گوجرہ
گوجرہ، صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے۔ یہ فیصل آباد سے 50 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباً ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ گوجرہ کی تحصیل کے ایک گاؤں 342 ج۔ ب میں حضرت پیر سید محمد حسین شاہ گیلانی اور پیر سید دلشاد حسین شاہ گیلانی کے دربار ہیں گوجرہ کی عوام کا ذریعہ معاش زیادہ تر زراعت ہے یہاں پر مکئی، گنا، کپاس اور گندم وسیع پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔ گوجرہ کی مشہور سوغات مند برفی ہے اور اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشن کے پاس شکور جٹ کی برفی بھی مشہور ہے اس کے علاوہ مولوی کے پکڑے بھی بہت مشہور ہے گوجرہ سے مونگی بنگلہ روڈ پر گاؤں گھنیا سٹاپ ہے جو فرنیچر کی بڑی مارکیٹ کے طور پر جانا جاتا ہے یہاں پر اعلیٰ قسم کا معیاری فرنیچر تیار کیا جاتا ہے
ملک | پاکستان |
---|---|
صوبہ | پنجاب |
ضلع | ٹوبہ ٹیک سنگھ |
قیام | ء1896 |
قصبوں کی تعداد | 1 |
حکومت | |
• یونین کونسلیں | 6 |
رقبہ | |
• کل | 17 کلومیٹر2 (7 میل مربع) |
بلندی | 465 میل (1,526 فٹ) |
آبادی (1998) | |
• کل | 117,892 |
• کثافت | 6,900/کلومیٹر2 (17,000/میل مربع) |
• تخمینہ (2005) | 143,369 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | PDT (UTC+6) |
ڈاک رمز | 36120 |
ٹیلی فون کوڈ | +9246 |
ویب سائٹ | www |
تعارف
ترمیمضلع ٹوبہ کی تحصیل گوجرہ تقریبا اڑھائی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہاں ہاکی کے درجنوں نامور کھلاڑیوں نے جنم لیا جنھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
گوجرہ کا کل رقبہ سترہ مربع کلومیٹر ہے اور اپنے محل وقوع کی وجہ سے اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی 174831 تھی،
وَجْہ تَسمِیَہ
ترمیمبیاسی سالہ نذیر احمد غلہ منڈی میں آڑھتی ہیں اور گوجرہ کی تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ علاقہ پہلے مسافروں کے سستانے کے لیے ایک منزل کے طور پر جانا جاتا تھا۔
'چند کاشتکار گھرانوں نے اس علاقے میں رہائش کے لیے جھونپڑیاں تعمیر کر رکھی تھیں جہاں وہ اپنے جانور پالتے تھے جنہیں 'گوجر' کہا جاتا تھا۔'
انھوں نے بتایا کہ اس برادری کے لوگوں کے لیے یہ جگہ شروع میں ایک گزرگاہ کی حیثیت رکھتی تھی اور اسی مناسبت سے اسے 'گوجر راہ' کہا جانے لگا جو بعد میں تبدیل ہوتا 'گوجرہ' بن گیا۔[1]
قدامت
ترمیمنذیر احمد کا مزید کہنا ہے کہ رفتہ رفتہ اس علاقے میں آبادی بڑھنے لگی جبکہ زرعی علاقہ اور سب سے بڑی غلہ منڈی ہونے کی وجہ سے قیام پاکستان سے قبل 'امپیریل بینک آف انڈیا' کی ایک برانچ بھی گوجرہ میں قائم تھی۔
ان کے مطابق جس جگہ اب ہاکی اسٹیڈیم بنایا گیا ہے وہاں کسی زمانے میں بہت بڑی مال منڈی لگا کرتی تھی جسے ایک خاص مقام حاصل تھا۔
رانا محمد افضل تحصیل میونسپل آفیسر گوجرہ تعینات ہیں اور تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق سال 1896ء میں 'گوجرہ ٹاؤن' اس وقت بنایا گیا جب لائلپور کی آباد کاری شروع ہوئی۔
'سال 1899ء میں لائلپور سے گوجرہ تک ریلوے لائن بچھائی گئی جبکہ زرعی اجناس اور علاقائی اہمیت کی وجہ سے 1904ء میں اس علاقہ کو نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا اور سال 1925ء میں اسے بی کلاس میونسپیلٹی کا درجہ دے دیا گیا تھا۔'
وہ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور سال 1960ء میں اس کی بڑھتی ہوئی آبادی اور تجارت کے مجموعی حجم کو دیکھتے ہوئے اسے سیکنڈ کلاس میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔
ان کے مطابق سال 1982ء میں جب ٹوبہ کو ضلع بنایا گیا تو گوجرہ کو تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔
کاروباری شخصیت سینتالیس سالہ حاجی شوکت گوجرہ شہر کی موجودہ حیثیت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ یہاں کے تمام مشہور بازار (مین بازار، صرافہ بازار، ٹینکی بازار، تھانہ بازار اور مہدی شاہ بازار) قیام پاکستان سے قبل کے ہیں جبکہ 'گڈہ خانہ چوک' بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
'یہاں لگنے والی غلہ منڈی میں دور دراز سے آنے والے تاجر اپنی بیل گاڑیاں باندھا کرتے تھے جنہیں مقامی زبان میں گڈہ کہا جاتا تھا۔ تاہم گڈہ خانہ تو ختم ہو گیا لیکن یہ چوک اسی نام سے مشہور ہے۔'
حاجی شوکت کا کہنا ہے کہ گوجرہ کی زرعی اجناس کے علاوہ یہاں جنم لینے والے ہاکی کے کھلاڑیوں نے بھی عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے۔
محمد اقبال بالی عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور عرصہ دراز سے ہاکی کا کلب چلا رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ چند دہائیاں قبل تک قومی ٹیم کے گیارہ میں سے آٹھ کھلاڑی گوجرہ کے ہوتے تھے۔
'اسلم روڈا جو وفات پا گئے ہیں ان کے اور میرے کلب میں ہونے والے مقابلے کانٹے دار ہوا کرتے تھے اور یہیں سے پاکستان ہاکی کو بہت سے اچھے کھلاڑی ملے۔'
ان کے بقول 'گوجرہ کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں میں منظور الحسن، رشید الحسن، طاہر زمان، محمد قاسم، ندیم اینڈی، اسلم روڈا، سلیم خالد، طارق عمران، دانش کلیم، عثمان شیخ وغیرہ شامل ہیں۔'
شخصیات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ اسد سلیم شیخ (2016)۔ نگر نگر پنجاب۔ فکشن ہاؤس لاہور۔ ص 492