کبڈی
کبڈی کی تاریخ۔ پاکستان اور بھارت میں مقبول اور ہردل عزیز کھیل ہے۔ کبڈی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ۔۔۔ مگر اصل حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کبڈی کو ایجاد کرنے والے چھوڑی لوگ ہیں جو ملیر کوٹلہ موجودہ بھارتی پنجاب کا ایک شہر ہے چھوڑی گجروں کی ایک گوت ہے اس کھیل کو بلندیوں تک لے جانے والے عارف اور دلاور دونوں چھوڑی بھائی ہیں۔یہ کھیل دونوں ملکوں کے ہر گاؤں میں کھیلا جاتا ہے۔ کبڈی کا کھیل کشتی، کراٹے، اتھلیٹکس اور دوڑ کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کبڈی پنجاب میں زیادہ تر کھیلا جاتا ہے ۔ کبڈی کا پہلا ورلڈ کپ 2010ء میں ہوا جو انڈیا نے جیتا۔ دوسرا ورلڈ کپ 2011ء تیسرا 2012ء چوتھا 2013ء اور پانچواں 2014ء میں ہوا جو ابھی تک انڈیا جیتتا آ رہا ہے۔ کبڈی کا حالیہ ورلڈ کپ فروری 2020ء میں پاکستان میں ہوا۔ جو پاکستان نے جیتا اور پاکستان نے دفاعی چیمپیئن بھارت کو شکست دے کر کبڈی ورلڈ کپ کا چیمپئن بننے کا پہلا اعزاز حاصل کر لیا۔
کبڈی پاکستان، بھارت، کینڈا، امریکا، ایران، انگلینڈ، سری لنکا میں کھیلا جاتا ہے۔ 2010ء کے ورلڈکپ کے بعد کبڈی بین الاقوامی کھیل بن گیا ہے۔جبکہ 2020 کا ورلڈکپ پاکستان نے فائنل راونڈ میں انڈیا کو شکست دے کر جیتا ہے۔
تعارف
ترمیماصول
ترمیمعام الفاظ میں اسے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے دو ٹیموں کے درمیان ایک مقابلے کہا جا سکتا ہے۔ پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے ایک ٹیم کی ریڈر (کبڈی-کبڈی بولنے والا) مخالف پالے (کورٹ) میں جا کر وہاں موجود کھلاڑیوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران مخالف ٹیم کے روکنے والے (ریڈر کو پکڑنے والے) اپنے پالے میں آئے ریڈر کو پکڑ کر واپس جانے سے روکتے ہیں اور اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی ٹیم کو اس کے بدلے ایک پوائنٹس حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر ریڈر کسی سٹاپر کو چھوکر کامیابی اپنے پالے میں چلا جاتا ہے تو اس کی ٹیم کے ایک پوائنٹس مل جاتا اور جس سٹاپر کو اس نے چھو لیا ہے اسے کورٹ سے باہر جانا پڑتا ہے۔
اس کا کورٹ ڈاج بال کھیل جتنا بڑا ہوتا ہے۔ کورٹ کی پیمائش 12.50 میٹر ضرب 10 میٹر ہوتی ہے۔ کورٹ کے درمیان میں ایک لائن کھینچی ہوتی ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ کبڈی فیڈریشن کے مطابق کورٹ کا ماپ 13 میٹر ضرب 10 میٹر ہوتا ہے۔
کھیلنے کا طریقہ
ترمیمکھلاڑیوں کے پالے میں آنے کے بعد ٹاس جیتنے والی ٹیم پہلے اپنا کھلاڑی (ریڈر) مخالف ٹیم کے پالے میں بھیجتی ہے۔ ریڈر کبڈی-کبڈی بولتے ہوئے مخالف پالے میں جاتا ہے اور کسی مخالف کھلاڑی کو چھونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران وہ اس بات کا پورا خیال رکھتا ہے اس کی سانس نہ ٹوٹے۔ سانس ٹوٹنے کی صورت میں اس بھاگ کر اپنے پالے میں لوٹنا ہوتا۔ جب تک وہ سانس لینا روکے رکھ کر کبڈی-کبڈی بول سکتا ہے، وہ مخالف کھلاڑیوں (سٹاپر) کو چھونے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس عمل میں اگر وہ مخالف ٹیم کے کسی بھی سٹاپر کو چھونے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس سٹاپر کو مردہ (مر) سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسے میں اس سٹاپر کو پالے سے باہر جانا پڑتا ہے۔ اور اگر سٹاپر کو چھونے کے عمل میں ریڈر اگر سٹاپر کی گرفت میں آجاتا ہے تو اسے مرا ہوا (مر) مان لیا جاتا ہے۔ یہ عمل دونوں ٹیموں کی جانب سے باری باری چلتا رہتا ہے۔
کھیل کا وقت
ترمیمیہ کھیل عام طور پر 20-20 منٹ کے دو حصوں میں کھیلا جاتا ہے۔ تاہم آرگنائزر اس کے ایک حصے کی مدت 10 یا 15 منٹ کی بھی کر سکتے ہیں۔ ہر ٹیم میں 5-6 سٹاپر (پکڑنے میں مہارت رکھتے کھلاڑی) جنہیں جاپھی کہا جاتا ہے اور 4-5 ریڈر (چھو کے فرار ہونے میں ماہر) ہوتے ہیں۔ ایک بار میں صرف چار سٹاپروں کو ہی پالے میں اترنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جب بھی سٹاپر کسی ریڈر کو اپنے پالے سے باہر جانے سے روکتے ہیں انھیں ایک پوائنٹس حاصل ہے لیکن اگر ریڈر انھیں چھو کر فرار ہونے میں کامیاب رہتا ہے تو اس کی ٹیم کو پوائنٹس مل جاتا ہے۔
میچوں کا انعقاد عمر اور وزن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، لیکن آج کل خواتین بھی اس کھیل میں حصہ لے رہی ہیں۔ پورے میچ کی نگرانی سات لوگ کرتے ہیں: ایک ریفری، دو امپائر، دو لاسمین، ایک ٹائم کیپر اور ایک سکور کیپر۔
گذشتہ تین ایشیائی کھیلوں میں بھی کبڈی کو شامل کرنے سے جاپان اور کوریا جیسے ممالک میں بھی کبڈی کی مقبولیت بڑھی ہے۔
کبڈی کی اہم مقابل
ترمیم- ایشیائی کھیلوں میں کبڈی
- ایشیا کبڈی کپ
- پرو کبڈی لیگ
- کبڈی ورلڈ کپ
- خواتین کبڈی ورلڈ کپ
- برطانیہ کبڈی کپ
- عالمی کبڈی لیگ
عالمی کپ کبڈی
ترمیمسال | فائنل میچ |
2004ء | بھارت 55 – 27 ایران |
2007ء | بھارت 29 – 19 ایران |
2010ء | بھارت 58 – 51 پاکستان |
2011ء | بھارت 59 – 25 کینیڈا |
2012ء | بھارت 59 – 22 پاکستان |
2020ء | پاکستان 43 - 41 بھارت |
مزید دیکھیے
ترمیم- پاکستان میں کبڈی
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر کبڈی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |