کالاش

چترال کے اصل نژاد مقامی، پاکستان

کیلاش (انگریزی: Kalash) کوہ ہندوکش میں واقع ایک قبیلہ ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں آباد ہے۔ یہ قبیلہ کالاش زبان بولتا ہے جو دردی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔[3]

کالاش
کالاش خواتین
کل آبادی
(تقریباََ 40 ہزار[1])
گنجان آبادی والے علاقے
ضلع چترال، پاکستان
زبانیں
کالاش
اردو اور پشتو بطور دوسری زبان استعمال کرتے ہیں۔
مذہب
یہ لوگ زیادہ تر کالاش مذہب کے پیروکار ہیں،[2] تاہم بہت کم تعداد میں مسلمان ہیں
متعلقہ نسلی گروہ
نورستانی قوم
ایک کالاش بچی اپنے روایتی کالاش لباس میں
موسمِ بہار میں کالاش لوگ معروف تہوار جوشی مناتے ہوئے۔

وجہ تسمیہ

ترمیم

لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔ کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثررسوخ بڑھایا۔[4] ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش نام دراصل “کاسوو“ جو بعد میں “کاسیو“ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کیلاش بن گیا۔[حوالہ درکار]

ثقافت

ترمیم

کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ ان کی ثقافت مقامی مسلم آبادی سے ہر لحاظ سے بالکل مختلف ہے اور اس ثقافت کو دیکھنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں سے سیاح بڑی تعداد میں کالاش وادی میں آتے ہیں۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو ان کی تین وادیوں میں خوش حالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔[5] کیلاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر روم قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔[6] گو وقت کے ساتھ ساتھ قدیم روم کی ثقافت کے اثرات میں کمی آئی ہے اور اب کے دور میں زیادہ تر ہند اور فارس کی ثقافتوں کے زیادہ اثرات واضع ہیں۔[7] حکومت کی جانب سے قومی ثقافت ورثہ کو وفاقی وزرات تعلیم میں ضم ہونے کے اچھے نتائج آنے لگے۔ یونیسکو کی جانب سے کالاش کی ثقافت کو بین الاقوامی ثقافت قرار دے دیا گیا۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پاکستان کو ملنے والی اس کامیابی کو پاکستانی ثقافت کی انفرایت قرار سراہا۔ بین الاقومی سطح پر پاکستان کی دلفریب ثقافت کو ماریش میں منقعد میٹنگ میں یونیسکو کی جانب سے یہ اعزاز حاصل ہوا۔ 'کالاش' کمیونٹی کی دم توڑتی ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے یونیسکو کا فوری اقدام۔ کیلاش کمیونٹی کی 'سوری جاجکا' قدیم روایت کو یونسیکو کی انٹر گورمنٹل کمیٹی نے بین الاقومی ثقافتی وراثہ قرار دے دیا۔

رواج

ترمیم

کیلاش قبائل کے قبائلی رواج میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ بیسویں صدی سے پہلے تک یہاں رواج نہایت وسیع تھے اور گذشتہ صدی میں ان غیر مسلم قبائل میں ان رواجوں کی پیروی اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی کمی آئی ہے۔ یہاں مساجد بھی موجود ہیں تقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو “شیخ“ کہا جاتا ہے اور کیلاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں کیلاش قبائل کے سردار سیف جان جو اقلیت کے مطابق، “اگر کوئی کیلاش فرد اسلام قبول کر لے، وہ ہمارے درمیان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ہم اپنی شناخت کے لیے انتہائی سخت مزاج رکھتے ہیں۔“[8][9]
کیلاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں، جو سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے یہ چترال میں سیاہ پوش کہلائے جاتے ہیں۔ کیلاش مردوں نے پاکستان میں عام استعمال کا لباس شلوار قمیص اپنا لی ہے اور بچوں میں بھی پاکستانی لباس عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے کے برعکس عورتوں اور مردوں کا سماجی میل ملاپ برا نہیں سمجھا جاتا۔ “باشیلانی“ ایک جدا گاؤں ہے جو عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں حاملہ عورتیں ہی لازمی رہائش پزیر ہوتی ہیں اور پیدا ہونے والے بچوں کو باشیلانی کہا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد عورتوں کا پاک ہونا لازم ہے اور ایک رواج بھی عام ہے جس کو اپنانے کے بعد ہی کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف واپس جا سکتی ہے۔[10] مرد بھی اس رواج کا کلیدی حصہ ہوتے ہیں۔
گھر سے فرار ہو کر شادی کا رواج عام ہے۔ نوعمر لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں بھی گھر سے فرار اختیار کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہ قبائل اس رویہ کو عمومی خیال کرتی ہے اور اس صورت میں جشن کے موقع پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ کئی مواقعوں پر ذیلی قبیلوں میں اس موضوع پر فساد بھی برپا ہو جاتا ہے۔ امن کے قائم ہونے تک تلخی برقرار رہتی ہے اور صلح عام طور پر ثالث کی موجودگی کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ صلح کے لیے جو رواج عام ہے اس کے مطابق مرد جس کے ساتھ عورت فرار اختیار کرے وہ اس عورت کے خاندان یا پہلے شوہر کو قیمت ادا کرتا ہے۔ یہ قیمت عام طور پر دگنے خرچے کے برابر ہوتا ہے جو اس عورت کا شوہر شادی اور عورت کے خاندان کو ادا کرتا ہے۔ان کے ہاں شراب پینا منع نہیں ہے۔[11]

حوالہ جات

ترمیم
  1. 2013 Census Report of CIADP/AVDP/KPDN. (2013). Local Census Organization, Statistics Division, community based initiatives .
  2. Pakistan Statistical Year Book. 2012. Pakistan Bureau of Statistics. Karachi: Manager of Publications
  3. "دری زبانوں کی تاریخ" (PDF)۔ 07 جولا‎ئی 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2016 
  4. "رچرڈ سٹرانڈ کا مقالہ برائے نورستان: نورستان کے لوگ اور زبان"۔ 14 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2016 
  5. "کیلاش، پاکستان آن لائن"۔ 06 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2016 
  6. کیلاش بہار میلہ میں روم کا اثر، بی بی سی نیوز
  7. دیکھیے نورستانی قبائل اور کیلاش قبائل بارے یہ حوالہ جات، ایم ویٹزال، ووٍک مذہب کے وسط ایشیا اور ہندوکش میں اثرات اور اے گرفتھ اور ہوبن . ویڈاس زبان اور رواج۔ گرونجن: فورسٹن 2004ء: صفحہ 636
  8. رفیل پال۔ سمتھ سونین جنوری 2007ء: صفحہ 68-66.
  9. احمد اکبر (1986ء)۔ "کیلاش کافر قبائل کا قبول اسلام"۔ پاکستانی معاشرہ: اسلام، معاشرہ اور جنوبی ایشیاء میں اثر رسوخ۔ ماے فلاور بکس: نیو یارک۔ صفحہ: 23–8۔ ISBN 0-19-577350-0 
  10. "پالن کا سفرنامہ"۔ 26 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2016 
  11. کیلاش: راؤ اور باک (2000ء), صفحہ 273

بیرونی روابط

ترمیم

وٹزل "کیلاش مذہب"