کاغذی شیر (انگریزی: Paper tiger) در حقیقت چینی زبان کے محاورے ژیلاؤہو (آسان چینی: 纸老虎; روایتی چینی: 紙老虎) کا لفظی ترجمہ ہے۔ یہ اصطلاح ہر چیز یا ایسے شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو بظاہر طاقت ور اور دھمکانے کا موقف رکھتا ہے مگر وہ در حقیقت بے اثر اور کسی مقابلے میں کھرا اترنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ محاورے کو بین الاقوامی سطح پر مقبول بنانے شرف ماؤ زے تنگ کو جاتا ہے جو عوامی جمہوریہ چین کے قائد تھے اور اس محاورے کو اکثر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے، خصوصًا وفاقی حکومت، ریاستہائے متحدہ امریکااامریکی حکومت کے لیے استعمال کرتے تھے۔

ایک کاغذی شیر جس کے ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکا کا پرچم ہے، جو امریکی استعماریت کی علامت سمجھی گئی ہے، جیسا کہ پکٹوریل چائنا کے اگست 1950ء کے شمارے میں شائع ہوا۔

جدید دور میں استعمالات

ترمیم
  • برطانیہ کے وزیر اعظم بارس جانسن نے جہاں ایک جانب کووڈ 19 کی وجہ سے شدید تالا بندی لگوائے اور صحافتی تنقید کا نشانہ بن گئے۔ وہ اس عالمی وبا اور ویکسن کی تیزی سے عمل آوری میں ظاہری فعالیت کے باوجود اس درجے کامیاب نہیں ہوئے جتنا کہ ماہرین شروع میں انھیں سمجھا۔ اس وجہ سے صحافت کے ایک گوشے نے انھیں کاغذی شیر قرار دیا۔[1]
  • پاکستان کے تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف شیر سے لگاؤ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی ہر رہائش گاہ کے باہر دھاڑتے ہوئے شیر کا ماڈل یا تصویر بھی آویزاں ہے۔جو میاں صاحب کی شیر سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم میاں صاحب کے مخالفین ان پر کاغذی شیر ہونے کی پھبتی بھی کستے رہتے ہیں۔[2]


  • بھارت کے اصل حزب اختلاف کانگریس کے قائد راہل گاندھی نے 2018ء ’سنڈے نوجیون‘ کے خصوصی شمارہ کا اجرا کرتے ہوئے کہا کہ’’ اخبار کو شیر ‘ کہا جا سکتا ہے۔ وہ بڑے سے بڑے لوگوں کو اپنی جگہ دکھا سکتا ہے لیکن اگر اخباروں کے مالکان پر سرکار کا دباؤ ہوتا ہے، تو وہی شیر ’کاغذی شیر‘ بن جاتا ہے۔ اس میں کوئی دم نہیں رہ جاتا اور وہ آواز نہیں رہ جاتی‘‘۔[3] یہ انھوں نے ملک کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ کے مراکز کے حکومت کے دباؤ یا اس سے ساز باز کرتے ہوئے گودی میڈیا بننے کی کوششوں کے مد نظر کہی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم