بابا کالی داس بابر کے کہنے پر اس جگہ کو آباد کیا جس کی وجہ سے اسے کلرکہار کا بانی کہاجاتا ہے

کالی داس کا تعارف ترمیم

کالی داس کا تعلق قدیم ہندوؤں میں پانڈوؤں کی نسل سے تھا۔ جنہیں بعد میں ہندو راجپوت کہا جانے لگا۔اُن کے مطابق یہ راجپوت 980ء میں موجودہ بھارت کے قدیم شہر متھرا سے ہجرت کر کے آئے اور قصبہ ملوٹ کی بنیاد رکھی۔ یہ رائے چندو مل یا راجا مل کی اولاد تھے اور کالی داس اس کی اولاد میں سے تھا۔کالی داس ملوٹ اور علاقے کا رئیس و عالی مقام شخص تھا۔ کلرکہار کے رہائشی شیخ محمد علی جو کالی داس کی اولاد میں سے ہیں کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں بلکہ ان کے آبا و اجداد عہد قدیم سے ہی یہاں رہتے آئے ہیں۔ تاہم ان کے پاس موجودہ شجرہ نسب مورثِ اعلیٰ بابا کالی داس سے شروع ہوتا ہے اور ان کے پاس موجود جہلم گزٹ 1904ء میں ان کی قوم شیخ گڈھیوک درج ہے۔

خاندان ترمیم

کالی داس کی اولاد اب بھی ضلع چکوال کے مختلف قصبات میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہے اور انھیں شیخ گڈھیوک کہا جاتا ہے۔یہ ناصرف ان کے جد امجد کی یادگار ہے بلکہ تاریخی اعتبار سے مشہور علاقہ دھن کی بنیاد رکھنے والے شخص کی بھی یادگار ہے۔ چنانچہ یہ علاقہ دھن یا دھنی کے ہر باسی کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔[1]

تاریخی حیثیت ترمیم

مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی خود نوشت تزکِ بابری کے مطابق 1519ء میں جب اس نے بھیرہ فتح کیا تو وہ کلدہ کنار (کلرکہار) آیا۔ تو اس نے اس جگہ کی آب و ہوا خوشگوار دیکھ کر یہاں صفاء کے نام سے ایک باغ لگانے کا حکم دیا۔بابر کے لیے تیار کیا گیا پتھر کا تخت آج بھی یہاں موجود ہے اور اسے تخت بابری کہا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق بابر یہاں 1523ء یا 1526ء میں آیا اور چھ ماہ قیام پزیر رہا۔1997ء میں لکھی گئی کتاب انسائیکلوپیڈیا آف چکوال کے لکھاری عابد منہاس کے مطابق بابر یہاں چار مرتبہ آیا۔ 'ٹھوس شواہد نہیں لیکن دھنی ادب و ثقافت اور دھن ملوکی از پروفیسر انور بیگ اعوان میں درج روایات کے مطابق ظہیر الدین بابر نے علاقہ دھن کی آباد کاری کے لیے علاقہ کی معتبر شخص بابا کالی داس کو طلب کیا۔'جس نے ایک بڑے علاقے میں کھڑے پانی کے دریائے جہلم میں اخراج کا راستہ کرنگلی پہاڑکوہ جود (گھوڑی گالا) سے بنوایا اور خشک ہونے پر مختلف دیہات سے لوگوں کے خاندان لا کر انھیں دھن کے علاقے اور کلرکہار میں آباد کیا۔اس خدمت گزاری کے صلہ میں بابر نے کالی داس کو سات موضعات موہڑہ شیخاں، رام شینا،رتہ، راہنہ، بھٹی گوجر، جبیرپور اور منوال بطور جاگیر بخش دیے، گھوڑا، خلعت اور انعام بھی دیا۔ بابا کالی داس نے بابر سے التماس کی کہ اسے اور اس کی اولاد کو علاقہ دھن کے مالیہ سے دو فیصدی رسوم (بندھان) دیا جائے تو بابر نے فرمان لکھ دیا۔

اولاد کی تاریخ ترمیم

شہنشاہ ہمایوں نے کالی داس کے بڑے بیٹے بھگوتی داس کو برقرار رکھا یہ مستند روایت ہے کیونکہ اپنے عہد میں ہمایوں نے 1554ء میں کالی داس کے بیٹے کو علاقہ کہون کے انتظام و انصرام میں 30 ہزار تنکہ انعام دینے اور باغ صفاء کے ذکر کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔عہد اکبری میں 1562ء میں کالی کی اولاد کو بھیرہ اور نیلاب(اٹک) کی خدمت سپرد کی گئی عہد اکبری ہی میں شیر شاہ سوری کی بغاوت سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے کالی داس کی اولاد کو 15 ہزار دام عطا کیے گئے۔چوتھی سند اورنگ زیب عالمگیر کے عہد کے چالیسویں سال (1695ء) کی ہے جس کی رو سے محمد شریف ابن بھگوتی داس کو سات سو روپے کی رقم ادا ہوئی۔اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مختلف علاقوں کے ہندو قانون گویان کے سرکاری دفاتر میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی اور کہا گیا کہ خاندان سے ایک شخص برضا و رغبت مسلمان ہو جائے تو آ جا سکتا ہے۔ یوں بابا کالی داس کی اولاد میں سے پہلا شخص شیخ محمد صالح مسلمان ہو گیا۔ مغلیہ عہد کے خاتمے سے پہلے قانونگوئی قبیلہ رہا اور ان کے پاس اس عہد کے کاغذات بھی ہیں۔ سب سے قدیمی کاغذ 1756ء کا ہے۔انگریزی عہد میں جب اس قبیلے نے عہد مغلیہ کی طرح مقررہ بندھان کی عطاء کرنے کی درخواست پنڈدادنخان میں مہتمم بندوبست سرسری ضلع جہلم کو کی تو انھوں نے کہا کہ اگر آپ اپنی اولاد کو پٹواری لگوا دیں تو وصول آمدنی سے دو فیصد دیا جائے گا۔مگر کالی داس کی اولاد نے یہ تردد گوارا نہ کیا اور ظہیر الدین بابر کے عہد سے ملنے والا بندھان ضبط ہو گیا [2] ٹھوس تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کالی داس علاقہ کی اہم شخصیت تھے)۔انھوں نے ناصرف موجودہ کلرکہار بلکہ دھن کے دیگر علاقوں کی آباد کاری میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایک ایسے شخص کی یادگار نہ صرف ہمارا تاریخی بلکہ ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ اب بھی کلر کہار میں کالی داس کی مڑھی موجود ہے۔[3]

  1. گلدستہ تاریخ از شیخ نور الدین
  2. دھنی ادب و ثقافت مطبوعہ1968ء و دھن ملوکی تصنیفات از پروفیسر انور بیگ اعوان
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 14 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2019