کاٹنگلے کی پریاں (انگریزی: Cottingley Fairies) ان پانچ تصاویر میں شامل کرداروں کا مجموعی نام ہے جنہیں ایلسی رائٹ (انگریزی: Elsie Wright) (عہد:1900–88) اور فرانسس گرفتھ (انگریزی: Frances Griffiths) (عہد:1907–86) نام کے کاٹنگلے میں رہ رہے دو رشتے داروں نے تیار کیے تھے۔ کاٹنگلے انگلستان کے بریڈفورڈ کے نزدیک واقع ہے۔ 1917ء میں جب پہلی دو تصاویر لیے گئے تھے، ایلسی کی عمر سولہ سال اور فرانسس کی عمر نو سال تھی۔ یہ تصاویر سر آرتھر کانن ڈایل کا مرکز توجہ بن گئی جس نے پریو ں پر ایک مضمون کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا جو اس نے کرسمس 1920ء کے دی اسٹرینڈ میگزین کے اس کے منطورکردہ مضمون میں چھپی۔ ڈایل ایک ماہر روحانیات ہونے کے ناتے، ان تصاویر کو لے کر کافی جوش و خروش میں تھا۔ اس نے ان تصاویر میں واضح اور بصیرت افروز انداز میں ایک نفسیاتی پہلو کی موجودگی کی تعبیر کی۔ عوامی رد عمل منقسم تھا، کچھ نے تصاویر کی واقعیت کو تسلیم کیا مگر ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے انھیں فرضی قرار دیا تھا۔

photo
ایلسی رائٹ کی پانچ تصاویر میں سے 1917 میں لی گئی پہلی تصویر جس میں فرانسس گرفتھ کو مبینہ طور پریوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

کاٹنگلے کی پریوں میں دلچسپی 1921ء کے بعد کم ہوتی گئی۔ دونوں لڑکیوں کی شادی ہو گئی اور سن بلوغ کو پہنچنے کے نعد وہ لوگ اپنے مقام سے دور بتائے تھے، لیکن تصاویر عوامی دلچسپی کا باعث بنے رہے۔ 1966ء میں ڈیلی ایکسپریس کا ایک رپورٹر ایلسی کو کھوج نکالا جو اس وقت تک برطانیہ لوٹ چکی تھی۔ ایلسی نے اس امکان کو کھلا رکھا کہ وہ یہ یقین رکھتی ہے کہ اس نے اپنے خیالات کی تصویرکشی کی ہے اور ذرائع ابلاغ کو ایک بار پھر اس کہانی سے دلچسپی ہونے لگی۔

1980ء کی دہائیوں میں ایلسی اور فرانسس نے اقرار کیا کہ یہ تصاویر جعلی تھے، انھیں اس وقت کی ایک مقبول بچوں کی کتاب سے نقل کرکے کارڈبورڈ پر سے کاٹا گیا تھا۔ مگر فرانسس کی اس بات کا دعوٰی حسب سابق بنا رہا کہ پانچویں اور آخری تصویر حقیقی تھی۔ یہ تصاویر اور دو کیمرے جو استعمال کیے گئے تھے، وہ بریڈفورڈ کے نیشنل میڈیا میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔

1917 کی تصاویر

ترمیم
 
کاٹنگلے بیک (Cottingley Beck) جہاں فرانسس اور ایلسی نے دعوٰی کیا تھا کہ وہاں پریوں کا مشاہدہ ہوا تھا۔

1917ء کے وسط میں فرانسس گرفتھ اور اس کی ماں — دونوں نئی نئی جنوبی افریقا سے نقلِ مقام کرکے برطانیہ آئیں تھیں— اور فرانسس کی خالہ یا پھوپھی کے ساتھ رہ رہی تھیں، جو ایلسی کی ماں تھی، کاٹنگلے گاؤں، مغربی یارک شائر میں۔ ایلسی کی عمر اس وقت سولہ سال تھی۔ یہ لڑکیاں اکثر ایک باغ کی جھیل میں کھیلکر گیلی ہوا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے ان دونوں کی مائیں ناراض ہوا کرتی تھیں۔ فرانسس اور ایلسی نے کہا کہ وہ جھیل صرف پریوں کو دیکھنے جاتی ہیں،اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایلسی نے اپنے باپ کا میگ کوارٹر پلیٹ کیمرا لیا۔ یہ لرکیاں آدھے گھنٹے بعد فاتحانہ انداز میں آئیں تھی۔[1]

