دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے۔ ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دریائے سندھ کے کنارے قدیمی قلعے، عبادت گاہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے 93 میل شمال کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر جو کافر کوٹ کے نام سے مشہور ہے، واقع ہیں۔ یہاں سے چند میل کے فاصلے پر دریائے کرم اور سندھ آپس میں ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کافرکوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا۔ جس پہاڑ پر یہ کھنڈر ہیں اس کے مشرق کی جانب آبی گزرگاہ ہے۔ آج کافرکوٹ کے تباہ شدہ کھنڈر کو نوکیلے تراشیدہ پتھروں اور خاردار جھاڑیوں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثارِ قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ دانش ور محمد شریف کے مطابق مسلمان اس قلعہ کو کافرکوٹ کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ ہندو اسے راجا بل کا قلعہ کہتے تھے۔
ان مندروں کی تعداد سات کے لگ بھگ ہے۔ خوبصورت تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کیے گئے یہ مندر ماضی میں بہت خوبصورت شاندار تھے جو عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔ قدیمی دور کے یہ محل اور مندر راجا بل نے تعمیر کروائے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک قلعہ ’نند، ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملہ میں راجا نندپال کو شکست دی تھی۔ قیاس یہی ہے کہ کافر کوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ کافرکوٹ کے قلعہ کے اندر پانی کا تالاب بھی تھا بارش کا پانی تالاب میں اکٹھا ہو جاتا تھا۔ تالاب کے گرد و نواح پوجا پاٹ کے لیے مندر بھی تھے۔ محلات اور فصیل کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بڑا مندر بائیں ہاتھ پر ہے، درمیان میں راستہ ہے جو بڑی عمارت کا حصہ ہیں۔ جیل خانے کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ کافرکوٹ کے کھنڈر کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں جبکہ مشرق کی طرف آبی گزرگاہ ہے۔ ماضی میں قلعے یا حکمرانوں کے محل پہاڑوں پر تعمیر کیے جاتے تاکہ وہ دشمنوں اور حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں۔ کافرکوٹ کے مندروں کی چہار اطراف ماہر کاریگروں نے خوبصورت ڈیزائن بنائے ہیں۔ مورتیوں اور روشنی کے لیے طاقچے بھی بنائے گئے ہیں۔ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں۔ چار بڑے تین چھوٹے یہ مندر چونے کے مقامی پتھر کنجور کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں۔ موسم یا بارش کا اثر ان پتھروں پر نہیں ہوتا۔ یہ مندر مخروطی شکل کے ہیں۔ ان کی بیرونی سطح کچھ زیادہ مزیّن ہے۔ یہ آرائش بہت پیچیدہ اور باریک ہے جس پر سورج مکھی کے پھول بنے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مندر تباہ شدہ قلعے کے اندر ہیں۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا ہے۔
کافرکوٹ شہر کے اردگرد پتھر کی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو راجا بل کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت بلوٹ تھا۔ اسے بل کوٹ یا بلوٹ کہا جاتا ہے۔ بل کا چھوٹا بھائی ٹل اوٹ کا بانی تھا۔ تیسرا بھائی اکلوٹ تھا جو بنوں کے نزدیک واقع آکرہ کا بانی تھا۔ آکرہ کا شہر سرسبزوشاداب اور خوش حال تھا جو سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں تباہ ہوا۔