کعب بن اشرف
کعب بن اشرف مدینہ میں آباد ایک یہودی تھا ۔[1] یہودیوں میں کعب بن اشرف بہت ہی دولت مند تھا۔ یہودی علما اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو اپنے خزانہ سے تنخواہ دیتا تھا۔ دولت کے ساتھ شاعری میں بھی بہت با کمال تھا، جس کی وجہ سے نہ صرف یہودیوں بلکہ تمام قبائل عرب پر اس کا ایک خاص اثر تھا۔ اس کو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم سے سخت عداوت تھی۔ جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سرداران قریش کے قتل ہو جانے سے اس کو انتہائی رنج و صدمہ ہوا۔ چنانچہ یہ قریش کی تعزیت کے لیے مکہ گیا اور کفارِ قریش کا جو بدر میں مقتول ہوئے تھے ایسا پر درد مرثیہ لکھا جس کو سن کر سامعین کے مجمع میں ماتم برپا ہو جاتا تھا۔ اس مرثیہ کو یہ شخص قریش کو سنا سنا کر خود بھی زار زار روتا تھا اور سامعین کو بھی رلاتا تھا۔ مکہ میں ابو سفیان سے ملا اور اس کو مسلمانوں سے جنگ ِ بدر کا بدلہ لینے پر ابھارا بلکہ ابو سفیان کو لے کر حرم میں آیا اور کفار مکہ کے ساتھ خود بھی کعبہ کا غلاف پکڑ کر عہد کیا کہ مسلمانوں سے بدر کا ضرور انتقام لیں گے پھر مکہ سے مدینہ لوٹ کر آیا تو حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی ہجو لکھ کر شان اقدس میں طرح طرح کی گستاخیاں اور بے ادبیاں کرنے لگے، اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کو چپکے سے قتل کرا دینے کا قصد کیا۔
کعب بن اشرف | |
---|---|
(انگریزی میں: kaab ibn elashraf)،(عربی میں: كعب بن الأشرف) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6ویں صدی مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 624ء (23–24 سال) مدینہ منورہ |
وجہ وفات | سر قلم |
قاتل | محمد بن مسلمہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
کعب بن اشرف کے یہ افعال معاہدہ کی خلاف ورزی تھے جو یہود اور انصار کے درمیان میں ہو چکا تھا کہ مسلمانوں اور کفارِ قریش کی لڑائی میں یہودی غیر جانبدار رہیں گے۔ بہت دنوں تک مسلمان برداشت کرتے رہے مگر جب پیغمبرِ اسلام صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تو محمد بن مسلمہ نے ابونائلہ و عباد بن بشر و حارث بن اوس اور ابو عبس کو ساتھ لیا اور رات میں کعب بن اشرف کے مکان پر گئے اور ربیع الاول 3ھ کو اس کے قلعہ کے پھاٹک پر اس کو قتل کر دیا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Esat Ayyıldız, Ka‘b b. el-Eşref’in Arap-Yahudi Edebiyatındaki Şiirleri, Güncel Filoloji Çalışmaları, Lyon: Livre de Lyon, 2020. s.1-28.
- ↑ سیرتِ مصطفیٰ، ص 283 عبد المصطفیٰ اعظمی