ارارات (Ararat) ترکی کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ اسے کوہ ارارات بھی کہتے ہیں۔ اس کی بلندی 5137 میٹر / 16854 فٹ ہے۔ یہ ترکی میں ایران اور آرمینیا کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ ارارات ایک آتش فشانی پہاڑ ہے جو آخری بار 1840ء میں پھٹا تھا۔ قدیم مذہبی روایات کے مطابق طوفان نوح کے بعد نوح کی کشتی اس پہاڑ کی چوٹی کے ساتھ رکی تھی۔

ارارات
بلند ترین مقام
بلندی5,137 میٹر (16,854 فٹ)
امتیاز3,611 میٹر (11,847 فٹ) 
48ویں درجہ پر
انفرادیت379.29 کلومیٹر (1,244,400 فٹ)
فہرست پہاڑملک کا بلند ترین پہاڑ
جغرافیہ
ارارات is located in ترکی
ارارات
ارضیات
قسم پہاڑبرکانی آتش فشاں
آخری خروج1840
کوہ پیمائی
پہلی بار1829
ڈاکٹر فریڈرچ بیرٹ اور
خچاطور ابووین
ارارات

پہاڑ کے نزدیک ترکی ایران اور روسی آرمینیا کی سرحدیں ملتی ہیں لیکن آتش فشانی کوه آراراط یا ارارات مکمل طور پر ترکی میں واقع ہے۔ اس کی شمالی اور مشرقی ڈھلان کی طرف آرس بہتا ہے جو سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے۔ مغرب کی طرف چھوٹی چھوٹی آتش فشاں پہاڑیوں کا سلسلہ ہے۔ ان میں سے ساڑھے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا دره گزرتا ہے۔ کوه آراراط کی میخ کا قطر 25 میل ہے۔

کوہ ارارات دو چوٹیوں پر مشتمل ہے۔ ان کا درمیانی پلان 8800 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ دونوں چوٹیوں کے درمیان سات میل کا فاصلہ ہے۔ بڑی چوٹی کی انتہائی بلندی 16945 فٹ ہے۔ چھوٹی چوٹی کی ڈھلوان ہموار اور مسلط ہے اور اس کی انتہائی بلندی 12877 فٹ ہے۔ ان دونوں چوٹیوں کے قریب دور دور تک کوئی اور چوٹی اتنی بلند نہیں ہے۔ دونوں چوٹیاں لاوے اور آتشی چٹانوں سے بنی ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں آتش فشانی کا عمل ہوتا ہوگا۔ لیکن اب تو اس پر ہمہ وقت برف جمی رہتی ہے اس کے اردگرد کے میدانوں میں عمدہ گھاس کے وسیع قطعات ہیں۔ یہاں کرد قبائل اپنی بھیڑیں چراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کوه ارارات کے دامن میں کہیں کہیں درخت بھی ملتے ہیں۔ لیکن پہاڑ سبزے سے خالی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں آبادی تھی۔ المقدی لکھتا ہے کہ اس پر ایک ہزار گاؤں آبادتھے

ارارات کا نام سب سے پہلے بائبل میں ملتا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ طوفان نوح کی کشتی "آرک" اسی پہاڑ کی بڑی چوٹی پر آکر ٹھہری تھی۔ بائبل میں ہے۔ ”ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کو آراراط کی پہاڑیوں پر رک گئی۔(پیدائش 8: 4)

اسے کوہ جودی اور جبل الحارث بھی کہتے ہیں۔ جودی کا قدیم نام اغرى تاغ تھا۔ ابن قتیبہ نے ارارات ہی کو کوہ جودی ٹھہرایا ہے جس پر قرآن مجید کی رو سے کشتی نوح جا کر ٹھہری تھی۔ اسے جبل قرار بھی کہا گیا ہے۔ اسکندر اعظم کے عہد کا مورخ پرودس لکھتا ہے کہ اسے کوہ جودی کی چوٹی پر سے کشتی کے آثار بھی ملے تھے۔ ابن بطوطہ (725ء) نے بھی اس پہاڑ کی زیارت کی تھی۔

آج بھی دنیا کے اکثر لوگوں کو یقین ہے کہ ارارات کی چوٹیوں پر جمی ہوئی ہزاروں برس پرانی برف کے نیچے نوح کی کشتی موجود ہے۔ آرمینیا کے لوگ اس روایت پر یقین رکھتے ہیں۔ کہ طوفان نوح کے بعد دنیا میں بسنے والی پہلی قوم آرمینیا کے لوگ تھے۔ ارارات کے دامن میں ایک گاؤں ”اگری" واقع ہے۔ روایت کے مطابق یہیں پر نوح نے اپنی کشتی بنائی تھی۔

ارارات کا عبرانی نام 'ارا رھو' یا "ارا تو" تھا۔ نویں سے ساتویں صدی قبل مسیح تک آشور اور بال کی سلطنتوں کی وسعت دجلہ و فرات سے لے کر کوه ارارات تک تھی۔ ارارات کو فارسی میں کوہ نوح بھی کہتے ہیں۔ اس کے دامن میں آباد ایک گاؤں سینٹ جیکب کے لوگوں کا خیال ہے کہ ارارات پر چڑھنے والا عتاب خداوندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن 27 ستمبر 1829ء میں ایک جرمن جان جیکب وان پیرٹ پہلی بار اس پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1845ء میں ایک اور جرمن ماہر ارضیات پروفیسر ہرمین آپ اس پر چڑھا۔ اس کے بعد تو یورپی لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ کشتی نوح کا پتا چلانے کے لیے مختلف مہماتی جماعتیں آتی رہتی ہیں لیکن ابھی تک کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

موجودہ کوه ارارات تین ملکوں ترکی، روس اور ایران کے مابین سرحدی نشان کا کام دیتا ہے۔ البتہ یہ پورا علاقہ ترکی کے پاس ہے۔ [2]

نگار خانہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. 2007 GPS survey
  2. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا- ص 41، ج اول۔از سید قاسم محمود، عطش درانی- مکتبہ شاہکار لاہور

بیرونی روابط

ترمیم