ایلسی کا پاپ، آرتھر، ایک نیا جوشیلا فوٹوگرافر تھا۔ اس نے اپنا ایک فوٹوگرافی کو روبہ عمل لانے ڈارک روم قائم کیا تھا۔ فوٹوگرافک پلیٹ پر اس کی بنائی گئی تصویر فرانسس کو جھاڑی کے پیچھے سرمنظر میں دکھایا گیا، جس پر چار پریاں ناچتی ہوئی دکھائی دی۔ اپنی دختر کی فنی صلاحیتوں اور اس بات کو جاننے کی وجہ سے کہ کچھ وقت پہلے وہ ایک فوٹوگرافر کے اسٹوڈیو میں کام کر رہی تھی، اس نے ان تصاویر کو کارڈبورڈ کٹ آؤٹ کے طور پر خارج کر دیا۔ دو مہینے کے بعد یہی لڑکیا اس کیمرا کو دوبارہ لیے اور اس بار ایک تصویر کے ساتھ لوٹے جس میں ایلسی صحن میں بیٹھی تھی اور اس اور اس کے ہاتھ میں 1-فٹ-tall (30 سینٹی میٹر) ایک گنوم تھا۔ اس بات سے دل برداشتہ کہ یہ تصاویر "شرارت سے بڑھ کر کچھ نہیں"، [2] اور اس بات سے مطمئن ہوکر کہ لڑکیوں نے کیمرا کو کسی نہ کسی غلط عکاسی کے لیے استعمال کیا ہوگا، آرتھر رائٹ نے یہ کیمرا انھیں پھر سے دینے سے انکار کر دیا۔[3] البتہ اس کی بیوی پالی ان تصاویر کو سچ مانتی تھی۔[2]

1918ء کے اختتام تک، فرانسس نے یوہانا پروین کو، جو کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقا میں موجود اپنی ایک تھی، جہاں فرانسس اپنی زندگی کے زیادہ تر ایام بتا چکی تھی، ایک خط لکھا جس میں اس نے خود کی تصویر پریوں کے ساتھ شامل کی۔ اس نے تصویر کے پیچھے لکھا "یہ ہنسی کی بات ہے، میں نے انھیں افریقہ میں کبھی نہیں دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ انھیں وہاں گرمی لگتی ہو۔[4]

یہ تصاویر 1919ء میں عوام الناس کی نظروں میں آئے، جب ایلسی کی ماں بریڈفورڈ کی تھیوسوفیکل سوسائٹی کے ایک اجلا س میں شامل ہوئی۔ اس شا م کا لیکچر "پریوں کی زندگی" پر تھا اور اس اجلاس کے اختتام پر پالی رائٹ نے ان دو پریوں کی تصاویردکھائی جنہیں اس کی بیٹی اور بھانجی نے لیا تھا۔ تتیجتًا یہ تصاویر سوسائٹی کی سالانہ کانفرنس میں دکھائے جو ہاروگیٹ (Harrogate) مین کچھ مہینے بعد ہوٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰئی۔۔ یہاں پر یہ تصساویر سوسائٹی کے سرکردہ اراکین کا مرکزتوجہ بنی۔ [5] یہ تصاویر سوسائٹی کے سرکردہ رکن ایڈورڈ گارڈنر کی نظروں میں بھی آئی۔ [5] تھیوسوفیکل سوسائٹی کا ایک کلیدی عقیدہ یہ ہے کہ انسانیت کے ارتقا کے دورانیوں سے گزرتی ہے اور گارڈنر نے ان تصاویر کی اس تحریک کے لیے اہمیت پہچان گیا تھا۔

... یہ حقیقت کہ ان دو جوان لڑکیوں نے نہ صرف پریوں کو دیکھا ہے، جو دوسرے لوگوں نے تھی کیا ہے، مگر فی الواقع پہلی بار یہ ممکن ہو سکا کہ ایسی گہرائی اپنے ساتھ لائے کہ یہ فوٹو گرافک پلیٹ پر رقم ہو سکا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ارتقا کا اگلا دورانیہ عنقریب وقوع پزیر ہے۔

[6]

ابتدائی جانچ

ترمیم

گارڈنر نے ان تصاویر کے پرنٹ اور مقام واقعہ کے نیگیٹیو ہرالڈ اسنیلنگ کو بھیجا جو ایک فوٹوگرافی کے ماہر تھے۔ "اسنیلنگ کی رائے تھی کہ یہ دو نیگیٹیوز بالکلیہ اصلی اور جعلسازی سے پاک ہیں۔۔ (اس میں) رتی برابر اسٹوڈیو کے کام کا شائبہ نہیں جس میں کارڈ یا کاغذی ماڈل استعمال کیا گیا ہو۔" [7] وہ اتنا آگے نہیں بڑھے کہ یہ کہیں کہ تصاویر میں پریاں دکھائی گئی ہیں۔ صرف یہی کہا کہ "یہ فی الواقع اسی چیز کا عکس ہے جو کیمرے کے روبرو تھا۔ [8] گارڈنر نے ان پرنٹوں کو اسنیلنگ کے ذریعے "صاف" کروایا اور نئے نیگیٹوز بنائے گئے تاکہ وہ "پرنٹنگ میں معاون" ہوں تاکہ تصاویر کے ساتھ انگلستان بھر میں لیکچر دیے جا سکیں۔ اسنیلنگ نے وہ فوٹوگرافک پرنٹ فراہم کیا جسے گارڈنر کے لیکچروں میں استعمال کیا گیا تھا۔ [9][10]

