کملیشور
کملیشور ہندی کے مشہور ادیب تھے۔ وہ منی پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی مشہور کتاب ’کتنے پاکستان‘ برصغیر میں نہایت مقبول رہی۔ انھوں نے تقریباً دس ناول، کئی مختصر کہانیاں اور کئی کتابوں کی تصنیف کی ہے۔ ان کی تصنیف میں موضوع سے لے کر لکھنے کے انداز میں تنوع پایا جاتاہے۔ انھوں نے فلموں کے سکرین پلے اوراسکرپٹ بھی لکھے ۔
کملیشور | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6 جنوری 1932ء [1] مین پوری |
وفات | 27 جنوری 2007ء (75 سال)[2][1] فریدآباد |
وجہ وفات | دورۂ قلب |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | الہ آباد یونیورسٹی |
پیشہ | صحافی ، منظر نویس [1]، ناول نگار ، مصنف [1] |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی |
اعزازات | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
ان کے مشہور ادبی کارناموں میں ' آندھی‘، ’لوٹے ہوئے مسافر‘، ’تیسرا آدمی‘، ’کہرا‘ اور ’ماس کا دریا‘ شامل ہے۔ کملیشور کی ادبی خدمات کے لیے ہندوستانی حکومت نے انھیں سال دوہزار چھ میں اعلیٰ شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازہ گیا۔ ان کے مشہور ناول ’ کتنے پاکستان کے لیے‘ انھیں سنہ دو ہزار تین میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ سے نوازہ گیا۔اردو کے تنقیدی نقاد اور نظریہ دان احمد سہیل کی رائے ہے ۔ " ان کی کہانیاں ہندی ادب کے نئے افسانوں آفاق کو جنم دیتا ہے۔ جس میں عام انسانوں کے کرب ، مسائل دکھ و درد بھرا ہوا ہے۔ اس میں حکومت شکنی، خاص طور پر نوکر شاھی سے سے بیزاری نمایاں ہے۔ کملیشور ایسے ادیب ہیں جو دیو ناگری رسم الخط میں اردو لکھتے ہیں"۔ کملیشور کو مذہبی تعصب سے سخت نفرت تھی۔ خواجہ احمد عباس نے لکھا ہے۔ " موتیا بند کی تکلیف کے باوجود میں نے آر ایس ایس پر آپ کا فکر انگیز اور دل چھونے والا مضمون پڑھا اور آپ کی وسعت نظری اور سیکولر ازم کا پہلے سے بھی زیادہ قائل ہو گیا یقینا آر ایس ایس پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ نے اس جماعت کے قول و فعل کو جو حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے اس کو پڑھکر سوشلسٹوں، مارکسٹوں اور مسلمانوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے"۔ ۔۔۔ کملیشور کو ہندی فکشن کا " گورکی" بھی کہا جاتا تھا۔ انھوں نے بیالیس (42) کہانیاں اور چار (4) ناولز لکھے۔ مگر ان کا ناول ۔۔" کتنے پاکستان" کو بہت شہرت ملی۔ جس میں تقسیم ہند کے تاریخی واقعہ پر بڑی حساس اور کسی بھید بھاؤ کے بغیر کھلی کھلی باتیں لکھی ہیں ۔ اس ناول کو 2003 میں ساہیتہ اکادمی کا ایوارڈ اور 2005 میں انھیں " پدم بھوشن" کا خطاب دیا گیا۔ ان کی ناول " کتنے پاکستاں " کا ترجمہ اردو میں ہو چکا ہے ۔ کملیشور مذہبا کائست تھے لہذا ان کی ہندی بیانیہ اور متن میں اردو لفظیات کا گہرا اثر ہے۔ 70 کی دہائی میں میرے والد اور احمد ہمیش نے مجھے کملیشور کی کہانیاں ۔۔ " تلاش، مان سروکار نہیں، نیلی جھیل، مانس کا دریا، جوکھم، راجا فرینا اور نانسنی" پڑھ کر سنائی تھیں۔جس سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ اسی زمانے میں جب بھی اردو حلقوں ، نشتوں اور ادبی محافل میں کملیشور کی کہانیوں کا ذکر ہونا شروع ہوا۔ ان کا ایک معرکتہ اعلی ایک مختصر مضمون بعنوان، " صحیح زبان کی تلاش" لائق مطالعہ ہے۔
کملیشور نے ہندی کہانی کو نیا شعور اور مزاج رہا۔ ان کی کہانیوں میں جو انسان نظر آتا ہے۔ جو زندگی سے قریب ہے۔ فرد جس معاشرے میں رہتا ہے، رنج و غم سہتا ہے اور دنیا میں جیسے تیسے زندگی کاٹتا ہے۔ یہی کملیشور کی کہانیوں کا فکری مقولہ ہے۔ اس رویے کو " سمانترا" تحریک بھی کہا جاتا ہے۔"{احمد سہیل} 4۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ https://cs.isabart.org/person/145574 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ http://www.hindustantimes.com/news/181_1913306,000600010001.htm
- ↑ http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#KASHMIRI — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2019