موجوں کی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
  • اس نظریہ سے اصولِ سببیہ (causality principle) کی بھی نفی ہو سکتی ہے۔
  • غیریقینی اصول، جس کے مطابق کسی ذرے کا مقام اور معیار حرکت دونوں ایک ساتھ اپنی مرضی کی انتہائی درستی سے ناپا نہیں جا سکتا۔

آئنسٹائن نے فلسفیانہ بنیادوں پر اس نظریہ سے اختلاف کیا۔ آئنسٹائن کا قول تھا کہ "خدا طاس نہیں کھیلتا۔ " اس کا خیال تھا کہ یہ ایک عارضی نظریہ ہے اور ایک بہتر نظریہ دریافت ہو گا جس میں یہ "خامیاں " نہیں ہوں گی۔ اس سلسلہ میں اس کی بوہر سے طویل عرصہ تک بحث ہوتی رہی۔ البتہ مقداریہ میکانیکات نظریہ سائنسدانوں میں قبول ہو گیا اور جوان سائنس دان بوڑھے آئنسٹائن کو غیر مناسب سمجھنے لگے۔

صیہونیت کی معاونت

ترمیم

آئنسٹائن فلسطین میں صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا پُر جوش حامی تھا۔ 1921ء میں اس نے وائزمین (Chaim Weizmann) کے ساتھ امریکا کا دورہ کیا اور صیہونیت کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے متعدد شہروں میں تقریریں کیں۔ 1952ء میں آئنسٹائن کو اسرائیلی صدارت کی پیش کش ہوئی جو اس نے قبول نہیں کی۔ [53]

امریکا میں

ترمیم

1933ء میں آئنسٹائن، ایلسا اور ہیلن کے ساتھ امریکا چلا آیا اور پرنسٹن یونیوسٹی میں پروفیسر لگ گیا۔ امریکا کے پہلے دوروں پر اسے مختلف یونیوسٹیوں نے پہلے سے پروفیسری کی پیشکش کر رکھی تھی۔ یہاں کے خوبصورت قدرتی ماحول میں اپنی تحقیقات میں لگ گیا جو اب قدرت کی تمام طاقتوں کا ایک متحد نظریہ دریافت کرنا تھا۔ اس میں کامیابی تو نہ ہوئی، مگر کچھ نہ کچھ کاوشیں جاری رکھیں۔ 1940ء میں امریکا کی شہریت حاصل کی۔ امریکا میں آئنسٹائن کی عظیم شخصیت کی طرح پزیرائی ہوتی تھی اور صحافی اس کے ہر موضوع پر خیالات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے آئنسٹائن کو جرمن قوم سے سخت نفرت ہو گئی اور جنگ کے بعد پیشکش ہونے پر بھی وہ جرمنی نہیں گیا۔ 18 اپریل 1955ء کو پرنسٹن میں ہی موت ہوئی۔ آئنسٹائن hemolytic anemia کا مریض تھا۔ موت کی وجہ اس کے arota میں aneurysm کا پھٹنا تھا۔ موت کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے خفیہ طور پر سر چیر کر دماغ مرتبانوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا۔[54] میت کو بعد میں جلا کر راکھ (cremate) کر دیا گیا۔

ایٹم بم

ترمیم

1939ء میں امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو خط لکھا جس میں ایٹم بم بنانے کی ترغیب دی۔ وجہ یہ بتائی کہ شاید ایڈولف ہٹلر ایسا کرنا چاہتا ہو۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کی طرف سے ایٹم بم کا استعمال سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل ہوئے تو آئنسٹائن نے افسوس کا اظہار کیا۔

امریکی بحریہ کا بم ماہر

ترمیم

دوسری جنگ عظیم کے دوران میں امریکی بحریہ نے اس کی خدمات اسلحہ ماہر کی حیثیت سے حاصل کیں۔ آئنسٹائن اپنی ماہرانہ رائے دیا کرتا کہ سمندر میں کس طرح کہ بم کی ساخت کامیاب رہیں گی۔

ایف۔ بی۔ آئی

ترمیم

امریکی خفیہ ایجنسی FBI آئنسٹائن کے بائیں بازو (سیاسی و معاشی) نظریات کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور خفیہ تحقیقات کر رہی تھی۔

آئنسٹائن کا خدا

ترمیم

آئنسٹائن کے اقوال میں خدا (God) کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ خدا سے مراد قدرت (nature) تھی۔ بہرحال آئنسٹائن کا نظریۂ خدا مذہبی نقطۂ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔

کتابوں سے اقتباسات

ترمیم
ہم نے تلخ تجارب کے بعد یہ سیکھا ہے کہ معاشرتی زندگی کی گتھیاں تنہا عقل کی رو سے نہیں سلجھ سکتیں۔۔۔۔ اس لیے ہمیں تنہا عقل کو اپنا خدا نہیں بنا لینا چاہیے۔ اس خدا کے عضلات (Muscles) تو بہت مضبوط ہیں لیکن اس کی ذات (Personality) نہیں ہے۔ عقل اسباب و ذرائع پر تو خوب نگاہ رکھتی ہے لیکن مقاصد و اقدار کی طرف سے اندھی ہو جاتی ہے۔[55]
سائنس صرف یہ بتا سکتی ہے کہ " کیا ہے"!!!

