کیریکیچر
کیریکیچر (ماخوذ از انگریزی caricature، اردو: مسخاکہ) ایک طرح کی تصویر کشی کو کہا جاتا ہے جس میں دکھائے جا رہے شخص یا شے کی خصوصیات کو بہت ہی سادہ انداز میں یا پھر مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے قلمی تصویر کا اتارا جانا، قلمی جنبش کی چند لکیروں سے تصویر کا اتارا جانا یا کچھ اور فنکارانہ انداز میں تصویر کا پیش کیا جانا شامل ہے۔
ادب کی دنیا میں کیریکیچر کسی شخص کی تعریف اس کی کچھ خصوصیات کی مبالغہ آمیزی کے ساتھ کیے جانے اور کچھ دوسرے لوگوں کے انتہائی سادگی بھرے انداز میں بیان کیے جانے کو کہا جاتا ہے۔
کیریکیچر توہین آمیز بھی ہو سکتے ہیں اور یہ مدح سرائی کے انداز میں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی سیاسی مقصد براری کے لیے بھی ہو سکتے ہیں یا صرف تفریحی انداز میں بھی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ سیاست دانوں کے کیریکیچر اکثر اداریہ جاتی کارٹونوں میں پیش کیے جاتے ہیں، جبکہ فلمی ستاروں کے کیریکیچر اکثر تفریحی رسائل کی زینت بنتے ہیں۔
کیریکیچر صرف چہرہ بگاڑنے کا نام نہیں بلکہ اس کے ذریعے ظاہری یا تصوراتی شخصیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ کارٹون کی اس صنف میں تمام منفرد نقوش کو بڑھا چڑھا کر نمایاں نہیں کیا جاتا۔ پکاسو جیسا فن کار بھی مصور کی بجائے زیادہ تر کیریکیچر ساز نظر آتا ہے۔ یہ بھی ایک تصور ہے کہ کیریکیچر میں کسی جانور کی جھلک ہوتی ہے۔ اب یہ کارٹون نگار پر منحصر ہے کہ وہ جانور کے کس نقش کو فرد کی عکاسی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ برطانوی کارٹون نگار اِسٹیو بیل نے جارج ڈبلیو بش کو چمپانزی کی شکل میں بنایا تھا۔
پاکستان میں کارٹون نگاروں کا پسندیدہ نشانہ سابق صدر محمد ضیاء الحق تھے۔ کارٹون نگار ان کی آنکھوں کے حلقوں، خم دار ناک اور مونچھوں کے نیچے پوشیدہ مکارانہ ہنسی کو نشانہ بناتے تھے۔ ضیاء الحق کے کیریکیچروں سے عقاب یا گدھ کا تاثر ابھرتا تھا۔
بھارت میں ماضی میں مشہور کارٹون نگار آر کے لکشمن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اکثر عام آدمی کیریکیچر کو اپنی کارٹونوں اور تحریری کی پہچان بنا چکے ہیں۔ ان کی کارٹونوں میں ملک کی سڑکوں پر پھرنے عام اور سادہ لوح لوگوں کے کبھی مزاحیہ خیز، کبھی معصومانہ تو کبھی موقع و مناسبت کے رد عمل کو دکھایا ہے۔ ان کے اس کارٹون کردار کو دی کامن مین یا عام آدمی کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ [1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "R.K. Laxman | Cartoonist | The Common Man | Personalities"۔ 12 اکتوبر، 2011