 
پانچ میں سے دوسری تصویر، جس میں ایلسی پنکھ دار گنوم کے ساتھ ہے۔

مصنف اور مشہور ماہر روحانیات سر آرتھر کانن ڈایل کو ان تصاویر کا علم مطبوعہ روحانیات لائٹ سے ہوا۔[11] ڈایل کو دی اسٹرینڈ میگزین کی جانب سے پریوں پر کرسمس شمارے کے لیے ایک مضمون لکھنے کا ذمہ دیا گیا تھا اور یہ پریوں کی تصاویر "غالبًا خداداد لگی ہوں گی" جیساکہ تاریخ اور نشریات سے جڑے میگنس میگنس سن نے تجزیہ کیا ہے۔ ڈایل نے گارڈنر سے جون 1920ء میں ربط کیا تاکہ ان تصاویر کا پس منظر معلوم ہو سکے اور ایلسی اور اس کے باپ کو خط لکھا تاکہ ثانی الذکر سے اجازت ملے کہ ان پرنٹوں کو اپنے مضمون میں استعمال کیا جاسکے۔ آرتھر رائٹ "بظاہر متاثر" تھا کہ ڈایل اس میں شامل تھا اور اس نے چھاپنے کے لیے اپنی اجازت دے دی۔ تاہم کسی ادائیگی سے انکار کر دیا کیونکہ، اگر فی الواقع تصاویر حسب دعوٰی ہیں، تو یہ تصاویر پیسوں کے ذریعے "بگڑ نہ جائیں"۔[12]

گارڈنر اور ڈایل نے دوسری تجربہ کار رائے تصویر کمپنی کوڈیک سے ربط کیا۔ کمپنی کے کئی ماہرین ٹیکنالوجی نے بہتر بنائے گئے پرنٹوں کا جائزہ لیا۔ حالانکہ وہ سنیلنگ کی رائے سے اتفاق کر گئے کہ ان تصاویر میں "جعلسازی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی"، وہ اس تتیجے پر پہنچے کہ اس کو "اس کو حتمی طور پر ثبوت نہیں مانا جا سکتا ہے ... کہ یہ پریوں کی حقیقی تصاویر ہیں"۔ [13] کوڈیک نے اس بات سے گریز کیا کہ اس کی سچائی پر کوئی صداقت نامہ جاری کرے۔[14] گارڈنر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کودیک کے ماہرین ٹیکنالوجی ان تصاویر کو بامقصد انداز میں نہیں جانچے ہوں گے کیونکہ کوڈیک کے ایک ملازم نے کہا تھا کہ "چونکہ پریاں ہیں ہی نہیں، یہ تصاویر کسی طرح سے جعلی ہو سکتے ہیں"۔ [15] ان تصاویر کو ایک اور فوٹوگراف کمپنی ایلفورڈ کے ذریعے بھی جانچا گیا تھا، جنھوں نے اس کے "کچھ جعلسازی کا تتیجہ" ہونے کا واضح اشارہ دیا۔ گارڈنر اور ڈایل نے غالبًا پرامید انداز میں ان ماہرانہ جائزوں کو دو تائیدی اور ایک تردیدی قرار دیا۔[15] ٓٓ

ڈایل نے ان تصاویر کو طبیعیات دان اور نفسیاتی محقق سر آلیور لاج سے بھی مشورہ لیا، جس نے اسے جعلی کہا۔ اس کا کہنا تھا کہ رقاصوں کا ایک گروہ پریوں کا لباس پہن کر دھوکا دے رہا ہے۔ شک کی ایک وجہ پیرس کے بالوں کی بناوٹ بھی تھی۔[14]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Magnusson (2006), pp. 97–98
  2. ^ ا ب Magnusson (2006), p. 97
  3. Prashad (2008), p. 42
  4. Prashad (2008), p. 40
  5. ^ ا ب Magnusson (2006), pp. 98–99
  6. اسمتھ (1997), p. 382
  7. Magnusson (2006), p. 99
  8. Smith (1997), p. 389
  9. Smith (1997), p. 401
  10. Smith (1997), p. 383
  11. Magnusson (2006), pp. 99–100
  12. Smith (1997), p. 384
  13. ^ ا ب Magnusson (2006), p. 101
  14. ^ ا ب Smith (1997), p. 385