وہ یہ نہیں بتا سکتی کہ " کیا ہونا چاہیے " !!! اس لیے اقدار کا تعین کرنا اس کے دائرے سے باہر ہے۔ سائنس کے علم برداروں نے اکثر اوقات اس امر کی کوشش کی ہے کہ وہ سائنس کی رو سے اقدار کے متعلق قطعی فیصلہ نافذ کر دیں۔۔۔۔ سائنس کے نزدیک بس ایک شے ہوتی ہے۔ اس کی دنیا میں آرزو، اقدار، خیر وشر، نصب العین حیات کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سائنس نہ اقدار متعین کر سکتی ہے اور نہ انھیں انسانی سینے کے اندر داخل کر سکتی ہے۔[56]

تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بہت ساری حقیقتیں جان لی جائیں۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی اس طرح تربیت ہو جائے کہ جو کچھ کتابوں میں نہیں ہے وہ بھی سمجھ میں آ سکے[57]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ربط: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  3. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119016075 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119016075 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اگست 2017
  5. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w69k499r — بنام: Albert Einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. ^ ا ب عنوان : Nationalencyklopedin — NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/albert-einstein — بنام: Albert Einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/314 — بنام: Albert Einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  8. ربط: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  9. ^ ا ب پ مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Эйнштейн Альберт — CC0 — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2015
  10. عنوان : Einstein: His Life and Universe by Walter Isaacson. — جلد: 20 — صفحہ: 431-432 — شمارہ: 4 — https://dx.doi.org/10.1080/08998280.2007.11928340https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC2014819CC0
  11. ^ ا ب پ ت ٹ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 مئی 2024
  12. ربط: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  13. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  14. https://www.history.com/news/9-things-you-may-not-know-about-albert-einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 4 جنوری 2019
  15. https://www.einstein-website.de/z_information/verschiedenes.html
  16. JSTOR article ID: https://www.jstor.org/stable/795378
  17. http://www.einsteinsommerhaus.de/index.php?id=539&no_cache=1
  18. http://www.einsteinsommerhaus.de/index.php?id=539
  19. https://newspapers.ushmm.org/events/albert-einstein-quits-germany-renounces-citizenship
  20. مصنف: آئن سٹائنLetter to M. Berkowitz, 25 October 1950
  21. مصنف: آئن سٹائن — تاریخ اشاعت: 1949 — Albert Einstein: Notes for an Autobiography — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2019
  22. Brian, Dennis (1996), Einstein: A Life, New York: John Wiley & Sons, p. 127, ISBN 0-471-11459-6
  23. مصنف: آئن سٹائنhttps://dx.doi.org/10.3929/ETHZ-A-000565688
  24. ^ ا ب Leidse Hoogleraren ID: https://hoogleraren.universiteitleiden.nl/s/hoogleraren/item/733 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 جون 2019
  25. Zhou Peiyuan Is Dead; Educator-Scientist, 91
  26. THEATER REVIEW;A Fantasy Meeting of Minds
  27. BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/3852/ — اخذ شدہ بتاریخ: 13 فروری 2021
  28. https://cs.isabart.org/person/16734 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  29. The Speed of Broken Light: A meditation on duration and performance by Ted Hiebert
  30. Neutral monism reconsidered by Erik C. Banks
  31. Einstein: his life and universe
  32. Modern-Day Einstein Smashes Flaming Golf Ball, Sets Pants on Fire
  33. عنوان : Special Relativity and how it all began — BBC programme ID: https://www.bbc.co.uk/programmes/p00kwcp5
  34. A brief history of mathematics Episodes
  35. A-Z for Norfolk Science, A:Albert Einstein
  36. Digitalizované pobytové přihlášky pražského policejního ředitelství (konskripce) 1850-1914 — اخذ شدہ بتاریخ: 6 جنوری 2021
  37. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : Albert Einstein (1879-1955), data.bnf. — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119016075 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  38. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/7912035
  39. Sieben Jahre «Schusterhandwerk»
  40. Albert Einstein und das IGE
  41. ناشر: رائل سوسائٹیAward winners : Copley Medal — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2018
  42. ناشر: نوبل فاونڈیشنThe Nobel Prize in Physics 1921 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 اگست 2015
  43. The Nobel Prize amounts
  44. ناشر: نوبل فاونڈیشن — نوبل انعام شخصیت نامزدگی آئی ڈی: https://www.nobelprize.org/nomination/archive/show_people.php?id=2728
  45. "Physics: past, present, future"۔ Physics World۔ 1999-12-06۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2023 
  46. Abraham Pais, "Einstein lived here," Clarendon Press, Oxford, 1994.
  47. 253524,00.html Guardian 11 Nov. 1999[مردہ ربط] Einstein's E=mc2 'was Italian's idea'
  48. Jake Goldberg, Albert Einstein، Franklin Watts, 1996, pp. 96
  49. Donald Goldsmith, Einstien: a relative history، 2005, Simon & Schuster, Inc.، pp. 89
  50. Denis Brian, The unexpected Einstein, Wiley, 2005, pp. 33
  51. Tony Rothman, everything's RELATIVE، chapter 8, Wiley, 2003
  52. The Register,15 نومبر 2004, Was Einstein a plagiarist?
  53. Einstein and the Quantum, A. Douglas Stone, Chap. 23, 2013.
  54. Mario Livio, The equation that could not be solved, Simon & Schuster Trade, 2005
  55. Out of my later years, by Albert Einstein
  56. (Einstein ( IBID
  57. The Problem With Education Today

بیرونی روابط

ترمیم